ہم نے گذشتہ چالیس پچاس سالوں میں بہت سی چیزیں کھو دی
ہیں اور اُن چیزوں میں کچھ چیزیں تو ایسی ہیں کہ جن کا ہمیں ناقابل تلافی
نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اُن چیزوں کے کھو دینے کا سیدھا سیدھا مطلب ہے
کہ ہم مزید اگلے کچھ برسوں میں اپنی شناخت اور پہچان ہی کھودینے والے ہیں۔
ایسی زندگی کا کیا فائدہ ہو گا کہ ہم اپنی پہچان اور شناخت کے بغیر زندہ رہ
رہے ہوں۔ ہم تہذیبی اور ثقافتی طور پر ایک قلاش، مفلس اور فقیر قوم ہونگے۔
یہ نوحہ پوری قوم کا ہے کیونکہ پوری قوم ہی اس سانحے سے دوچار ہے۔ اگر ہم
ذہن پر زور ڈالیں اور سوچیں تو ہمیں یقینا یاد آجائے گا کہ ہمارے بچوں کے
کچھ روائتی کھیل ہوا کرتے تھے۔ جو دیہاتوں اور شہروں میں یکساں طو رپر
مقبول تھے اور بہت شوق سے کھیلے جاتے تھے۔ اب وہ کھیل کہاں ہیں؟ آج ہمارے
بچوں کا وہ بچپن کہاں ہے؟ لال پری، برف پانی، پٹھو گرم، بنٹے، رسی ٹپنا،
کوکلا چھپاکی، شٹاپو، لٹو، اخروٹ کھیلنا، چور سپاہی، گلی ڈنڈا، رسہ کشی،
بندر کلا، گو گو، گڈے گڑیاں، کیرم بورڈ، لکن میٹی یعنی چھپن چھپائی اور نہ
جانے کتنے ایسے کھیل تھے جو ہمارے روائتی اور لوک کھیل تھے۔ یہ تمام کھیل
چند برسوں کی تاریخ پر مشتمل نہیں تھے۔ بلکہ صدیوں سے کھیلے جا رہے تھے۔
لیکن جدید دور نے اور خاص طو رپر کمپیوٹر اور موبائل فونز نے ہمارے بچوں سے
یہ قیمتی اور نایاب کھیل چھین لیے ہیں۔ آج ہم ماڈرن شہری لوگ کسی گاؤں میں
گُلی ڈنڈے کے کھیل کو دیکھ لیں تو کچھ نفرت، حقارت اور بد مزاجی کا سا منہ
بنا کر اِسے ایک دیہاتی اور فضول کھیل سمجھتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گلی
ڈنڈے کے کھیل کو انگریزی میں (TIPCAT)کہا جاتا ہے اور یہ جنوبی ایشیا کا دو
ہزار سال پرانا کھیل ہے۔ یہ تاریخ صرف گلی ڈنڈے کی حد تک نہیں ہے بلکہ چھپن
چھپائی اور برف پانی جیسے انگریزی میں (ICE WATER)کہتے ہیں یہ کھیل بھی بہت
پرانے ہیں اور صدیوں سے ہمارے دیہاتوں اور شہروں میں کھیلے جا رہے ہیں بلکہ
یہ کہنا چاہیے کہ کھیلے جا رہے تھے کیونکہ اب کسے یاد ہو گا کہ پٹھو گرم
میں ایک دوسرے کے اوپر جو پتھر رکھے جاتے تھے اُن کی تعداد کتنی ہوتی تھی؟
کتنا حسین وقت تھا! سکولوں میں بریک ہونے پر لڑکے اور لڑکیاں سکول کے
میدانوں کی طرف بھاگتے تھے۔ کھیل کے چناؤ پر بحث ہونے لگتی۔ کھیلنے والے
جہاں لطف اندوز ہوتے، دیکھنے والے اُس سے زیادہ تجسس میں دکھائی دیتے۔ یہ
تھا ہمارا یاد گار بچپن جو ہم سے چھن گیا، جو آج ہمارے بچوں کے مقدر میں
نہیں۔
کتنا سادہ سا وقت تھا۔ پب جی، ٹک ٹاک اور بچوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے
والی بے شمار ایپس سے پاک۔ میں آج چیلنج کرتا ہوں کہ پٹھو گرم سے زیادہ
دلچسپ گیم اگر ہے تو کوئی دکھا دے۔
برف پانی، تفریح سے بھرپور اور مکمل ٹائم پاس گیم۔ آپ کو کوئی اگر برف
بنادے اور دوسرا کوئی آکر پانی میں بدل دے، واہ۔ کیسے بھول جائیں ہم دوڑنے،
چیخنے اور کھو کھوکے نعرے لگانے سے بھرپور کھیل کھو کھو۔ ہمارے بد نصیب بچے
شائد آج کوکلا چھپاکی کے بارے میں بھی زیادہ نہیں جانتے ہونگے۔ کتنا دلچسپ
لگتا تھا جب دائرے میں بیٹھے بچوں کے پیچھے دھمکی دیتا ہوا کوئی بچہ یہ گیت
گاتا تھا۔
کوکلا چھپاکی جمعرات آئی اے
جیہیڑا اگے پچھے ویکھے
اودی شامت آئی اے۔
شطرنچ، لڈو، پتنگ بازی، دوڑ لگانا، بھانڈا بھنڈاریا، الیے پٹالیے، چیچو چیچ
گنیریاں، ہرا سمندر گوپی چند ر یا اِن جیسے دوسرے روائتی کھیل ہمارے قومی
کھیل نہیں تھے ہاں بچوں کی زندگی ضرور تھے۔ تازگی بخش توانائی سے بھرپور
زندگی سے جڑے ان کھیلوں کے عام فہم قاعدے اور اصول تھے جس کیلئے کوئی گہری
حکمت عملی یا سنجیدگی درکار نہیں ہوتی تھی۔ یہ لوک کھیل تھے جو ہر علاقے
میں معمولی سی تبدیلیوں کے ساتھ سینہ بہ سینہ آگے بڑھتے رہے، زندہ رہے۔
آج ان روائتی کھیلوں کی زندگی خطرے میں ہے۔ آج ہمارے بچوں کا بچپن خطرے میں
ہے۔ آج ہماری ثقافت، تہذیب، شناخت اور پہچان خطرے میں ہے۔ ماڈرن ازم نے بہت
سفاکی برتی ہے ہمارے ساتھ۔ دنیا بدل رہی ہے ہمیں بھی بدلنا ہوگا، بالکل
بدلنا ہوگا لیکن اس نظریے پر چلتے ہوئے ہم اپنی تہذیب اور ثقافت کو بُھلا
بیٹھیں یہ تباہ کن ہوگا۔ ہمارے پاس فرانس، جاپان، سپین سمیت بہت سے ممالک
کی مثالیں موجود ہیں جہاں لوگوں نے اپنے روائتی کھیلوں کو زندہ رکھا ہوا
ہے۔یہ سعی ہم کرنے میں کیوں ناکام رہے ہیں۔ افسوس ہمارے پاس تو وہ کتابیں
بھی نہیں ہونگی جن میں ہمارے بچوں کے لوک اور روائتی کھیلوں کے تذکرے اور
مکمل معلومات موجود ہو۔یہ کہاں لکھا ہے کہ اگر ہم ترقی کے راستے پرقدم رکھ
کر آگے بڑھ رہے ہوں یا جدید اور ماڈرن زندگی کے لوازمات اور سٹائل پر چل
رہے ہوں تو ہم اپنے عام فہم، ہر دلعزیز اور دلکش روائتی کھیلوں کو فراموش
کر دیں۔ ٹیکنالوجی تک رسائی ہر گز یہ نہیں کہتی ہے کہ ہم اپنے روائتی
کھیلوں کی طرف مائل نہ ہوں۔
کبھی غور کیا ہے ہم سب نے کہ آج سے تیس چالیس سال پہلے میڈیکل سٹور کہیں
کہیں ہوا کرتے تھے لیکن آج ہر علاقے میں کئی میڈیکل سٹور موجود ہوتے ہیں۔
اس کی وجہ جسمانی کھیلوں سے دوری ہے۔ آج ہمارے بچے موبائل لے کر کئی کئی
گھنٹے بیٹھے یا لیٹے اپنا وقت پب جی جیسی گیمز پر صرف کر رہے ہیں۔ پولٹری
فارمز کی برائلر مرغیوں کی طرح ہمارے بچے بھی برائلر ہو چکے ہیں۔ اس میں
کسی حد تک قصور وار والدین بھی ہیں کہ اُن کے پاس بچوں کو پرانی کہانیاں،
داستانیں اور قصے سنانے کا وقت ہی نہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے گھر تو پکے کر لئے، لیکن اُن گھروں کی
بنیادوں تلے اپنی ثقافت کو کچل دیا۔ اب کیسے اُس بچپن کو تلاش کر یں جو کچے
صحنوں میں ہرا سمندر گوپی چندر، بول میری مچھلی کتنا پانی جیسے گیت گا کر
اور کھیل کر بتایا کرتے تھے۔
|