فرانسیسی صدر دنیا کے پہلے سر براہ مملکت نہیں ہیں، جنہیں
تھپڑ کھانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ شرف ِ عظیم کئی سربراہان مملکت کو حاصل
ہو چکا ہے فرانسیسی صدر میکرون کو تھپڑ پڑنے کی خبر جیسے ہی میڈیا پر وائرل
ہوئی اور پاکستانیوں تک پہنچی تو تقریباً میری طرح ہر پاکستانی کو دلی سکون
ملا۔ یہ ماضی میں جناب کے ایک متنازعہ بیان کا بدلہ بھی تھا۔ بہرکیف بات
آگے بڑھاتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کے کتنے صدور اور
وزیر اعظم تھپڑ کھانے کی سعادت جیسی بلندیوں کو چھو چکے ہیں۔ارے ذرا
ٹھہرئیے! پہلے یہ تو جان لیں کہ تھپڑ ہو تا کیا ہے؟ تھپڑ ایک طمانچہ ہوتا
ہے جو عام طور پر مارے جانے والے کی طرف سے اُس کی ہتھیلی اورانگلیوں سمیت
رسید کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات تھپڑ رسید کرنے کیلئے الٹی ہتھیلی بھی استعمال
کی جاتی ہے۔ جسے اُلٹے ہاتھ کا تھپڑ کہتے ہیں۔ الٹے ہاتھ کے تھپڑ یا طمانچے
سے چونکہ درد کا احساس شدید تر ہوتا ہے۔ اس لئے الٹے ہاتھ کا تھپڑ مارنے
والا تھپڑ کھانے والے کو قبل از تھپڑ وارننگ دیتا ہے کہ میں الٹے ہاتھ کا
ایسا تھپڑ ماروں گا کہ ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں تھپڑوں کی کئی اقسام اور نام ہیں لیکن ہمارا
تذکرہ خالص پاکستانی تھپڑوں پر
مرکوز ہے۔
تھپڑ کو اردو میں عام طور پر طمانچہ، چپت،چانٹا اور تھپڑ کہتے ہیں۔ ہاں
البتہ پنجابی میں تھپر کو لپڑ،اور چنڈکہتے ہیں۔ پنجابی کے لپڑ کے اردو کے
تھپڑ سے کئی گنا زیادہ شدید، تیز اور زور دار ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ ہلکی
سی چپت کو ہم تھپڑ قرار نہیں دے سکتے۔ تھپڑ کا زور دار ہونا ضروری ہے جیسا
فرانسیسی صدر میکرون کے منہ پر پڑا تھا۔ تھپڑا یک ہو تواُسے تھپڑ کہا جاتا
ہے۔ تھپڑ تعداد اور مقدار میں زیادہ ہوں تو اُسے ہم تھپڑوں کی بارش کہیں
گے۔ تھپڑ یا طمانچے کا استعمال چہرے کے علاوہ اردو محاروں میں بھی ملتا ہے۔
کسی کو شرم دلانے، احساس دلانے یا طعنے مارنے کیلئے طمانچوں سے فیض یاب ہوا
جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر حکومت کے منہ پر طمانچہ، وزیر کے منہ پر
طمانچہ، سیاستدان کے منہ پر طمانچہ۔ آج کل گرمی کی شدت سے طمانچے بھی عام
ہو گئے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان اور بیچارے قادر مندو خیل والا واقعہ۔
جی تو بات ہو رہی تھی تھپڑ کی۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ طمانچہ اگر زور
دار ہو تو چہر ہ اور اُس کے پاس کا سارا علاقہ سرخ ہو جاتا ہے۔ چہرے کے گال
اور اُس کے مضافات کے تمام ایریے میں کئی گھنٹوں تک درد محسوس کیا جا سکتا
ہے۔ ہمیں اس بات پر بھی زیادہ تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اگر طمانچہ ساٹھ یا
نوے کی ڈگری سے مارا جائے تو کیا نتائج برآمد ہونگے۔
تھپڑ یعنی طمانچے کی آواز خاصی سُریلی ہوتی ہے۔ جو تھپڑ کی سعادت حاصل کرنے
والے کے کانوں میں خاصی دیر تک کھنکتی رہتی ہے۔ جیسے تھپڑوں کے ہر زبان میں
کئی نام ہیں اسی طرح اس کی اقسام میں بنیادی طور پر دو قسمیں شامل ہیں۔
دیسی تھپڑ، ولایتی تھپڑ! دیسی تھپڑ یا طمانچہ وہ ہوتا ہے جو آپ کو آپ کے
اپنے علاقے کی گلی، محلے، شہر، صوبے یا ملک میں کسی اپنے ہم وطنی ہاتھ سے
رسید ہو۔ ولایتی طمانچے کی البتہ بہت سی قسمیں ہیں۔ اگر کسی انگریز نے تھپڑ
مارا ہو تو انگریزی طمانچہ کہلائے گا۔ کسی چینی کے ہاتھ کا چینی تھپڑ اور
جاپانی کے ہاتھ سے کھایا ہوا تھپڑ جاپانی چپت کہلائے گا۔ اُس کی وجہ یہ ہے
کہ چھوٹے ہاتھ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی جاپانی زور دار تھپڑ مارنے کی
صلاحیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا وہ صرف ہلکی چپیت ہی مار سکتے ہیں۔
طمانچوں کی ایک قسم بیگمی تھپڑ بھی ہوتی ہے۔ جنہیں رسید کرنے کا اعزاز صرف
بیگمات کے ہاتھ ں کو ہوتا ہے۔ طمانچوں کی دستیاب تاریخ بتاتی ہے کہ بات
ہلکی پھلکی تلخی سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن پھر حالات کشیدہ ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ
کوئی ایک فریق تھپڑ زدہ چہرہ لے کر کنارہ کشی میں عافیت سمجھ کر ”تمہیں
دیکھ لو ں گا“ کی دھمکی دیتا ہے اور کھسک جاتا ہے۔
بعض اوقات ایسا اتفاق بھی ہوتا ہے کہ ایک گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کی لو
سٹوری فلاور سے شروع ہو کر SLAPیعنی طمانچے پر ختم ہوتی ہے۔ یہاں پر اُن
لوگوں کا اور خاص طور پر اُن UNSUNG HEROESکا تذکرہ بھی ضروری ہے جو آئے دن
تھپڑ کھاتے رہتے ہیں۔ اُن ہیروز کو رسید ہونے والے تھپڑ دھیمی آواز کے ہوں
یا زور دار گرج والے، یہ موصوف اور جانباز صاحبان کیا مجال جو ذرا سی بھی
تھوتھنی بناتے یا شکل بسورتے ہوں۔ یہ وہ محکوم صاحبان ہیں جن کے خیال میں
طمانچہ کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ عظیم لوگ تھپڑ رسید ہونے پر نہ تو
اِسے کوئی سانحہ قرار دیتے ہیں اور نہ ہی مستقبل کیلئے اس کا کوئی سدباب
سوچتے ہیں۔ یہ عالی جناب وہ عظیم ہستیاں ہیں کہ بغیر کسی اعتراض اور کسی
بھی نا معقول زاویے والی شکل بنا کر تھپڑ رسید کرنے والوں کی دل شکنی نہیں
کرنا چاہتے۔ اِن عظیم ہستیوں میں سرفہرست سیاستدان ہوتے ہیں۔ جن میں سے بہت
سے مختلف ممالک کے صدور، وزیراعظم، صوبائی یا وفاقی وزیر شامل ہیں۔ دوسرے
نمبر پر شوہروں کا اندراج ہے۔ جو رفتہ رفتہ اس معراج پر پہنچ جاتے ہیں کہ
بیگمات کے غیض و غضب سے بچنے کیلئے وہ ایک تھپڑ کے حسن سلوک کو ہی فلاسفی
آف لائف سمجھتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر دنیا بھر کے بوائے فرینڈ ز براجمان ہیں۔
جن میں سے دیسی بوائے فرینڈ ”تمہیں دیکھ لوں گا“ اور ولایتی بوائے فرینڈ
”You Bitch“کا فقرہ کستا ہے اور جائے وقوعہ چھوڑ کر نو دو گیارہ ہو جاتا
ہے۔ اب بندہ اِن گرل فرینڈ ز سے پوچھے کہ چپت باز ی اور طمانچہ سازی میں
آخر کونسی شرافت ہے۔ بات بیٹھ کر نرم گرم ہاتھوں سے بھی رفع دفع کی جاسکتی
ہے۔ بہر حال اب کیا کہا جا سکتا ہے۔ حضور والا اب کس کس کے ہاتھ کو روکا جا
سکتا ہے۔ جب تک دنیا میں ہاتھ موجود ہیں۔ اُس وقت تک گھروں، دفاتر،
عدالتوں، صوبائی اور قومی اسمبلیوں، بازاروں، گلی کوچوں، دیس یا پردیس سے
طمانچوں کی آوازیں آتی رہیں گی۔ اِن سانحات پر انسانی اعتراض نہیں بنتا۔
لہٰذا تھپڑ رسید ہونے پر کوئی بھی انسان اِسے پرلے درجے کی ناانصافی نا
سمجھے بلکہ خدا کی قسم اُن شرافت کے پیکرز کو دیکھئے جو بغیر چوں چراں کیے
یہ تھپڑ کھا لیتے ہیں۔
خدا سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو تھپڑ کھانے کا حوصلہ، طاقت اور ہمت عطا
فرمائے۔
|