سچی حکایات

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہمارےبے شمار اکابرین ،مشائخ اور مفسرین ایسے گزرے ہیں جن کی زندگیاں ہمارے لیئے مشعل راہ ہیں جب ہم پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کتنی تکالیف ، پریشانیاں اور فاقہ کشی جیسے مراحل سے گزر کر قرب الہی اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم حاصل کیا ہے اور آج جو مقام انہیں حاصل ہے وہ سب کے سامنے ہے یہ ہی نہیں ہمارے اوپر ہمارے ان اکابرین کا بہت بڑااحسان ہے کہ انہوں نے اپنی شہرائہ آفاق کتابیں اور ان میں موجود دلچسپ ، معلوماتی ، سبق آموز اور زندگی بدل دینے والے مضامین لکھ کر ہمارے لیئے اور ہماری نئی نسل کے لیئے تحفہ کی شکل میں چھوڑی ہوئی ہیں اب اگر آپ حضور غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب ( غنیتہ اطالبین ) لے لیں یا حضرت داتا گنج بخش ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کی (کشف المعجوب ) لےلیں حضرت مولانا رومی کی (مثنوی ) لےلیں یا امام دین مجدد امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی (فتاوی رضویہ ) لےلیں اور اس کے علاوہ بیشبہا کتابوں کا خزانہ موجود ہے جو نہ صرف ہمیں دین کی صحیح پہچان کرواتی ہیں بلکہ ہمیں بتلاتی ہیں کہ صبح اٹھنے سے لیکر رات سونے تک کے ہمارے جو معمولات ہیں یہ اصل زندگی نہیں بلکہ اللہ کاقرب حاصل کرنے کا صحیح راستہ کونسا ہے یہ بھی ہمیں پتہ چلتا ہے میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آج سے ہم حکایتوں کا ایک سلسلہ شروع کررہے ہیں جن میں کچھ روحانی حکایتیں ہوں گی کچھ سبق آموز حکایتیں ہیں کچھ دلچسپ تو کچھ قران اور احادیث سے لی ہوئی سچی حکایتیں ہیں آج کی تحریر میں ہم ابتدا کچھ سچی حکایتوں سے کرتے ہیں ایک معروف لکھنے والے سلطان الواعظین مولانا ابو النور محمد بشیر صاحب جنہوں نے بڑی محنت اور لگن سے مختلف احادیث اور قران سے سچی حکایتوں کو چن چن کر جمع کیا اور پانچ جلدوں پر انہوں نے سچی حکایات کے عنوان سے کتاب لکھی اور میں نے ان حکایتوں میں سے کچھ حکایتیں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی مجھے حق بات کہنے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہمارا اگلہ اسلامی مہینہ ماہ رجب المرجب کا مہینہ ہے اور اس مہینہ کو کئی بزرگان دین سے نسبت حاصل ہے ان میں ایک ہستی ایسی بھی ہے جنہوں نے بھٹکے ہوئوں کو راہ دکھائی حسن اخلاق کی چاشنی سے بداخلاقی کی کڑواہٹ دور کی اوت علم کی روشنی سے جہالت کا اندھیرا دور کیاوہ عظیم المرتبت سخصیت کا نام حضرت امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ ہےجن کا وصال 15 رجب المرجب 148 ہجری میں ہوا ایک دفعہ آپ علیہ رحمہ کا سامنا ایک ملاح سے ہوا جو دہریہ تھا یعنی خدا کی ذات کا منکر اس کا کہنا تھا کہ خدا جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی (معاذ اللہ ) حضرت امام جعفر صادق رحمگہ اللہ علیہ نے اس سے فرمایا کہ تم ایک جہازران ہو اور سمندر میں اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ تم نے گزارا ہے کیا کبھی تمہیں سمندری طوفان سے واسطہ پڑا ہے تو وہ بولا ہاں کئی مرتبہ واسطہ پڑا لیکن ایک دفعہ میرے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا جو میں کبھی نہیں بھول سکتا تو آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھاوہ کیا تو کہنے لگا کہ ایک دفعہ میں کچھ لوگوں کو لیکر سمندر کی طرف نکل گیا ابھی میری کشتی تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ مجھے طوفان آنے کا اندازہ ہوگیا اور میں نے اپنی کشتی کو واپس موڑنے کی تیاری میں لگ گیا ابھی میں اپنی کشتی کو مکمل گھما بھی نہیں پایا تھا کہ طوفان شروع ہوگیا اور یکایک اس طوفان کی تیزرفتاری نے مجھے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا اور کشتی ہچکولے کھانے لگی میں اس کوشش میں تھا کہ کسی طرح کشتی کو کنارے تک لے جائوں لیکن طوفان کی تیز رفتاری کی وجہ سے سارے لوگوں سمیت کشتی پانی میں ڈوب گئی اور سارے لوگ وہیں ڈوب کر ہلاک ہوگئے لیکن تم کیسے بچ گئے آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا تو اس دہریہ نے کہا کہ جب کشتی ڈوبنے لگی تو میں نے کشتی کو مظبوطی کے ساتھ پکڑا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کا ایک تختہ میرے ہاتھ لگ گیا تھا اور اس کے سہارے میں کنارے کی طرف بڑھنے لگا لیکن ابھی کنارا تھوڑی دور تھا کہ وہ تختہ بھی میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا بس پھر کیا تھا میں نے خود سے کوشش کی اور جیسے تیسے کنارے تک پہنچ گیا یہ سن کر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ جب طوفان کو دیکھکر تم نے کشتی کو گھمانے کی کوشش شروع کی تو تمہیں اپنی کشتی پر اعتماد اور بھروسہ تھا کہ وہ تمہیں اور تمہاری کشتی کو کنارے لگادے گی لیکن جب وہ ڈوبنے لگی اور ڈوبتے ہوئے تمہارے ہاتھ ایک تختہ لگ جاتا ہے تو اس وقت تمہارا بھروسہ صرف اس تختہ پر تھا کہ وہ تمہیں پار لگا دے گا لیکن جب وہ بھی تمہارے ہاتھ سے چھوٹ گیا تو اپنے دل پر ہاتھ دکھ کر بتائو کہ اس بے چارگی اور بے سہارا وقت میں تمہارے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا کہ اب بھی اگر کوئی چاہے تو مجھے بچا سکتا ہے میں بچ سکتا ہوں تو اس نے کہا کہ ہاں میرے ذہن میں یہ خیال تو آیا تھا امید تو تھی تو پھر یہ بتائو کہ کس سے امید تھی کون ہے جو تمہیں بچاسکتا ہے آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تو وہ دہریہ خاموش ہوگیا تب حضرت امام جعفر صادق رھمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یاد رکھو اس بے سہارہ وقت میں تمہیں جس سے امید تھی کہ کوئی چاہے تو مجھے بچا سکتا ہے تو وہ ہی ذات خدا کی ذات ہے جس نے اتنے لوگوں میں صرف تمہیں بچالیا تھا یہ سن کر وہ کچھ سوچ میں پڑگیا اور اس پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ بیہوش ہو گیا اور جب ہوش آیا تو اسے یقین ہوگیا کہ واقعی خدا کی ذات ہی ہے جس نے اسے بچایا اور نئی زندگی عطا کی پھر وہ دائرائہ اسلام میں داخل ہوگیااور مسلمان ہوگیا (تفسیر کبیر صفہ 221 ج 1 )

اس حکایت سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ خدا کی ذات پر ہمیں یقین تو ہے لیکن بھروسہ نہیں ہے ہمیں مکمل بھروسہ ہونا چاہیئے کہ خدا کی ذات ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ہماری زندگی کے معمولات میں کئی مرتبہ اور کئی جگہ ہمیں اس کی ذات کے ہمارے ساتھ ہونے کا گمان گزرتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ وہ رب ہمارے ساتھ ساتھ ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آیئے اب ہم دوسری سچی حکایت کی طرف بڑھتے ہین اس حکایت میں ہم جس ہستی کا تذکرہ کریں گے اس وقت ہم جس اسلامی مہینہ سے گزر رہے ہیں یعنی جمادی الآخر اس مہینہ کو ان سے نسبت ہے یعنی خلیفئہ اول ، رفیق غار یار اور آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے سچے پکے دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ یہ حکایت آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے کی ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ قبل از اسلام ایک بہت بڑے تاجر تھےایک دفعہ تجارت کے سلسلے میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ ملک شام میں تشریف فرما تھے کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ چاند اور سورج آسمان سے اتر کر ان کی گود میں آ پڑے ہیں اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر چاند اور سورج کو اپنے سینے سے لگالیا اور دونوں کو اپنی چادر کے اندر کرلیا ۔صبح جب آنکھ کھلی تو ایک عیسائی راہب کے پاس پہنچے اور خواب کی تعبیر اس سے پوچھی راہب نے پوچھا کہ آپ کون ہیں تو فرمایا کہ میرا نام ابوبکر ہے اور میں مکہ کا رہنے والا ہوں اس نے پوچھا کس قبیلے سے ہو تو فرمایا بنو ہاشم سے میرا تعلق ہے اچھا یہ بتائو کہ ذریئہ معاش کیا ہے تو فرمایا کہ تجارت تو راہب نے کہا تو سنو حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں اور ان کا تعلق بھی بنوہاشم کے قبیلے سے ہے اگر وہ نہ ہوتے تو خدا نہ زمین بناتا نہ آسمان بناتا بلکہ وہ دنیا کو بھی تخلیق نہ کرتا وہ اللہ تبارک وتعالی کے اخری نبی ہیں ااور تمام انبیاء کرام کے سردار ہیں ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تم اس دین میں داخل ہوجائو گے پہلے صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے وزیر پھر خلیفہ بنو گے یہ ہے تمہارے خواب کی تعبیر ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا کہ تم تو ایک عیسائی راہب ہو تم یہ سب کیسے جانتے ہو تو اس نے کہا کہ میں نے صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی تعریف توریت میں پڑھی ہے اور میں ان پر ایمان لاکر مسلمان ہوگیا ہوں لیکن اپنے لوگوں کے ڈر کی وجہ سے اپنے ایمان کا اظہار نہیں کرسکالیکن تمہے کوئی رکاوٹ نہیں تم جائو اس راہب کی بات سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی نے کے دل میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا جذبہ بیدار ہوا اور اپ رضی اللہ تعالی عنہ فورا مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی تلاش کے بعد بارگاہ رسالت ماب میں حاضر ہوکر دیدار پرانوار سے آنکھوں کو ٹھنڈا کیا آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق کو رضی اللہ عنہ کو دیکھکر فرمایا کہ ابوبکر اب جب تم آگئے ہو تو جلدی کرو اور دین حق میں داخل ہوجائو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا جی حضور لیکن پہلے کوئی اپنا معجزہ تو دکھائیں حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوبکر جو خواب تم نے ملک شام میں دیکھا اور وہ تعبیر جو تم ایک راہب سے سن کر آئے ہو وہ سب میرا ہی معجزہ تو تھا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ سن کر زور سے کہا بے شک اور پھر آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے سچ فرمایا بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ہی اللہ تبارک تعالی کے اخری نبی اور سچے رسول ہیں (جامع المعجزات ص4 ) ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس حکایت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ہی وجہہ تخلیق کائنات ہیں اگر آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی ذات نہ ہوتی تو یہ دنیا ہی نہ ہوتی ساری مخلوق آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا صدقہ ہے حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا ۔
وہ جو نہ تھےتو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہو تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی !جان ہے تو جہان ہے
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آج کی تحریر میں دو مختصر سچی حکایات آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے انشاء اللہ اگلی تحریر میں دوسری منتخب حکایات لے کر حاضر ہوں گے اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ مجھے صرف اپنی رضا کی خاطر حق بات کرنے اور ہم سب کو اسے پڑھکر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین آمین بجاء النبی الکریم

 

محمد یوسف راہی
About the Author: محمد یوسف راہی Read More Articles by محمد یوسف راہی: 166 Articles with 133910 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.