ساٹھ سال سے زائد عمر کی بوڑھی عورت جو ہڈیوں کے پراسرار ڈھانچے کی شکل میں
کار کی پچھلی سیٹ پڑی تھی نے میری طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا اورکہا
پروفیسر صاحب کیا آپ میری مدد کرسکتے ہیں میرا دنیاوی مسئلہ کوئی نہیں ہے
آپ کے پاس جو بہت سارے لوگ روحانی مدد یا فیض کے لیے آئے ہو ئے ہیں میرا
مسئلہ اُن جیسا نہیں بلکہ بلکل اُلٹ ہے میں بہت سارے روحانی معالجوں کے پاس
اپنا وقت برباد کر کے اب آپ کے پاس بہت امید سے آئی ہوں اِس لیے تاکہ آپ
میری مدد کر سکیں میری حالت دیکھ کر آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ
میں بیماریوں کا چلتا پھرتا اشتہار دھرتی پر جتنی بیماریاں ہیں وہ ساری کی
ساری میرے اندر سرنگیں بنا چکی ہیں آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں ایک
پڑھی لکھی ڈاکٹر ہوں انسانی جسم اِس کی اوقات اور اندرونی نظاموں کو خوب
اچھی طرح جانتی ہوں جب بوڑھی عورت نے یہ کہا میں ڈاکٹر ہوں تو میں واقعی
پریشان ہو گیا کیس پر اب پراسراریت کا رنگ غالب آگیا تھا بوڑھی عورت کسی
نہایت پراسرار بیماری یا مسئلے کا شکار تھی میں نے پچھلی سیٹ پر پڑی لاش
نما بوڑھی عورت کوالجھی نظروں سے دیکھا اور بولا جی فرمائیں میں آپ کی کیا
مدد کر سکتا ہوں تو بوڑھی مایوس لہجے میں بولی میری مدد تو اب صرف اﷲ اور
موت ہی کر سکتی ہے لیکن پتہ نہیں پھر بھی میں کیوں آپ جیسے لوگوں پر بھروسہ
کر نے آجاتی ہوں بوڑھی عورت شدید مایوسی کا شکار تھی کوئی لا علاج بیماری
تھی جو اِس کی رگوں میں خون کی جگہ گردش کر رہی تھی میں جلدی حقیقت کی تہہ
تک پہنچنا چاہتا تھا اِس پراسرار بیماری کی وجہ کیا ہے میں سوالیہ نظروں سے
بوڑھی عورت کو دیکھ رہا تھا اب سوالیہ لہجے میں بولا جی ماں جی فرمائیں آپ
کا مسئلہ بیماری پریشانی سوال کیا ہے اور میں کس طرح آپ کی مدد کر سکتا ہوں
میری بات سن کر بیماریوں کے ڈھانچے نے اٹھنے کے لیے حرکت کی کو شش کی لیکن
کسمسا کر پھر گر سی گئی چہرے اور آنکھوں میں موت کی چاپ سنائی دینے لگی خوف
کی لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں گردش کرنے لگی کیونکہ بوڑھی عورت اٹھنے کی کو
شش کر رہی تھی لیکن بیماریوں کے طویل اثرات بڑھاپا اور نقاہت اُس کو اجازت
نہیں دے رہے تھے اُس کی لاچارگی دیکھ کر میں بولا آپ اٹھنے کی کوشش نہ کریں
بتانے کی کوشش کریں کہ آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے مجھے لگا شاید طویل بیماری
اور بڑھاپے کی وجہ سے عورت نفسیاتی عوارض کا شکار ہو کر وہمی سی ہو گئی ہو
کہ مُجھ پر جادو جنات آسیب کا اثر ہو گیا کیونکہ ہمارے ملک میں جب جسم
بڑھاپے کی حدود میں داخل ہو تا ہے اور بیماریاں کمزور ایمیون سسٹم کی وجہ
سے حملہ ہو تی ہیں تو دوائیاں اثر نہیں کرتیں تو مریض ایک ڈاکٹر سے دوسرے
ڈاکٹر معالج ہسپتال لیبارٹریاں بدلتا نظر آتا ہے پھر اِس وہم کا شکار ہو
جاتا ہے کہ مُجھ پر نظر بد جادو یا کوئی خوفناک آسیب چڑ ھ گیا ہے ایسے مریض
یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا وقت پورا ہو گیا بڑھاپے کی وجہ سے میٹابولزم اب
زیادہ طاقت سے بیماریوں کا مقابلہ نہیں کر رہا اِس لیے کوئی بھی وائرس
جراثیم جب جسم پر حملہ آور ہو تا ہے تو مستقل قیام کر لیتا ہے اب میں اِس
بوڑھی مریضہ سے ایسی ہی کوئی کہانی سننے کے لیے تیار تھا لیکن بعد میں
حقیقت میری سوچ کے بلکل بر عکس نکلی میں نے جب بار بار بوڑھی عورت اور اُس
کے ڈرائیور سے پوچھا کہ اب آپ میں سے کون بتائے گا کہ اصل مسئلہ یا پریشانی
کیا ہے جو آپ مُجھ فقیر تک پہنچے ہیں تو ڈرائیور بولا میڈم کے پاس خط ہے جس
میں انہوں نے اپنی ساری بیماری کہانی اور سوالات لکھ دئیے ہیں آپ وہ خط کے
کر پڑھ لیں تاکہ آپ کو پتہ چل سکے کہ میڈم آپ کے پاس کیوں آئی ہیں لہذا اب
میں مریضہ کی طرف بڑھا اورکہالائیں وہ خط کہاں ہے جوآپ مجھے پڑھا نا یا
دینا چاہتی ہیں تو عورت نے کراہ کر کروٹ یا اٹھنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہو
نے پر اشارے سے اپنے ڈرائیور سے کہاُس کے ساتھ پڑا کاغذوں کا پلندہ مجھے دے
دے تو ڈرائیور نے کاغذوں کا کتابچہ نما خط یا کتاب اٹھا کر میری طرف بڑھا
دی میں اِس قدر طویل خط یا کاغذات کے لیے بلکل بھی تیار نہ تھا نہ میرے پاس
اتنا زیادہ وقت تھا کہ کاغذوں کی پوری کتاب کو تفصیل سے پڑھ سکوں یہاں خط
نہ پڑھنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے جس کاسامنا اکثر مجھے کرنا پڑھتا ہے بہت
سارے لوگوں کو مُجھ فقیر سے یہ اعتراض ہے کہ میں اُن کی ساری بات تفصیل سے
نہیں سکتا جبکہ ان کی خواہش ہوتی ہے وہ مجھے اپنی ساری بات تفصیل سے
سناسکیں یا اپنی اندرونی بھڑاس یا ڈپریشن نکال سکیں اور پھر یہ تو عام ہو
تا ہے کہ اگر میں ایسے طویل خط بہت سارا وقت لگا کر پڑھ لوں تو معاملہ یہاں
ختم نہیں ہو تا بلکہ سارا خط پڑھنے کے بعد مراحل کی اگلی معصوم خواہش یہ
ہوتی ہے کہ اب خط میں موجود سوالات پر تفصیل گفتگو کا دور شروع ہو جائے میں
صرف اتنا عرض کر تا ہوں کہ اگر آپ خط پڑھوانے کے بعد پھر بات چیت کا ہی
راستہ اختیار کر نا ہے تو پھر وقت بچانے کے لیے شروع میں ہی کیوں ناں بات
چیت کا راستہ اختیار کیا جائے میں نے بہت کو شش کی لیکن بوڑھی عورت بضد تھی
کہ اُس کا طویل خط پڑھا جائے لہذا میں نے خط پڑھنا شروع کیا طویل خط جیسے
جیسے میں پڑھتا جارہا تھارونگٹے کھڑے ہو تے جارہے تھے کافی وقت لگا کر خط
کیا معافی نامہ پڑھا جس کے مطابق عورت نے اپنی ساری زندگی کی کہانی لکھی ہو
ئی تھی طاقت جوانی پیسے کے نشے میں خدا کو بھول کر زندگی گزارنے والی کی جب
پکڑ شروع ہو ئی تو معافی معافی کرتی نظر آئی خط کے بقول سر میں کامیاب
گائنی ڈاکٹر تھی دولت اکھٹا کرنے کے چکر میں جان بوجھ کر نارمل ڈلیوری کو
بھی آپریشن میں کنورٹ کر دیتی ایسی دوائیاں دیتی کہ نارمل بچہ آپریشن سے
کرنا پڑتا بہت سارے لوگوں نے اعتراض لڑائیاں بھی کیں لیکن میں دولت کمانے
کی دھن میں پاگل جان بوجھ کر ڈلیوری کو لیٹ کرتی اِس طرح ماں یا بچہ مر بھی
جاتے لیکن لواحقین چند دن رو کر چپ کر جاتے میں دولت کے نشے میں دھت چالیس
سال کی عمر میں شادی کی تو پتی چلا میں بانجھ ہو چکی ہو ں بچہ پیدا نہیں کر
سکتی لوگوں نے طعنے مارنے شروع کئے تو کسی کی بیٹی گود لے لی اعلان یہ کیا
کہ یہ میری بیٹی ہے وقت گزرتا گیا میری لے پالک بیٹی جوان ہوئی اُس کی شادی
کی تو پتہ چلا وہ بھی میری سزا میں بانجھ ہے میں نے دنیا جہاں سے اُس کا
علاج کرا یا چند سال پہلے وہ کار حادثے میں انتقال کر گئی میری سزا کا عمل
شروع ہو چکا تھا ہر قسم کی بیماری مجھے لگ چکی تھی میں مرنا چاہتی تھی لیکن
موت اور معافی مُجھ کو بھول بیٹھی تھی اب خدا مجھے بھولا ہوا ہے آپ کے پاس
اِس لیے آئی ہوں مجھے خدا سے معافی لے دیں صرف معافی یا مجھے موت آجائے میں
نے استغفراﷲ کا وظیفہ دیا اور کہا دعا کرو اﷲ کو تم پر رحم آجائے پھر بوڑھی
مریضہ چلی گئی جس کی توبہ کا دروازہ شاید بند ہو چکا تھا ۔
|