ماڈرن جاہل
(سید جہانزیب عابدی, KARACHI)
Muhammad Ali Syed محترم محمد علی سید صاحب کی فیس بک
وال سے ۔۔ مختصر اضافہ کے ساتھ
ایک باخبر دوست کی جانب سے
ایک عجیب رجحان اس وقت پیدا ہو چکا ہے کہ لوگ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر '
پروفیسر' عالم دین ' محقق ' ریسرچ اسکالر ' لکھ رہے ہیں۔۔
اور یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی عزت میں اضافہ ہو جائے گا
جب کہ ایک دن بھی کسی مدرسے حوزہ علمیہ یا یونیورسٹی جانے کی زحمت تک نہ کی
ہو
اور اس طرح سے سیدھے سادھے لوگوں کو بے وقوف بناسکیں گے اور اسے وہ کوئ جرم
بھی نہیں سمجھتے ۔۔
حالاں کہ ۔۔۔۔۔
مجموعہ تعزیرات پاکستان یعنی پاکستان پینل کوڈ PPC کے مطابق ۔۔۔
یہ جرم ہے اور اسے تلبیس شخصی کہا جاتا ہے کہ کوئ شخص اپنے آپ کو وہ ظاہر
کرے جو وہ نہیں ہوتا
کہ وہ اپنے مفادات حاصل کرسکے چاہے وہ قانونی یوں یا غیر قانونی ۔۔
سمجھ لیں کہ اپنے آپ کو جعلی آفیسر جعلی فوجی افسر جعلی حکومتی اہلکار سمیت
کچھ بھی بننا یا ڈاکٹر یاپروفیسر بننا قانونی جرم ہے
اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 418 اور419 اور 420 کے مطابق اس کے ارتکاب
کر نے والے کو سات سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے ۔۔۔
اضافہ: دنیا کے قوانین میں تو یہ جرم ٹھہرا ہی اور خدا کی عدالت میں سنگین
جرم ہے۔۔۔۔
پڑھے لکھوں میں روایت عام ہے کہ ریفرینس دیتے ہیں۔۔۔۔مگر قرآن کا ریفرنس
کیا ہے؟!!
پڑھے لکھوں کے پاس اگر عرفانی علم (intuitive intelligence ) نہیں ہے تو
کتابی اور چھپی چھپائی معلومات (literary intelligence) انسائکلوپیڈیا تو
بنا سکتی ہے دماغ کو عالم نہیں بنا سکتی۔۔۔۔
کتابی معلومات پر بھروسہ کرنے والے قارئین, سامعین و مخاطبین اصل علم اور
بین سطور حکمتوں سے نا آشنا رہتے ہیں۔۔۔۔ڈگریاں اور القابات سے ایسے لوگوں
کو تو نوازتے ہیں چونکہ خود بھی صاحب حکمت نہیں ہوتے۔۔۔ لہذا ایسے مخاطبین
اور اسکالرز کی خوب بنتی ہے۔
دینی علماء کیلئے تو یہ روش انتہائی مضر خود ان کی آخرت کے حوالے سے ہے ہی
ان کے مخاطبین کیلئے گمراہی کا باعث ہوتی ہے۔۔۔۔البتہ دیگر تجرباتی علوم
میں یہ روش کچھ حد تک فایدہ مند رہتی ہے کیوں کہ تعلق مادی مظاہر سے ہوتا
ہے۔۔۔۔۔
مگر دینی علوم میں اس کو برتنا امت کی گمراہی ہے۔۔۔۔دینی تجربہ خود پر کیے
بنا یعنی اپنی نفسانی کیفیات اور اس کے رموز سمجھے بنا نہ ہی کائنات کے
باطن میں اترا جاسکتا ہے نہ ہی قادر مطلق کی معرفت و شناخت حاصل ہوسکتی
ہے۔۔۔۔
امام علی ع نے تین طرح کے علماء کا تعارف کروایا ہے۔۔۔۔جس میں ڈگری ہولڈرز
اور غیر ڈگری ہولڈرز کی فضیلت اور پستی کا معیار ان کی نیتوں کو قرار دیا
ہے۔۔۔۔
علم کسی کے پاس بھی ہوسکتا ہے۔۔۔۔شرط یہ ہے کہ علم کو اسی طرح سیکھا اور
برتا جائے جو خدا نے معین کیا ہے، یعنی تقوا۔۔۔۔۔خواہ وہ ڈگری ہولڈر ہو یا
غیر ڈگری ہولڈر۔۔۔۔
تقوے سے ہی باطل کا ڈنک توڑا جاتا ہے، تقوا اور تزکیہ نہیں ہے تو علم قرآن
بھی فاسد ہے، سائنس و فلسفہ تو دور کی بات۔۔۔!!
کیونکہ بعض ملا و ڈاکٹر رسمی ڈگریاں لے کر بھی جاہل ہوتے ہیں اور بعض اہل
مطالعہ, اہل مشاہدہ بھی بغیر رسمی ڈگری کے فاضل و عالم ہوتے ہیں۔۔۔۔
بعض حقیقی ڈگری ہولڈرز بھی ایسے مغالطے کا شکار ہوجاتےہیں کہ ہم پڑھے لکھے
ہیں، حالانکہ صرف رسمی کتابوں اور امتحانات پاس کرنے کیلئے مطالعہ کرنا ،
تحقیق کرنا اس کی طرح نہیں ہوسکتا جو مطالعہ سے عشق رکھتا ہے، تحقیق اس کی
روح میں رچی ہوئی ہو، تقوا اور تزکیہ ، مراقبتِ نفس ہر گھڑی ہو۔
علمی دور علمی دور ہوتا ہے اور عملی دور علم کو برتنے کا ہوتا ہے،
جس طرح مدرسوں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیز کے اندر کسی موضوع کے بارے میں
نصابی اور کتابی بحث کی جاتی ہے۔ علمی مراکز میں بحث فقط علمی غرض
کیلئےہوتی ہے، الفاظ کی بحث، مفاہیم اور معنیٰ کے اندر دقت، تاریخِ علم،
مختلف اقوال، اعتراضات، جوابات اور تنقیدات وغیرہ کسی علمی بحث علمی دور کے
اصلی ارکان ہیں۔
اس بحث کے اندر وفائے عہد، تحریک، بیداری، ہوشیاری وغیرہ کا شائبہ نہیں
ہوتا، عالمانہ اور محققانہ بحث میں مذکورہ مسائل بیان کرلینے کے بعد عالم
یا محقق اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتا۔ یہی وجہ ہے کہ محض علمی مراکز میں
گفتگو کرنے اور سننے والے سب کچھ جاننے کے باوجود عملی میدان سے دور ہی نظر
آتے ہیں۔
ایسی گفتگو سے احساسِ علمیت ضرور پیدا ہوتا ہے، انسان ڈائیلاگز میں تبادلہ
افکار کے قابل ہوجاتا ہے، تقریریں کرسکتا ہے، کتابیں لکھ سکتا ہے، سب سے
بڑھ کر روشن فکر، عالم فاضل و محقق کہلاسکتا ہے اور ملازمت بھی حاصل کرسکتا
ہے۔
اس کے مقابلہ میں ایک پیغمبرانہ و ذمہ دارانہ عملی طریقہ گفتگو ہے کہ علمیت
نہیں بکھیری جاتی، فلسفہ بافی نہیں کی جاتی، کثرت سے حوالے نہیں جاتے، ہمہ
دانی کا تاثر نہیں بٹھایا جاتا اور علمی لوریاں نہیں سنائی جاتیں بلکہ اس
طرزِ تخاطب میں ایثار، فداکاری، تعہد کا احساس دلایا جاتا ہے، خواب سے
بیدار کیاجاتا ہے، غفلت سے نکالنے کیلئے جھنجھوڑا جاتا ہے، احساس خطر کرایا
جاتا ہے، حرکت میں لایا جاتا ہے، قوموں کو مستقبل کیلئے پُر اُمید بنایا
جاتا ہے، مشکلات کی نشاندہی اور مسائل مشکلات کا حل بتایا جاتا ہے۔
|
|