کیا حوا کی بیٹیوں سے قصور ہو گیا
کیوں جہیز سماج کا ناسور ہو گیا
سولی لگا لے یا بیٹی کو مار دے
اتنا کیوں غریب باپ مجبور ہو گیا
جہیز ایک لعنت ہے ۔ ایسی لعنت کہ جسے ہر کوئی بڑی خوشی سے قبول کر لیتا ہے
اور اِسکا انکار کوئی نہیں کرتا ۔ جب ہمارے معاشرے میں بیٹی جنم لیتی ہے،
تو جدید تعلیم یافتہ گھرانوں میں اُسکے جہیز
کے لیے رقم رکھنا شروع کر دی جاتی ہے، تو ایسے میں ہم غیر تعلیم یافتہ
گھرانوں سے کیسے اُمید کر سکتے ہیں کہ وہ اِسکے خلاف کوئی قدم اٹھائیں گے؟
اور جب جہیز کی توقعات پوری نہیں ہوتیں تو دُلہن کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا
جاتا ہے ، اُسے اذیت دی جاتی ہے اور بعض اوقات اسے جان سے بھی مار دیا جاتا
ہے یا وہ خود۔۔ اپنے آپ کو اس اذیت سے بچانے کے لیے ایک اِنتہائی خطرناک
قدم اُٹھا لیتی ہے جیسے انڈیا میں عائشہ خان نے دریا میں کود کر اپنی جان
خود لے لی ،ایسے ہی ہزاروں کیسز رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ
اکثر والدین بیٹی کی ولادت سرے سے چاہتے ہی نہیں کیونکہ اُنھیں پتہ ہے کہ
وہ مسلسل دباؤ میں رہیں گے اور سُسرالیوں کے مطالبے اُنکا سکون چھین لیں
گے۔ جہیز ایک ایسی بیماری ہے، جو اپنی جڑیں بہت مضبوط کر چکی ہے اور اِس
بیماری کا خاتمہ نا ممکن نظر آتا ہے۔ اسی وجہ سے بہت سی بیٹیاں ایسی ہیں کہ
جنکی عمریں نکلی جا رہی ہیں اور بالوں میں چاندی آچکی ہے لیکن جہیز نہ ہونے
کی وجہ یا انکے حالات اس قابل نہیں ہیں کہ ان کا باپ انھیں جہیز دے سکے وہ
اپنے گھروں میں بیٹھیں، لوگوں کے طعنوں کو سہہ رہی ہیں۔ہمارے ارد گرد ایسے
بہت سے لوگ ہیں جو بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ہاں۔ میری بہو ۱۰ لاکھ کا جہیز
لائی ہے تو کہیں یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ ہم نے اپنے داماد کو نیو ماڈل
کرولا ﴿جسکی مالیت تقریباً ۴۶ کروڑ ہے﴾ دی ہے اور کہیں یہ سنائی دیا جاتا
ہے کہ لڑکے والوں نے بہت مالیت کے جہیز کی ڈیمانڈ کی تھی اور جہیز نہ ہونے
کی وجہ سے رشتہ توڑ دیا ۔ ۔ اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی
کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے ، اُنکی معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب
چھین لیے ہیں ۔ اُنکی خواہشوں، آرزوؤں، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا
گلا گھونٹ دیا ہے، اُنھیں نااُمیدی، مایوسی اور اندھیروں کی اُن گہری
وادیوں میں دکھیل دیا ہے جہاں سے روشنی کا سفر مشکل دکھائی دے رہا
ہے۔ناجانے لوگ کیوں جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ ایک باپ اپنے جگر کا
ٹکڑا، اپنے گھر کی رونق انھیں دے رہا ہے اور بعض جگہ لڑکی والے سسرال کی
طرف سے مطالبہ کے بغیر جہیز اس لیے دیتے ہیں کہ معاشرے میں ان کی عزت نہ
گھٹے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جہیز ہی عزت بڑھانے یا گھٹانے کا ذریعہ ہے؟
آخر کب وہ وقت آئے گا جب لڑکی کے والدین جہیز کی فکر سے آزاد ہو کر سوئیں
گے۔۔ آخر کب؟ اگر اب کسی کو کہا جائے کہ " آپ اپنی بہو سے جہیز نہ لیں ۔"
تو گھورنے کے ساتھ ایک سخت لہجے میں جواب دیا جاتا ہے کہ" ہم نے اپنی
بیٹیوں کو جہیز دیا تھا اور جب ہماری جہیز لینے کی باری آئی ہے تو تم کہتی
ہو جہیز نہ لیں ؟" اس لعنت میں جانے انجانے میں ہم نے بھی حصہ ڈالا ہے اسی
وجہ سے یہ اب تک زندہ ہے ۔ اصل میں جہیز ایک ہندوستانی رسم ہے جسے ہم نے
بہت چاہ کے ساتھ اپنایا ہوا ہے ۔ اب تو غریب گھرانوں کے لڑکے بھی زیادہ مال
وزر والے گھرانوں کا رُخ کرتے ہیں جسکی وجہ سےغریب گھرانوں میں پیدا ہونے
والی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چار دیواری میں بیٹھی رہنے پر مجبور ہیں۔
ہم نے ہی اس جہیز جیسی قبیح رسم کو شادی کا ایک اہم جزو بنایا ہے اور شادی
کو ایک کاروبار کی شکل میں ڈھالا ہے اسکا خاتمہ ہندو رسم اور اس مہنگائی کے
دور میں بہت اہم ہو گیا ہے ۔ تاکہ نکاح کو آسان بنایا جا سکے۔۔
زیبا ہے جس قدر ہو مذمت جہیز کی
آئی کہاں سے ملک میں لعنت جہیز کی
|