کیا مغرب بہت دیانت دار ہے؟!!

ٹھیک ہے ہر مسئلے کا ذمہ دار حکمران نہیں اور ہم چونکہ یہاں تاجرو ں کے منافع اور اخلاق اور صارفوں کے خرچ اور اہمیت کی بات کررہے ہیں تو اسی مغرب جس کے جرمنی میں صرف تجارت کے ہی نام پر نام نہاد ترقی یافتہ کمپنیاں اور ادارے انسانیت کا کس طرح استحصال کررہے ہیں یہ بھی دیکھتے ہیں۔
میکڈونلڈ کے برگرز میں انسانی گوشت کا استعمال کرنا ، کیونکہ انسانی گوشت لذت میں کوئی ثانی نہیں رکھتا، ہم یہاں کتے اور گدھے کے گوشت پر روتے ہیں

بڑی فارما- ادویات کی فروخت کیلئے نت نئی بیماریاں پھیلانا اپنی اسٹیک ہولڈر کمپنیوں کی غذاؤں کے ذریعے، ویکسینز کے ذریعے

جعلی احتیاجات پیدا کرکے غیر ضروری اشیاء کیلئے صارف بنانا مارکیٹنگ اور اشتہار بازی کے ذریعے
کھانے پینے کی اشیاء میں لذت کیلئے نشہ آور کیمکلز کا استعمال

قدرتی اجناس اور غذاؤں پر سیاسی قبضے کرکےانہیں ملٹی نیشل کمپنیوں کے ذریعے اپنی اجارہ داری بنانا
فوجی دھونس اور سیاسی جبر کے ذریعے تجارتی معاہدے کرنا مقامی گماشتوں کو رشوتیں دینا

تیسری دنیا کو ترقی کے نام پر ٹیکنالوجی اور دیگر جدید سامان مہیا کرنا اس بات کو یقینی بنائے بغیر کے مقامی بے روزگاری جو پرانے طریق کی جگہ جدیدیت سے پیدا ہوئی کیسے دور ہوگی بلکہ صرف اپنا منافع دیکھنا
تیسری دنیا کی تجارت کو تباہ کرنا اور تمام صارفین کو اپنی مصنوعات کا خریدار بنانے کیلئے مجبور کرنا
یہ تمام باتیں کوئی نہیں بتائے گا کیوں کہ میڈیا خود ان کا نمک خور گماشتہ ہے۔ مقامی ادارے اکثر ان سامراجی ممالک کے رزق خور گماشتے ہیں۔ لہذا اس پر پردہ ہی رہتا ہے۔

ہماری کرپشن اور مغرب زدوں کی کرپشن میں فرق صرف درجے کا ہے ۔ ان کا پیسہ زیادہ علم زیادہ ہے تو ان کی کرپشن ایگزیکیٹو ہے، وائٹ کالر کرپشن ہے، بڑی کرپشن ہے، ٹریلین ڈالرز کی کرپشن ہوتی ہے۔ جبکہ ہماری کرپشن چندی چوروں والی کرپشن ہے، آٹے چینی مصالحے، دودھ وغیرہ کی چھوٹی چھوٹی کرپشن ہیں۔ مائنڈ سیٹ ایک ہی ہے بس ایک بڑے لیول پر ہے ، ایک چھوٹے لیول پر ہے۔ ایک کرپشن سے لاکھوں بناتا ہے اور ایک کھربوں بناتا ہے۔ ایک قانون کے ذریعے کرپشن کرتا ہے اور ایک دھونس زبردستی سے لوٹتا ہے۔

ظاہر سی بات ہے ٹریلین ڈالرز کا کاروبار اور اثاثے رکھنے والا دودھ میں ملاوٹ کرکے تو کمانے سے رہا۔۔وہ نفسیات سے کھیلتا ہے ۔۔۔ ضرورت کو پیدا کرتا ہے، باور کراتا ہے کہ اس چیز کے بغیر زندگی ناممکن ہے اور پھر بیچتا ہے۔ اس کرپشن میں آپ کیوں کہ کم علم اور جاہل ہوتےہیں اس لئے مغالطے کا شکار ہوجاتےہیں اور اس کی رعب دار تہذیب کے بھرم میں آکر ہر الٹی سیدھی تحقیقات کو قبول کرلیتے ہیں۔


 
سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 58521 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.