میں اور کچھ دوست شادی ہال کے باہرکھڑے تھے۔ہمارے ایک
دوست کے بیٹے کی شادی تھی۔ابھی تک صرف چند مہمان موجود تھے۔ہم بجائے ہال
میں بیٹھنے کے وہیں سڑک کے کنارے کھڑے دوسرے دوستوں کا انتظار کرنے
لگے۔اتنے میں ایک رکشا آ کر رکا۔ ہمارے ایک بزرگ دوست جو ریٹائرڈ پروفیسر
تھے اور لاہور کے گردونواح کے چند چھوٹے کالجوں میں پرنسپل بھی رہے تھے،
رکشے سے اترے اور رکشے والے کو پیسے ادا کرنا چاہ رہے تھے مگر رکشے والا
پیسے لینے کی بجائے ان کے پیروں کو چھونے اور پیسے لینے سے انکار کررہا
تھا۔ان کو کشمکش میں دیکھ کر ہم آگے بڑھے، پوچھا کہ کیا مشکل ہے۔کہنے لگے ،
میں نے اس کے رکشے پر سفر کیا ہے مگر پتہ نہیں کیوں یہ کرایہ لینے پر تیار
نہیں۔ ہم نے کہا کہ بیٹا، تم انہیں اپنے رکشے میں بٹھا کر یہاں تک لائے ہو۔
اس کا کرایہ لیناتمہارا حق ہے، کیوں نہیں لیتے۔ کہنے لگا جناب یہ مجھے
پہچانتے نہیں۔ انہی کی دعاؤں اور محنتوں کی طفیل تو میں یہاں تک پہنچا ہوں۔
فلاں کالج میں یہ میرے پرنسپل تھے۔ان کے پیار اور شفقت کا بدل میں دے ہی
نہیں سکتا۔ آج اﷲ نے موقع دیا ہے ان کی خدمت کا تو انہیں کہیں کہ مجھے
محروم نہ کریں۔اس کی باتیں اس کے سچے اور حقیقی جذبوں کی ترجمان نظر آ رہی
تھٰیں۔ ہمیں اچھا ہی نہیں بہت اچھا لگا۔ یہی استاد کا احترام ہوتا ہے۔ہم نے
اس بچے کو کہا کہ ٹھیک ہے تم ان سے پیسے نہ لو مگر رکشا ایک طرف کھڑا کرکے
ہمارے ساتھ چائے پیو۔وہ مان گیا ، ہم نے ایک قریبی کھوکھے پر اکٹھے چائے پی۔
پھر ہم نے بہ اصرار اسے کچھ پیسے انعام کے طور پر دئیے۔وہ لینا نہیں چاہتا
تھا۔ ہم نے زبردستی دئیے کہ ہم لوگ اس کے باپ کی طرح ہیں اور ان سے انعام
لینے سے انکار بھی اچھی بات نہیں۔وہ سادہ سا شخص تھا۔ خوش خوش چلا گیا۔
ایک دن انہی پروفیسر صاحب کے ساتھ کہیں جا رہے تھے میری گاڑی تھی اور ہیں
ہی چلا رہا تھا۔ ایک جگہ مڑتے ہوئے محسوس ہوا کہ گاڑی کا پہیہ پنکچر ہو گیا
ہے۔ گاڑی روکی ۔واقعی پنکچر تھا۔سامنے پٹرول پمپ تھا۔ میں پٹرول پمپ پر
پہنچا ۔ پنکچر شاپ پر ایک نوجوان سے کہا کہ بھائی ،وہ سامنے میری پنکچر
گاڑی کھڑی ہے ۔ کسی طرح پہیہ کھول کر لے آؤ اور پنکچر لگا دو۔کہنے لگا،
گاڑی یہاں لانا آپ کا کام ہے ، ہم صرف پنکچر لگاتے ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ
وہ پہیہ کھول لائے،اس کا تو روٹین کام تھا،مجھے شدید مشقت کرنا پڑتی۔ابھی
بحث جاری تھی کہ اس شاپ کا مالک اٹھا اور کہنے لگا،جناب ہمارا کام گاڑی کو
کھینچ کر لانا نہیں، آپ سٹارٹ کر کے لے آئیں۔ ہوا زیادہ نکل چکی ہے پہیہ کٹ
جائے گا۔ کہنے لگا وہ سامنے والی گاڑی ہے ، تھوڑا سا راستہ ہے ہمت کرکے لے
آئیں کچھ نہیں ہو گا۔اس دوران گاڑی کی طرف اس کی نظر دوبارہ پڑی تو ایک دم
گاڑی کی طرف بھاگنے لگا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسے کیا ہوا، وہاں گاڑی تھی
اور اور اس کے ساتھ میرے پروفیسر دوست جو رکشے والے کے بھی استاد تھے ،
کھڑے تھے۔پنکچر شاپ کے مالک نے بڑھ کر ان کے پیر چھوئے اور ہاتھ باندھ کر
کھڑا ہو گیا، پروفیسر صاحب ،میں ہوں آپ کا شبیر، پہچانا۔
پروفیسر صاحب نے بھی شبیر کو پہچان کر گلے لگایا۔ بڑے تپاک اور شفقت سے
ملے۔پوچھا، شبیر تم یہاں کہاں۔ جواب ملا، سر آپ کی دعاؤں سے اﷲنے بڑا کرم
کیا ہے۔ یہ سامنے میری شاپ ہے ۔ آپ چابی دیں اور میرے ساتھ آئیں۔ چند لمحوں
میں ہم پٹرول پمپ کے مالک کے کمرے میں بیٹھے تھے۔شبیر نے تعارف کرایا کہ
جناب یہ میرے استاد ہیں اور ساتھ ان کے دوست۔ میں آج جو بھی ہوں ان کی
دعاؤں اور محنتوں کے سبب ہوں۔وہیں ایک پر تکلف چائے کے بعد ہم اٹھے تو گاڑی
تیار تھی۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد میرا دوست کہنے لگا کہ چھوٹے کالجوں کے
غریب طلبا کی دوڑ انہی کاموں تک ہوتی ہے اور انہیں معقول روزگار میسر ہو
جائے تو یہ لوگ صبر اور شکر کے ساتھ زندگی گزارنے پر قناعت کرتے ہیں۔میں
کبھی کسی بس میں بیٹھوں تو کنڈکٹر میرا شاگرد نکل آتا ہے۔کبھی ڈرائیور
شاگرد ہوتا ہے۔ کبھی کسی تنور پر جاؤں تو پتہ چلتا وہ بھی میرا شاگرد
ہے۔روٹیاں زبردستی مفت دیتا ہے۔یہ نہیں کہ میرے شاگرد اچھے عہدوں پر نہیں۔
بہت ہیں مگر میں ان سے خود جا کر ملنا پسندنہیں کرتا۔ انکی چاہت میں ان کا
کروفر بھی شامل ہوتا ہے ۔ وہ چاہتے کہ احترام آ کر وصول کرو۔اصل میں انہیں
فوٹوشوٹ کرنا اور دنیا کا دکھانا بھی ہوتا ہے کہ ان میں ابھی احترام کی کچھ
رمق باقی ہے۔کبھی کسی بڑی محفلایک استاد اور اور اس کے کسی نامور شاگرد کی
ایک دوسرے پر نظر پڑ جائے تو محترم شاگرد صاحب دور سے آدھا ہاتھ ہلا دیتے
ہیں کہ آگے بڑھ کر استاد سے ملنے کے باعث ان کے رعب اور دبدبے پر کوئی حرف
نہ آ جائے۔
ہمارے معاشرے کا چلن ہی عجیب ہے ۔ جس کو کوئی عہدہ یا رتبہ مل جاتا ہے ۔ اس
سے فائدہ حاصل کرنے والے لوگ اسے اس قدر چڑھا دیتے ہیں کہ ان میں زیادہ تر
اپنی اوقات بھول جاتے ہیں۔ہمارے جج، جنرل، صحافی، بیوروکریٹ اور با اثر
افراد میں کچھ ایسے ضرور ہیں کہ اپنے اساتذہ کا سچا احترام کرتے اور انہیں
پوری عقیدت اور احترام سے ملتے ہیں۔اپنے مرتبے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے
استاد سے ملتے وقت ایک طالب علم کے لیول پر آ جاتے ہیں۔مگر زیادہ کا رویہ
مایوس کن ہی ہوتا ہے۔خصوصاًاپر کلاس کے طالب علم اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی
مایوس کن رویہ رکھتے ہیں۔مگر درمیانے گھروں، مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے بچے
احترام استاد میں کبھی کوئی کسر نہیں چھورٹے۔وہ استاد کو دیکھ کر دور سے
بھاگے آتے ہیں۔میرے ایک ساتھی کہا کرتے تھے ’’وہ شخص جسے اپنے ماں باپ اور
گھر کے بزرگو ں کا احترام کرنا آتا ہے کہ جس کی پرورش اس کے والدین نے اچھے
اور پاکیزہ ماحول میں کی ہے۔ اسے اپنے اساتذہ کیا ہر بزرگ کا احترام کرنا
آتا ہے۔جو ایسا نہیں کرتا یقیناً اس کے گھر کے ماحول میں کچھ کمی ہوتی
ہے۔یا پھر استاد ایسا ہوتا ہے جو اپنے شاگرد کو کچھ دے نہیں سکا ہوتا‘‘
|