زمانے والو! تمہارے محسن نے جان دی ہے سسک سسک کر
تمہاری سوچوں میں جینے والا ، تمہارے تیروں سے مر گیا ہے ۔۔
کراچی جو کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ وہ کراچی جس نے ہر قوم کو پالا ہے،
وہ کراچی جس نے مصیبت میں یہ ملک سنبھالا ہے، وہ کراچی جس نے علم و دانش کے
کئیں پھول نکھارے ہیں، وہی کراچی جو امن کا گہوارہ تھا، ہاں۔۔ وہی کراچی جس
پر قابض کئیں نسلیں، کئیں زاتیں ہوئیں، وہی کراچی جس کا دامن خونِ انسان سے
سرخ کیا گیا، وہی کراچی جس میں مذہب کا تقدس پامال کیا گیا اور جی ہاں۔۔۔
وہی کراچی جس میں آگ کا کھیل متعدد مرتبہ کھیلا گیا ۔ کراچی جو ۱۹۴۷ سے
۱۹۶۰ تک پاکستان کا دارلحکومت رہا۔ دنیا کا دوسرا بڑا شہر آج امن جیسے لفظ
کو بھول گیا ہے۔ وہ کراچی جو سمندروں کی لہروں میں بسا ہے ، آج اس کی عوام
پانی کو ترس رہی ہے ۔ انتہا کی لوڈشیڈنگ نے جینا محال کر رکھا ہے۔ وہاں کی
سڑکوں کی ایسی حالت ہے کہ ٹریفک جام ہونا معمول کی بات ہے۔ وہ سڑکیں چیخ
چیخ کر بتا رہی ہیں کہ یہاں کتنے مجبور لوگ اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں
اور ناجانے کتنے لوگ اس ٹریفک جام کے دوران ایمبولینسوں کے اندر اپنی آخری
سانسیں لیتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملتے ہیں ۔ کیا وہ ربِ دو جہاں کو اس
حالتِ زار کے بارے میں نہیں بتاتے ہوں گے ؟ کیا وہ اس بےبسی کا ذکر ارحم
الراحمین کو نہیں بتائیں گے جو انھوں نے اپنی آخری سانسیں لیتے وقت محسوس
کی؟ لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ لوگ جئیں یا مریں، وہ
تو عیش کی زندگی گزار رہیں ہیں نا ۔۔۔ انھیں صرف اپنی زندگی سے غرض ہے۔ پھر
وہ وقت بھی دیکھا، جب کہا گیا تھا کہ" جب بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے، جب
زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے ۔ " اور اسکے بعد کراچی کو پانی
میں ڈوبا ہوا پایا گیا ۔ ابھی اس آزمائش سے مکمل طور پر بری نہ ہوۓ تھے کہ
دن دیہاڑے چوریاں شروع ہوگئیں۔ وہی کراچی جو شہیدوں کی امانت ہے، آج اپنے
ہی شہریوں کے لہو سے سرخ ہو گیا ہے ۔ کراچی کا رہائشی جسکا نام جہانگیر
سہیل بتایا جاتا ہے، چند دنوں پہلے اس نے ایک کیمرہ خریدا اور دو دن قبل وہ
جب ایک فنکشن میں بطور فوٹوگرافر کام کر کے واپس گھر لوٹ رہا تھا تو اس سے
کیمرا چھینا گیا اور مذمت کی بناء پر اسے قتل کر دیا گیا۔ یہاں ایک نہیں
ناجانے کتنے جہانگیر سہیل روزانہ کی بنیاد پر اپنے گھر والوں کو روتا بلکتا
چھوڑ کر ابدی نیند سو جاتے ہوں گے ۔ اب دکانوں، سڑکوں، گھروں بلکہ اسکولوں
میں بھی ڈکیتی کی وارداتیں ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ کراچی میں ہرطرف موت کا
رقص ہے، ہر آنکھ اشک بار، ہر دل غم زدہ ہے، مرنے والے کو نہیں پتہ اسے کیوں
مارا گیا، اب تودرندوں سے نہیں انسانوں سے خوف آتا ہے۔ یہ شہر جس کے ماضی
کو آپ دودھ اور شہد کی بہتی نہروں سے تشبیہ د یتے آ رہے ہیں آج اس میں خون
کی ندیاں بہہ رہی ہیں، شہر کا کوئی ایسا گھر نہیں جس کے مکین راستوں میں
اور گھروں میں ڈاکوں سے نہ لٹے ہوں، یا پھر کوئی غیر فطری موت کا شکار نہ
ہوئے ہوں۔۔وہ روشنیوں کا شہر کراچی آج خون میں لت پت دکھائی دیتا
ہے۔۔۔المختصر میرا کراچی رو رہا ہے، کل کا وارث کراچی، آج لاوارثیت کی حد
کو پہنچ چکا ہے۔۔ ﷲ پاک کرچی میں رہائش پذیر لوگوں کو اپنے حفظ و امان میں
رکھے اور ان پر رحم فرمائے۔ آمین
نکلو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا۔
|