لہو لہو دسمبر

دسمبر خزاں کی علامت ہے ، پت جھڑ کا نشان ہے۔ یہ نہ تو باغبان کو راس آتا ہے نہ باغ کے پھول پودوں کو اور نہ ہی ان پھولوں کی دیوانی بلبل کو۔ دسمبر تو باغ اجاڑتا ہے ، دلوں کو ویران کرتا ہے اداسیاں پھیلاتا ہے اور رگوں میں دوڑتے لہو کو بھی منجمد کر ڈالتا ہے ۔ دسمبر بہت ہی بے رحم ہے ، قاتل ہے محبت کے جذبات کا ، دلوں میں پروان چڑھتی امیدوں کا، جوانی کی طرف بڑھتی امنگوں کا ، پیار سے بھرپور مامتا کا، بوڑھے باپ کے سہارے کا ، سہانے سپنوں کا ۔ یہ وہی دسمبر ہے جس نے دلوں میں دُوریاں ڈالیں ، نفرتیں بھریں ، رگوں میں دوڑتے لہو کو جمایا اور ہنستے بستے گھر کو اجاڑ دیا، پاکستان کی صورت میں قائم گلستان کو دولخت کر دیا ۔ ابھی زخم بھی نہ بھرا تھا کہ دسمبر نے ایک بار پھر ایسا گھاؤلگایا کہ درد کی ٹیسیں آج تک اٹھتی ہیں ۔ دسمبر نے ایک باغ اجاڑا ایک بستی ویران کر دی ایک کھیتی تباہ کرڈالی ، مہکتی کلیاں روندی گئیں ، پھول مسلے گئے ، بہار کی طرح مسکراہٹ دینے والے نونہالان چمن کو بے دردی سے گاجر مولی کی طرح کاٹ کے رکھ دیا گیا ۔ کتنی ہی ممتاؤں کے کلیجے چیر دیے گئے، کتنی بہنوں کے ویر چھن لیے گئے ، گھروں میں تتلیوں جیسے رنگ بکھیرتی کتنی ہی بیٹیاں روند دی گئیں اور کتنے ہی لوگوں کے مستقبل کا سہارا چھین لیا گیا ۔دسمبر کی خون آشامی پشاور کے ایک تعلیمی ادارے پہ قیامت بن کر ٹوٹی تھی ۔یہ لہو کی ندیاں تو ایک تعلیمی ادارے میں بہی تھیں، اجڑنے والا باغ اے پی ایس پشاور تھا لیکن اس سانحے نے خیبر تا کراچی تمام دلوں کو سوگرار کر دیا ، ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا اور ہر شخص مثلِ بلبل بربادیٔ چمن پہ مغموم تھا ۔ آج پھر دسمبر کی آمد ہے ، درختوں سے پت جھڑ جاری ہے ، پھول مرجھا رہے ہیں تو اک سوال سر اٹھا رہا ہے کہ دسمبر کیوں لہو رنگ ہے؟ نہاں خانہ ٔدل سے آواز آتی ہے کہ دسمبر کو الزام نہ دو یہ تباہیاں کچھ اپنوں کے طفیل ہیں جو گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں ۔ ایسے اپنوں کے شرسے اللہ بچائے ۔ آمین
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
 

Aliya Rehman
About the Author: Aliya Rehman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.