ارشادِ ربانی ہے: ’’اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور
بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے
تاکہ تم سبق لو‘‘۔ خطبۂ جمعہ کے اختتام پر یاددہانی کے طور پر پڑھی جانے
والی یہ آیت دین اسلام کا مختصر اور جامع تعارف ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے بھی اس
آیت کو اسلام کے تعارف کا ذریعہ بنایا۔ ’’اکثم بن صیفی‘‘بنوتمیم کے صاحب
فہم وفراست سردار تھے۔ اعلانِ نبوت کے بعدانھوں نے آپ ؐ کی خدمت میں حاضر
ہونے کاارادہ کیامگرقوم کے منع کرنے پر دونمائندوں کو بھیجا ۔ انھوں نے نبی
مکرمﷺ سے پوچھا آپ کون ہیں ؟ اور آپ کیاہیں ؟ آپؐ نے فرمایا : ’’ میں
محمد بن عبد اللہ ہوں ‘‘اور دوسرے سوال کاجواب یہ ہے کہ ’’میں اللہ کابندہ
اور اس کا رسول ہوں ‘‘ اور پھر یہ آیت سنا کر دین کا تعارف پیش فرما دیا۔
اکثم بن صیفی نے یہ سن کر کہا وہ تو بڑی اچھی اور اعلی باتیں سکھاتے ہیں
اور بری اور سفلی باتوں سے روکتے ہیں۔ میرے قبیلے کے لوگو تم اسلام کی طرف
سبقت کرو تاکہ تم دوسروں پر سرداری کرو اور پیچھے نہ رہ جاؤ۔بعض روایات کے
مطابق اکثم بن صیفی بعد ایک جماعت کے ساتھ نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کے لئے
روانہ ہوئےتاہم راستے میں وفات سے قبل ساتھیوں کوایمان لانے کی وصیت کرگئے۔
دشمن اسلام ابو جہل نے بھی اس آیت کو سن کر کہاتھا کہ :’’محمد کا خدا
مکارم اخلاق کاحکم دیتاہے ‘‘۔قوم عرب کی ایک مجلس میں حضرت ابوبکر ؓ
نےحاضرین سے پوچھا آپ لوگوں کاتعلق کس قبیلے سے ہے ؟ انھوں نے جواب دیا
شیبان بن ثعلب سے۔ حضور اکرم ﷺ نے ان سے کہاکہ وہ قریش کے مقابلے میں آپ ؐکی
مدد کریں کیونکہ قریش نے تکذیب کی ہے۔ اس پر مقرون بن عمرو نے کہا آپ ؐہمیں
کس چیز کی دعوت دیتے ہیں ؟ اس کے جواب میں نبی کریم ﷺ نے یہ آیت تلاوت
فرمائی تو اس نے کہا ’’خدا کی قسم ! ایہ مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کی
دعوت ہے، وہ قوم خود جھوٹی ہے جو آپ کی تکذیب کرتی ہے ۔ ‘‘حضرت عمر بن عبد
العزیز ؒ نے اسے خطبہ ٔ جمعہ میں داخل فرمایا ۔ حکمراں ہونے کی حیثیت سے
عدل کی بابت وہ اس قدرمتوجہ اور فکر مند تھے کہ ایک مرتبہ محمد بن کعب
القرظیؓ کو بلاکر عدل کی حقیقت بیان کرنے کی استدعا کی ۔
موصوف کا شمار علم وفقہ کے اعتبار سے مدینہ کے فضلا میں ہوتا تھا۔ ان
کوقرآن وحدیث میں یکساں کمال حاصل تھا۔ وہ چونکہ حدیث کے بھی ممتاز حافظ
تھے اس لیے علامہ ابن سعد ؒان کاتعارف ثقہ عالم اور کثیرالحدیث کے طور پر
کرتے ہیں۔ خیر امیر المونین حضرت عمر بن عبدالعزیز کے سوال پر انہوں نے کہا
بہت خوب ! آپ نے بڑا اہم سوال کیاہے اور عدل کے تقاضے اس طرح بیان فرما ئے
:’’ عدل کاتقاضہ یہ ہے کہ آپ اپنے چھوٹوں کے لیے باپ کی طرح بن جائیں اور
اپنے سے بڑوں کے لیے بیٹے کی طرح (سعادت مند) بن جائیں اور اپنے ہمعصروں کے
ساتھ بے تکلف بھائی جیسا برتا ؤ کریں‘‘۔ انسان بیک وقت مختلف حیثیت میں
ہوتا ہے۔ ایک ہی محفل میں وہ ایک سے بڑا تو دوسرے سے چھوٹا ہوتا ہے۔ وہیں
اس کے ہم عمر لوگ بھی موجود ہوتے ہیں ۔ ان سب کے ساتھ حسبِ مراتب رویہ
اختیار کرنا ۔ ایک کی سرپرستی تو دوسرے کا سعادتمند ہونا اور حلقۂ یاراں
میں بے تکلف ہوجانا آسان کام نہیں ہے ۔روزمرہ کی زندگی میں عام طور پر عدل
کا یہ پہلو محوِ نظر ہوجاتا ہےلیکن باپ ، بیٹے اور بھائی کی مثال اسے آسان
بنا دیتی ہے۔
عدل و مساوات دراصل جبر و ناانصافی کی ضد ہےلیکن محمد بن کعب القرضی ؒ اپنی
عورتوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کی نصیحت بھی فرماتے ہیں۔دورِ جدید میں
صنف نازک پر رونگٹے کھڑےکرنے والے مظالم کے تناظر میں عدل کا یہ پہلوغیر
معمولی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ عصرِ حاضرکی بابت یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ
فی زمانہ عدل و مساوات کے حوالے سے بہت ترقی ہوئی ہے لیکن اس کی قلعی بلقیس
بانو معاملہ نے کھول دی ہے۔ گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کی اجتماعی
عصمت ریزی کی گئی اور تین سالہ بچی سمیت کئی افرادِ خانہ کو قتل کردیا گیا۔
مجرمین کو عمر قید کی سزا ہوئی مگر اس میں تخفیف کرکےانہیں رہا کردیا گیا۔
بلقیس بانو نے اس ناانصافی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو اسے جسٹس
اجئے رستوگی اور جسٹس بیلا ترویدی کی بنچ کے حوالے کیا گیا ۔ اس معاملے میں
سرکاری دباو کے سبب پہلے تو بیلا ترویدی نے سماعت سے معذرت کی اور پھر اجئے
رستوگی نے بھی نئی بنچ تشکیل دینے کی گزارش کردی۔ سیکولر نظامِ حکومت میں
سرکار کے ڈر سے اگر عدلیہ اپنی ذمہ داری سے فرار اختیار کرے تو بھلا انصاف
کیسے ہو گا؟ لیکن کسی کو اس کی فکرنہیں ہے۔ آج نہ عمر بن عبدالعزیزؒ جیسا
انصاف پسند خلیفہ موجود ہے اور نہ القرضی جیسےبیباک مشیر پائے جاتے ہیں۔
ایسے میں علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
|