سکواش اور " مڑہ سوک ئی تپوس کوی

پی ٹی وی پشاور سے پشتو زبان میں ایک مزاحیہ ڈرامہ ہمارے بچپن میں براڈکاسٹ ہوا کرتا تھاجس میں اسماعیل شاہد جو بچپن سے ہمارے فیورٹ اداکار ہے بعد میں ان سے شوبز رپورٹنگ کی وجہ سے دوستی بن گئی اللہ انہیں صحت دے بہترین انسان اور دوستوں کے دوست ہے ان کا ایک پشتو ڈرامہ جس میں وہ ایک جملہ بولتے تھے "مڑہ سوک ئی تپوس کوی" یعنی پوچھنے والا کون ہے ‘ کم و بیش پچیس سال پہلے یہ ڈرامہ چلتا تھااور بہت مشہور تھا یعنی اس وقت کوئی پوچھنے والا نہیں تھا تو اب صورتحال کیا ہوگی اس کا اندازہ ہر کوئی کرسکتا ہے. کھیلوں کے حوالے سے لکھنے والے اس بلاگ کا آغاز اسماعیل شاہد کے اس مکالمے اس لئے کیاکہ کم و بیش یہی صورتحال اس وقت محکمہ کھیل خیبر پختونخواہ میں اوورآل اور خصوصا سکواش کے میدان میں چل رہی ہے یعنی "مڑہ سوک ئی تپوس کوی"والی صورتحال چل رہی ہیں.

کم و بیش ایک ہفتے قبل صوبائی وزیر کھیل عاطف خان نے فرنٹیئر کالج برائے خواتین میں محکمہ کھیل کے زیر ا نتظام بننے والے سکواش کورٹوں کاافتتاح کیا ‘ کیونکہ کئی جگہوں پر بننے والے سکواش کورٹوں کی افتتاحی کی تختیاں ایک ساتھ لگا کر رسم پو ری کردی گئی ‘ صوبائی وزیر کھیل بھی صوبائی حکومت کے جاتے جاتے ہر چیز پر اپنا نام کندہ کرنے کے خواہشمند ہیں اس لئے یہ طریقہ اپنایا گیا . لیکن پھر کسی نے متعلقہ جگہوں پربننے والی سکواش کورٹ کو یہ بتایا بھی نہیں کہ کورٹ کا افتتاح ہو چکاہے اب آپ اسے استعمال کرسکتے ہیں. ویسے صوبائی حکومت کاسکواش کے احیاءکے حوالے سے دعوی تو اس حد تک ٹھیک ہے کہ انہوں نے سکواش کورٹ بنادئیے ہیں لیکن ان سکواش کورٹ کا معیا ر کیا ہے اور کیا یہ ان غلطیوں سے صاف ہے جو اس سے قبل قمر زمان سکواش کورٹ میں بننے والے کورٹ میں ہوئی اورایک کنٹریکٹر کے بعد دوسرے کنٹریکٹرز کے حوالے کردی گئی اور بعدمیں تیس لاکھ روپے لگا دئیے گئے.

کیا ان سکواش کورٹ کیلئے کوچز لئے گئے ہیں یا پھر بلڈنگ بن گئی ہیں اب اپنی مدد آپ کے تحت یہا ں پر کوچز سے کام لیا جائیگا. یہ وہ چیز ہے جو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو سوچنے کی ضرورت ہے.

ستمبر 2020 میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے ایک سابقہ کھلاڑی کو یہ کہہ کر ان کی خدمات حاصل کی کہ وہ سکواش کے احیاءکی کوشش کرینگے اور بھاری بھر کم معاوضہ ان سمیت ایک اور صاحب کیلئے بھی لگا دیا گیا کہ اس سے نئے کھلاڑی آئیں گے لیکن صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کبھی یہ جاننے کی کوشش بھی کی کہ جن صاحبان کو لیاگیا ہے کبھی وہ سکواش کورٹ آئے بھی ہیں یا نہیںیا پھر کسی کھلاڑی کیساتھ انہوں نے تین چار گھنٹے کی روزانہ کی سیشن لی ہو ‘ ایسا کبھی نہیں ہوا گذشتہ دو سالوں میں ریکارڈ دیکھ کرچیک کیا جائے کہ جن صاحبان کو لیا گیا ہے کبھی انہوں نے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کسی بھی میٹنگ میں حصہ لیا ہو‘ کسی کوچ یا کھلاڑی کو تربیت دی ہو لیکن ان کے مقابلے میں اب تک سترہ ہزار روپے اور دو ماہ قبل پچیس ہزار میں میں ڈیلی ویجز سکواش کوچز سے "ڈنگروں"کی طرح کام لیا جارہا ہے ‘ یہ ٹھیک ہے کہ یہ ڈیلی ویجز کوچز بھی پرائیویٹ طور پر کھلاڑیوں سے فیسیں وصول کرتے ہیں لیکن صبح سے شام تک کام کرنے والے ان نوجوان ڈیلی ویج کوچز کے شاگرد کھلاڑیوں پر بڑے بڑے کھلاڑی اپنا نام بنا رہے ہیں حالانکہ انہوں نے کبھی غلطی سے سکواش کورٹ میں قدم بھی نہیں رکھا. صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے افسران یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ا ن کا استحقاق ہے کہ جو چاہیں وہ کرے لیکن کیا کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ گذشتہ دو سالوں میں کتنے سکواش کے کھلاڑی قومی اور بین الاقوامی سطح پر نکل چکے ہیں اور انہیں کوچنگ کون کروا رہا ہے اور ان پر نا م اور بڑی بڑی تنخواہیں مفت میں کون لے رہا ہے یہ بڑا سوالیہ نشان ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن حکام نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں .

چلیں اگر بفرض محال آنکھوں پر انگلیاں رکھ کر یہ مان لیا جائے کہ بہت سارے کھلاڑی نکل آئے ہیںاور انہی بڑے بڑے سکواش کے کھلاڑیوں کی وجہ سے نکل آئے ہیں تو پھر حال ہی میں امریکہ میں ٹورنامنٹ کے بعد غائب ہونے والے سکواش کے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ڈیلی ویجز کوچز کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہیں ‘ کیا صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ اس کی ذمہ دا ر ہے یا پھر سکواش ایسوسی ایشن یا پھر وہ بڑے بڑ ے سکواش کے کھلاڑی جو تنخواہ لیٹ ہوتے ہی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ تو پہنچ جاتے ہیں لیکن انہیں اپنی ڈیوٹی یاد نہیں رہتی ‘ ‘ امریکہ جا کر غائب ہونے والے سکواش کے یہ ڈیلی ویجز کوچزامریکہ جاکر اس لئے غائب ہوئے ہیں کہ انہیں پتہ تھاکہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے افسران او ر سکواش کی مافیاانہیں آگے نہیں چھوڑے گی اور وہ سارے عمر یہاں پر رلتے رہیں گے تبھی انہوں نے موقع ؒہاتھ سے جانے نہیں دیا .

اب یہی ڈیلی ویجز کوچز جنہوں نے نئے بہت ٹیلنٹڈ کھلاڑی پیدا کئے ‘ امریکہ وکینیڈا میں جا کر وہاں پر نئے کھلاڑی وہاں پر ٹرین کرینگے اورپھر ہم یہا ں پر روتے رہیں گے کہ ہم پیچھے ر ہ گئے ‘ اور غیر ملکی کھلاڑی ہم سے آگے جارہے ہیں ‘ چلتے چلتے ایک اور سوال صوبائی وزیر کھیل عاطف خان سے ‘ کیونکہ اس ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھے بیورو کریٹس کو سوال وہ پسند ہیں جن میں ا نکی کارکردگی نظر آئے یا پھر خوشامد والے سوال انہیں زیادہ پسند ہیں اسلئے ہم جیسوں کے سوالوں کے جواب کوئی نہیں دیتا ‘ تو جناب عاطف خان سوال یہ ہے کہ فرنٹیئر کالج برائے خواتین میں افتتاح کیلئے جو تصویر جاری کی گئی اس میں صرف ایک سکواش کی کھلاڑی جینوئن ہے جو گونگی اور بہری ہے ماریہ ترپکئی تو کئی سال سے کینیڈا میں کوچنگ کررہی ہیں کیا یہا ں پر کوئی اور کھلاڑی نہیںتھا ‘ صرف تبدیلی والی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبران کو خوش کرنے کے بجائے کھلاڑی کو میرٹ کی بنیاد پر اگر رکھا جائے تو پھر مرد کھلاڑی بھی بہت سارے ہیں انہیں کیوں افتتاح کیلئے بننے والے اس پوسٹر میںکیوں نہیں چھاپا گیا ‘ کیا یہ مرد کھلاڑی کیساتھ ظلم نہیں .. یا پھر وہی اسماعیل شاہد والی بات کہ "مڑہ سوک ئی تپوس کوی"
#kikxnow #digitalcreator #sports #kp #kpk #pakistan #games #squash #players
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497733 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More