ہر چھے سات دن کے بعد سوشل میڈیا ان جملوں سے بھر جاتا ہے
معصوم تو وہ ہیں جنہیں فُلاں اور فُلاں کا سین نہیں پتہ، فُلاں کی آڈیو لیک
ہو گٸی، فُلاں کی ویڈیو لیک ہوگٸی، جس جس کو فُلاں کی ننگی ویڈیو چاہیے وہ
ایڈ کرے، بھاٸی ہمیں بھی لنک بھیج دو، مجھے بھی واٹس ایپ کر دو۔
اب تو اتنی آڈیوز اور ویڈیوز لیک ہو چکی ہیں کہ حساب رکھنا ممکن ہی نہیں۔
سیاسی اور مذہبی شخصیات، ماڈلز اور ایکٹرز کی آڈیوز اور ویڈیوز لیک ہونا
اور واٸرل ہونا بالکل معمولی سی چیز لگنے لگی ہے۔ لیکن اک چیز جو غیر
معمولی ہے وہ ہماری نوے فیصد عوام کا رویہ ہے۔ ہم خدا جانے گھٹن کے کس درجے
پہ ہیں کہ جہاں یہ لیکڈ آڈیوز ویڈیوز ہمارے لیے سانس لینے کا اکلوتا روزن
ہیں۔
مجھے معاشرتی اقدار یا مذہبی اخلاقیات پہ بات نہیں کرنی، مجھے اس ذہنیت کا
افسوس کرنا ہے جو ہر کسی کو ننگا دیکھنا چاہتی ہے۔ مجھے ان تمام نیکوکار
افراد سے گلہ ہے جو ہر جمعے اسلامی پوسٹیں کرتے ہیں اور رمضان میں سحر و
افطار کے دسترخوان کی تصاویر اپلوڈ کرتے ہیں، اور ہر وقت دوسروں کو وعظ
فرماتے ہیں لیکن جونہی ایسا کوٸی سکینڈل سامنے آتا ہے تو وہ مختلف لوگوں کی
باقاعدہ منتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ بھاٸی ہمیں بھی ویڈیو بھیج دو۔
ادھر ویڈیو یا آڈیو آٸی اُدھر ہم نے پورے سوشل میڈیا کو نیم جنسی ذومعنی
جملے بازی کا اکھاڑہ بنا دیا۔ میم بنانے میں اک دوسرے سے آگے نکلنے لگے۔
اکثر لوگوں کے اکاٶنٹس پہ تو کٸی کٸی دن فقط یہی باتیں ہوتی ہیں۔ اچھے خاصے
پڑھے لکھے افراد بھی دبے دبے انداز میں اپنے اندر کی سچاٸی اُگلتے پھرتے
ہیں کہ الامان والحفیظ۔
اک اندازے کے مطابق میرا اور آپ کا ملک پاکستان جو دنیا کا پہلا نظریاتی
اسلامی جمہوری ملک ہے، فحش ویب ساٸٹس سرچ کرنے اور گندی ویڈیوز دیکھنے میں
دنیا میں دوسرے نمبر پہ ہے۔ یہاں ریپ کی شرح اچھی خاصی ہے۔ یہاں جنسی
ہراسانی عام ہے۔ یہاں جسم فروشی عام ہے۔ یہاں گھروں میں اور اداروں میں
بچیاں چھوڑ بچے بھی محفوظ نہیں۔ یہاں قبروں میں خواتین کے مُردے بھی محفوظ
نہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہر آڈیو ویڈیو لیک ہونے کے بعد اندر کی گندگی
کیوں اُچھل اُچھل کے باہر آنے لگتی ہے؟
مزید کتنا گند دیکھنا ہے؟ مزید کتنا فحش ہونا ہے؟ مزید کتنا گرنا ہے؟ مزید
کیا چاہتے ہیں ہم لوگ؟ |