آئیے ذات برادری و علاقائیت کو فلسفۂ عصبیت اور سماجی تناظر میں سمجھتے ہیں

آئیے ذات برادری و علاقائیت کو فلسفۂ عصبیت اور سماجی تناظر میں سمجھتے ہیں
عصبیت و تعصب کا فرق، 15 سوالات و جوابات
مشن تقویتِ امت قسط 20
سب سے پہلے تو میں اپنی پوزیشن واضح کردوں کہ ہم ایک مشروع اور جائز چیز کو معاشرتی پیراڈائم میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں، اس کا تعلق حرام حلال اور فتوے سے نہیں بلکہ محض سماجی افادیت و غیر افادیت سے ہے۔
علامہ ابن خلدون نے عصبیت پر تاریخ ابن خلدون کے مقدمے میں تفصیلی بحث کی ہے، سب سے پہلے عصبیت اور تعصب کا فرق سمجھیں، عصبیت کا مطلب ہے کسی نام یا علامت کے جھنڈے تلے اپنے اندر ایک اجتماعیت محسوس کرنا اس کو انگریزی میں گروپ فیلنگ group feeling کہا جاسکتا ہے اور تعصب کا مطلب ہے اسی عصبیت کو تفاخر و تفاضل یا دوسروں کی تذلیل کا ذریعہ بنانا یا پھر چھوٹی ذیلی عصبیت کا بڑی عصبیت کے لیے نقصان دہ ہونا اسے انگریزی میں bias کہتے ہیں۔
زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان گروہوں میں بٹتے جاتے ہیں، پھر جیسے جیسے گروہ بڑا ہوتا جاتا ہے فطری طور پر اس کی مزید تقسیم ہوتی جاتی ہے، اور ہر تقسیم کی ابتدا ہوتی عصبیت کے لیے ہوتی ہے لیکن مرور زمانہ کے ساتھ تعصب کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
یہ تقسیمات عموماً مندرجہ ذیل اشیاء پر مبنی ہوتی ہیں:
1 مذہب، 2 زبان، 3 قوم، 4 وطن، 5 رنگ، 6 نسل
1 اس کا مطلب اسلام بھی ایک عصبیت ہے؟
جی ہاں! عصبیت کی اس تعریف کے حساب سے اسلام بھی ایک عصبیت ہے کیوں کہ اسلام انسان کو ایک ایسے جھنڈے تلے جمع کرتا ہے جہاں ہر انسان اس علامت کے حامل دوسرے انسان کو اپنے جسم کا حصہ اور اپنا بھائی سمجھ رہا ہوتا ہے، چاہے وہ دوسرا کسی بھی ملک، زبان، قبیلے، قوم یا وطن سے تعلق رکھتا ہو اور یہی وہ عصبیت ہے جس سے کفر کے خرمن میں آگ لگی ہوئی ہے اور وہ اس عصبیت کو مٹانے کی ہر ممکن جتن کررہے ہیں۔
2 کیا اسلام عصبیت اور انسانوں میں موجود مختلف تقسیمات کا انکار کرتا ہے؟
نہیں بالکل نہیں! اللہ نے قرآن میں اختلاف رنگ و نسل کو "و من آیاتہ خلق السماوات والارض اختلاف السنتکم و الوانکم" کہ کر اپنی نشانی بتلایا ہے، اسی طرح "وجعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا" کہ کر اس تقسیم کی نسبت اپنی جانب کی ہے یعنی یہ تقسیمات اسلامی تعلیمات کے خلاف بالکل بھی نہیں۔
3 یہاں تو صرف شعوبا و قبائل لکھا ہوا ہے تو کیا اللہ نے صرف قبائل و شعوب بنائے ہیں باقی تقسیمات کا کیا؟
نہیں یہ صرف ایک استعارہ اور علامت ہے مطلب انسانوں میں موجود عام طور پر مذکورہ وجوہات کی بنیاد پر جو فطری تقسیمات ہیں وہ سب داخل ہیں۔
4 کیا عصبیت تعصب میں تبدیل ہوجاتی ہے؟
جی بالکل! مثلاً ایک انڈین غیر انڈین سے نفرت کرے، ایک اردو بولنے والا بنگالی بولنے والے کو حقیر سمجھے، گورا شخص کالے شخص سے اس کی رنگت کی بنا پر اپنے دل میں کراہت محسوس کرے، سید صرف نسب کی بناپر اپنے کو غیر سید سے افضل سمجھے، اسلام کا ماننے والا غیر مسلم کو ذلت و نفرت بھری نگاہوں سے دیکھے تو یہ عصبیت اب تعصب بن جاتی ہے۔
5 لیکن قرآن میں تو صحابہ کی صفت اشداء علی الکفار بتائی گئی ہے؟
یہ شدت مخصوص غیر مسلموں کے لیے ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہوتے ہیں، ان کے خلاف سازشیں رچتے ہیں اور معرکہ آرائی کرتے ہیں، ورنہ عام غیر مسلموں سے تو نفرت کے بجائے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ ہمارے حسن سلوک سے متاثر ہوکر اسلام کی طرف راغب ہوں، نیز ہمیں داعی بنایا گیا ہے اور دعوت اور نفرت میں تضاد ہے۔
6 اسلام تعصب کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
اسلام تعصب کے سخت اختلاف ہے، یعنی فطری تقسیمات کو تفاخر و تفاضل و تنافر و تذلیل و تفریق کی بنیاد بنانے کا کسی صورت روادار نہیں، اس سلسلے میں ہم مشن تقویتِ امت کی انیسویں قسط میں چھ احادیث پہلے پیش کرچکے ہیں ایک حدیث اور سن لیں ”ولیس منا من مات علی عصبیة“۔(مشکوٰة:۴۱۷) ترجمہ:․․”جس کی موت عصبیت پر ہوئی وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔ یہاں عصبیت سے مراد عصبیت کی بنیاد پر تعصب ہے اور ایسے فرد کا شمار امت محمدیہ میں نہ ہوگا۔
7 اب ہم کیسے فرق کریں کہ جس چیز کو ہم شناخت کے لیے استعمال کررہے ہیں وہ عصبیت و تعارف کے لیے ہے یا تعصب کے لیے؟
اس کے لیے دو پیمانے ہیں:
ہمارا دل کہیں اس فطری شناخت کی بناپر اپنے کو افضل اور دوسرے کو حقیر تو نہیں سمجھ رہا
ہمارے عمل سے کہیں اس تفاخر و تفاضل یا تحقیر کا اظہار تو نہیں ہورہا۔
8 اگر ایسی بات ہے تو پھر میری نیت تو تفاخر نہیں محض تعارف ہے پھر آپ مجھے خدا کی بنائی ہوئی تقسیم کے ذریعے نام میں سید انصاری شیخ راعین والے لاحقے کو استعمال کرنے سے کیوں روک رہے؟ آپ کیوں اللہ کی بنائی ہوئی تقسیم کو ختم کردینا چاہتے ہیں؟
یہاں آپ دو چیزوں میں فرق نہیں کرپارہے ہیں
ایک ہے اصل شئی کا وجود اور ایک ہے اس کی علامت کا استعمال
استعمال کو روکنے سے شئی کے وجود کو ختم کرنا لازم نہیں آتا، یہ لاجیکل فیلیسی اور مغالطہ ہے
اسی طرح ایک شئی ہے رب کی طرف سے ان تقسیمات کا بنایا جانا
دوسری شئی ہے ان تقسیمات کو شناخت کے لیے استعمال کیا جانا
رب کی بنائی ہوئی تقسیمات کو ختم تو نہیں کیا جاسکتا ہے، لیکن ان تقسیمات کو بطورِ شناخت استعمال کرنا ہر زمانے و مکان کے عرف و عادت پر موقوف ہوتا ہے، مثلاً آج اللہ کی بنائی ہوئی تقسیم رنگت کی بناپر اپنے دل میں بنا کسی تفاخر و حقارت کی نیت کے آپ کسی کالے شخص سے کہیں "منہاج کالیا" تو غالب امکان ہے کہ تھپڑ آپ کا مقدر ٹھہرے، یہاں آپ یہ دلیل نہیں دے سکتے کہ بھائی میں تو صرف اللہ کی بنائی تقسیم کو استعمال کررہا ہوں، اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں لے سکتے کہ میں نے منہاج کے کالے ہونے کا انکار کردیا ہے۔
9 مطلب زمانے اور مکان کے اعتبار سے تعارف کے طریقۂ استعمال اور ان کی قباحت و خوبی میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے؟ کیا آپ اس کو مثال سے سمجھا سکتے ہیں؟
جی ہاں! اس کو مثال سے سمجھیں، ہم جب چھوٹے تھے تو کہتے تھے پاخانہ کرنے جارہا ہوں، اب بولوں تو قبیح سا لگتا ہے، اس سے اچھا لگنے لگا کہ بیت الخلا جارہا ہوں، لیکن اب وہ بھی عجیب سا معلوم ہوتا ہے تو اب کہتا ہوں فارغ ہونے جارہا ہوں یا دو نمبر کے لیے جارہا ہوں، انگریزی کے حساب سے دیکھیں تو پہلے اس کے لئے ٹوائلٹ استعمال کیا جاتا تھا اب واش روم یا ریسٹ روم استعمال کیا جاتا ہے کیوں کہ مرورِ زمانہ اور وقت گزرنے کے ساتھ عنوان و معنون کے درمیان کی نسبت اس کی خوبی و قباحت میں فرق آتا جاتا ہے۔ فلسفے میں اس تعلق سے ساختیات پس ساختیات اور فرڈیننڈ دی ساشور کی سگنیفائر اور سگنیفائڈ کی بحث بہت دل چسپ ہے، آپ کو پڑھنا چاہیے۔
10 تو مطلب کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سید انصاری شیخ وغیرہ ذات برادری کے ذریعے تعارف متروک ہوچکا ہے؟
نہیں ہم یہ کہ رہے ہیں پہلے ذات برادری کی حیثیت بطور تعارف اصل کی تھی لیکن اب اس کی حیثیت ثانوی اور سیکنڈری رہ گئی ہے، اب تعارف کے دوسرے ذرائع کو استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کوئی پیشہ یا ڈگری ڈاکٹر انجینئر، قاسمی مولانا مفتی وغیرہ یا علاقہ مثلاً قیام الدین سیتامڑھی وغیرہ۔
اب اگر آپ اپنا تعارف کرائیں کہ میرا نام قیام الدین ہے تو فوراً مخاطب پوچھے گا کہاں سے ہیں؟ یا کیا کرتے ہیں؟ یہ نہیں پوچھے گا کون سی برادری سے ہیں؟ مطلب تعارف کی اصل حیثیت اب علاقائیت اور پیشے کی ہوگئی ہے، پہلے یہ حیثیت قبیلے کی ہوتی تھی کیوں کہ ایک علاقے میں ایک ہی نسل آباد ہوتی تھی، لوگ قبیلے کے ناموں سے پہچانے جاتے تھے۔
11 ثانوی ہی سہی لیکن تعارف تو کرایا جاسکتا ہے پھر آپ ذات برادری کے لاحقے کو ترک کروانے پر مصر کیوں ہیں؟
کیوں کہ اب اس کا ضرر و نقصان اس کی افادیت پر غالب آگیا ہے
آج کے زمانے میں ذات برادری تعارف کے لیے عموماً مستعمل تو رہی نہیں لیکن تحقیر و تذلیل اور تفاخر و تفاضل کے لیے ضرور استعمال کی جاتی ہے، سینکڑوں واقعات اس سلسلے میں دیکھنے کو ملتے ہیں، حتیٰ کہ بڑے بڑے علماء اس فتنے اور لعنت میں ملوث نظر آتے ہیں، اس لحاظ سے یہ عصبیت کے بجائے تعصب کے لیے زیادہ مستعمل ہونے لگا ہے، اس لیے ہم اس کا لاحقہ لگانے کو نامناسب گردانتے ہیں۔
12 اس حساب سے تو پھر علاقائیت والے لاحقے بھی ہٹادینا چاہئے؟ جیسے بہاری بھی تذلیل کے لیے استعمال ہوتا ہے؟
جی بالکل! جو لفظ بھی جس زمانے میں یا جس علاقے میں بطور تذلیل یا گالی کے لیے عموماً مستعمل ہونے لگے تو وہ لفظ اس زمانے اور علاقے والوں کے لیے استعمال کرنا غلط ہوگا بلکہ علما ( ہمارے افتا کے مؤقر اساتذہ مفتی سلمان منصور پوری اور مفتی شبیر قاسمی حفظہما اللہ) نے تو بہاری کہنے کو ناجائز تک کہا ہے کیوں کہ یہ بطور تحقیر استعمال ہونے لگا ہے۔
13مطلب میری نیت صحیح ہوگی اور میں تذلیل کے لیے نہیں استعمال کررہا ہوں پھر بھی میرے لیے اس کا استعمال غلط ہوگا؟ ایسا کیوں؟
جی! علما کے فتاوے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ شریعت اجتماعی امور میں ہمیشہ ظاہری عموم پر حکم لگاتی ہے وہاں ہر ہر فرد کو نہیں دیکھتی کہ کس کی کیا نیت ہے، اگر عام طور پر یہ استہزاء کے لیے استعمال ہوتا ہے تو پھر اس پر استہزاء کا حکم ہی لگایا جاتا ہے، لہٰذا اگر کہیں کے عرف میں بنگالی کہنا گالی اور تحقیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہو تو وہاں کے لوگوں کے لیے بنگالی کہنا ناجائز ہوگا، اسی طرح آج کل ذات برادری کا عام استعمال تعارف سے زیادہ تفاخر و تفاضل اور تحقیر کے لیے ہی ہوتا ہے، اس لیے بقدر ضرورت مثلاً سرکاری کاغذات کے علاوہ عام استعمال میں حتی الامکان ہمیں ان لاحقوں سے گریز کرنا چاہئے۔
14 بھائی آپ لاحقوں کے پیچھے ہی کیوں پڑے ہوئے ہیں، اس خرابی کو دور کرنے کے دوسرے طریقے کیوں نہیں اپناتے مثلاً ان کو نصیحتیں کرنا، ذہن سازی کرنا اور آپس میں شادیاں کرانا وغیرہ؟
دیکھیں جب کوئی سوچ ختم کرنا مقصود ہو تو سب سے پہلے اس کے مظاہر کو ختم کیا جاتا ہے، مثلاً آپ غور کریں یوپی کا سی ایم کروڑوں اربوں روپے خرچ کرکے مسلم ناموں کو ہندو ناموں سے تبدیل کررہا ہے، کیوں؟ کیا یہ آپ کو اس کی نری حماقت لگتی ہے؟ نہیں اس کے پیچھے مکمل سوچ ہے، ایک سوچی سمجھی پلاننگ ہے کہ مسلمانوں کا نام و نشان مٹانا ہے تو سب سے پہلے ان کی علامتوں کو مٹانے سے شروعات کرو، اگلی نسل کو یہ پتہ بھی نہیں رہے گا کہ دین دیال پادھیائے اسٹیشن کبھی مغل سرائے ہوا کرتا تھا اور پریاگ راج کبھی الہ آباد ہوا کرتا تھا، اسی طرح ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ہم بس اتنا ہی کریں گے، اس سماجی برائی کو ختم کرنے کی ہر ممکن سعی کریں گے ان شاءاللہ، بس اس کی شروعات مظاہر یعنی اپنے ناموں کے مؤدی الی المنافرت لاحقے ہٹانے سے کی ہے۔
15 آپ کے تعصب کی تعریف کا دوسرا حصہ تھا "چھوٹی ذیلی عصبیت کا بڑی عصبیت کے لیے نقصان دہ ہونا" کیا آپ ذرا اس کو تفصیل سے سمجھا سکتے ہیں؟
جی مثلاً آپ دیکھیں جرمنی میں ایسا نہیں کہ ذات برادری یا نسل کی تفریق نہیں لیکن ہٹلر نے یہ سمجھا کہ جنگ جیتنے کے لیے یہ تفریق نقصان دہ ہے، سب کو ایک پیج پر لانا ضروری ہے تو اس نے جرمن قومیت کا نعرہ لگایا، تاکہ سب متحد ہوسکیں اور ایک بڑی حد تک اس نے متحد بھی کیا، اسی طرح خود ہندوستان میں باوجود اس کے کہ ہندو مذہب کی بنیاد اسی برہمنزم اور ذات پات کی عدم مساوات پر مبنی ہے، یہ نعرہ لگایا جارہا ہے کہ ہندو ایک ہے، اور یہ باور کراکے ان کو مسلمانوں کے خلاف متحد کیا جارہا ہے، ایسے میں جس حلال چیز کو چھوڑنے میں کوئی نقصان نہ ہو اور جس کو اختیار کرنے سے فتنے جنم لینے، پھیلنے اور بڑی عصبیت کو نقصان پہنچنے کا غالب امکان ہو اس کو چھوڑ ہی دینا بہتر ہے، لہٰذا ہم مسلمانوں میں جتنی بھی غیر ضروری تقسیمات کے لاحقے ہیں، جہاں تک ہوسکے ان کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، تاکہ ہماری شناخت صرف بطور مسلمان ہو۔
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
قیام الدین قاسمی سیتامڑھی خادم مشن تقویتِ امت

 

Qeyamuddin
About the Author: Qeyamuddin Read More Articles by Qeyamuddin: 13 Articles with 7210 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.