یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب کم لوگ ہی دے پاتے ہیں۔ہر
نوجوان مرد خوبصورت ، نیک سیرت ، تعلیم یافتہ ، اچھے خاندان کی لڑکی سے
شادی کرنا چاہتاہےاور ہر نوجوان لڑکی کا اصرار ہے ، کہ اسے خوبصورت ، تعلیم
یافتہ او ر معاشی طور پر مضبوط شریک حیا ت ملے۔
تعلیم ایسی نعمت ہے جو انسان کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیتی ہے ۔ تعلیم کو
پیغمبروں کی میراث بتایا جاتا ہے ۔ اس دنیا کی سب سے زیادہ عالی شان ہستی
نے علم کی تعریف میں خالق کاہنات کو علیم بتایا ۔ علم ایک زیور ہے اور زیور
خواتین پر ہی جچتا ہے ، اور جس خاندان یا گھرانے میں کسی تعلیم یافتہ عورت
کا وجود ہو جائے ، وہ گھرانہ ایک نسل بعد ہی ممتاز ہو جاتا ہے ۔ کسی نے علم
کے حصول کے لیے طویل سفر کرنے کی ہدائت کی اور کسی نے تعلیم یافتہ ماں کو
معاشرے کی کامیابی قرار دیا، موجودہ دور میں دنیا میں ایسے معاشرے بطور
مثال موجود ہیں جنھوں نے تعلیم کے بل بوتے پر ایک نسل کی طوالت میں اپنے
معاشرے کو با عزت بنا دیا
جی ہاں ۔ ہم سفر کے چناؤ میں تعلیم کو ضرور اہمیت دیں ، اس سلسلے میں میرا
مشورہ یہ ہے کہ آپ کا ہم سفر آپ سے زیادہ تعلیم رکھتا ہو تویہ ایک بہت بڑی
کامیابی ہو گی ، خاص طور پر مرد حضرات اگر اس حقیقت کا ادراک کر لیں تو ان
کا گھرانہ بہت جلد ترقی و کامیابی سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔یہ سوچ کہ بیوی کا
خاوند سے کم تعلیم یافتہ ہونا لازمی ہے ایک منفی سوچ ہے ، جو گھریلو اور
خاندانی ترقی میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرتی،بچہ، جس گھرانے میں انکھ
کھولتاہے ، جس معاشرت میں پل کر جوان ہوتا ہے، جن بزرگوں سے متاثر ہوتا ہے،
یہ سارے عوامل نوجوان کے اعتقادات بن چکے ہوتے ہیں۔تعلیم ایسے نوجوان کے
خیالات کی تطہیر میں مدد گار ضرور ہوتی ہے ۔
علموں بس کریں او یار
پنجابی زبان کے ایک بالغ الذہن شاعر ، اپنے اعتقادات کے عظیم مبلغ اور علم
کے بڑے داعی نے درج بالا کلمات علم کی مذمت میں نہیں کہے بلکہ ان تعلیم
یافتہ لوگوں کی مذمت کے لیے کہے ہیں جن کاْ تعلیم نے کچھ بھی نہ بگاڑا ْ
گو ایسے افراد کم ہی ہوتے ہیں جو اپنے علم کے نور کی روشنی میں چلنے کے
منکر ہوں مگر ان کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہے ۔ اس لائن میں سب سے پہلا
نام ابلیس کا ہے جس کے علم نے اسے سوائے تکبر کے کچھ نہ دیا ۔ ہمارے
معاشرتی زندگی میں ہم اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو کھلی آنکھ سے دیکھ سکتے
ہیں جن کی مثال ْ کتاب بردار گدہا ہے ْ
ہم سفر کے چناؤ سے قبل اس بات کی چھان پھٹک کر لینی چاہیے کہ اپ کا ساتھی
کتاب بردار ہی نہ ہو ۔ اس کے جانچتنے کے طریقے ہیں مثال کے طور پر جو تعلیم
یافتہ مرد ، محنت سے جی چرانے والا ہو ، رشتوں کی اہمیت سے منکر ہو ، تکبر
کا شکار ہو ، ملازمت اس لیے نہ کرتا ہو کہ اس کے معیار کی نہیں ہے ۔۔۔ عورت
، اپنے جسم ، گھر بار کی صفائی، رویوں کی ترتیب ، رشتوں کی پہچان ، اپنے
فرائض سے بے خبر ہو تو ایسے تعلیم یافتہ لوگ بے ضرر نہیں ہوتے گو آٹے میں
نمک کا وجود لازمی ہے مگر اس کی زیادتی کھانے کے عمل ہی کو بد مزہ بنا دیتی
ہے اور کھانے کو بد مزہ کرنے والا عنصر ایک ہوتا ہے مگر باورچی کی طویل
محنت کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے |