قصائی "قصاب" ہوتے ہیں.

یہ ہمارے بچپن کی بات ہے. ہمارے والد صاحب مہینہ دو مہینہ بعد دکان کا سودا سلف لانے کے گوہرآباد سے چلاس، جگلوٹ یا گلگت جاتے اور دس پندرہ کلو گوشت خرید کر لاتے. جیسے ہی گوہرآباد گھر پہنچتے اور گوشت کا تھیلہ کھولتے اور گوشت دیکھ کر حیران و پریشان ہوتے کہ یہ سب کچھ تو اس نے بغیر دکھائے شامل کیا ہے. یہ فراڈ بارہا ہوتا رہا. والد صاحب قصائی بدلتے مگر فراڈ برقرار رہتا.

ہم نے بچپن میں کئی سال چلاس میں گزارے. تایا ابو عذر خان صاحب جب بھی گھر گوشت لاتے یہی کچھ ہوتا.

2010 سے آج تک میرے ساتھ مختلف قصائیوں نے بیسویں دفعہ فراڈ کیا. ایک وقت آیا کہ قصائیوں سے گوشت لانا چھوڑ دیا تھا. ہم چار پانچ افراد مل کر ایک جانور خریدتے اور قیمت کے حساب سے گوشت برابر تقسیم کرتے. یہ سلسلہ چار سال سے جاری ہے مگر ہر وقت ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا. ایمرجنسی حالات بھی آتے ہیں، پھر ان ظالم قصائیوں کے پاس جانا ہوتا ہے.

ایک وقت ہڈی کے بغیر گوشت لینا شروع کیا تاکہ قصائیوں کے فراڈ سے بچ جائیں مگر ان ظالموں نے بوٹی میں بھی کچرا ملانا شروع کیا. کچھ قصائیوں سے دوستی بنانے کی کوشش بھی کی مگر ان کے فراڈ سے بچ نہ سکا. کئی دفعہ اپنے لیے گوشت مارکیٹ کے کسی دکاندار سے خریدوایا تاکہ فراڈ سے بچ سکوں مگر مجال ہے کہ وہ کسی کا لحاظ رکھیں.

گزشتہ سال جوٹیال پبلک چوک کے پاس اک قصائی والے کے پاس اسپیشل گیا، اپنا دکھڑا بھی سنایا اور عرض کیا کہ کلو پر پچاس روپے زائد لیں مگر خالص بوٹی دیں. بڑے رکھ رکھاؤ سے دیا. وہی چھاپر کھول کر دیکھا تو تین کلو میں ادھا کلو کچرا تھا.

اس کو دیکھایا اور سوچا کہ گلگت سٹی کے تعلق والے نائب تحصیلدار کو شکایت لگاؤں مگر پھر ارادہ ترک کر دیا.

قصائی پر جب اس کا فراڈ عیاں کیا تو اس نے بے ساختگی میں ایک دعائیہ جملہ کہا.

"اللہ تمہاری نسل میں کسی کو قصائی نہ بنائے". پھر صفا صفا کہا کہ یہ ہماری فطرت اور عادت میں شامل ہے کہ ہم بہرحال فراڈ کرتے ہیں.

اب انتہائی مجبوری کے علاوہ قصائیوں سے گوشت نہیں خریدتا، چکن پر گزارہ کرنا پڑتا ہے یا اپنے لیے جانور کا بندوبست کرتے ہیں. مجھے چکن پسند نہیں مگر قصائیوں کے مسلسل فراڈ نے اب چکن پر اکتفا کرنے پر مجبور کر دیا ہے.

گزشتہ ایک سال سے پڑی شفٹ ہوا ہوں. کچھ عرصہ پہلے پڑی بنگلہ میں ایک قصائی نے کام شروع کیا ہے. فی الحال فراڈ نہیں کررہا ہے. معلوم نہیں کب اس میں بھی قصائیوں والی عادت رونما ہونا شروع ہوجائیں.

اگر آپ قصائیوں کے فراڈ سے بچنا چاہتے ہیں تو ہم خیال دوستوں اور رشتہ داروں کا ایک گروپ بنا لیں اور مہینہ دو مہینہ بعد ایک جانور کا بندوسبت کریں. قیمت اور گوشت برابر تقسیم کریں. یہ فارمولا بہت آزمودہ اور قابل عمل ہے. ورنا پھر قصائیوں کی بدمعاشیاں بھگتے رہے.

مجھے اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ قصائی "قصاب" ہی ہوتے ہیں. قصاب کے معنی ظالم، کاٹنے والا، بے رحم اور بے درد ہیں.

یہ طے ہے کہ انتظامیہ قصائیوں کا بیجا درست نہیں کرسکتی ہے. کتنوں پر جرمانے کرے اور کتنوں کو جیل میں ڈالے. یہ لوگ پروفیشنلی کرپٹ ہوتے ہیں. یا تو ان پر محنت کرکے ان کے دلوں کی دنیا بدل دی جائے تاکہ خوف خدا ہونے کے بعد شاید سدھر جائیں. یا نئے لوگوں کو مارکیٹ میں متعارف کروایا جائے جو لوگوں کو بہتر گوشت مہیا کریں.

احباب کیا کہتے ہیں؟
 

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 385064 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More