پاکستان کا ابن ِ خلدون

پاکستان کو تقریباً ہر شعبے کیلئے طویل المدتی منصوبوں کی ہمہ وقت ضرورت رہی ہے لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی اور دوسری حریف سیاسی جماعتوں اور اُن کے رہنماؤں سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ حکومتیں بدلتے ہی وہ منصوبے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ جس سے ملک اور عوام کا نقصان ہے۔ اُن منصوبوں پر عوام کے ٹیکس کا پیسہ لگا ہوتا ہے۔ اعلیٰ ظرفی اور بڑے دل کی نشانی یہی ہے کہ ہم پچھلی حکومتوں کے منصوبوں کو نا صرف جاری رکھیں بلکہ اگر وہ قابل ستائش ہیں تو اُن کی تعریف ضرور کریں۔

طویل المدتی منصوبہ بندی سے ہٹ کر بھی یہ بات ضروری ہے کہ غربت ختم کرنے کے پروگرامز خواہ بے نظیر انکم سپورٹ ہو یا احساس پروگرام ہو اُنہیں جاری رہنا چاہیے۔ مساوات، معیشت کی ترقی، روز گار کی فراہمی، بے گھروں کیلئے گھروں کی تعمیر، بہترین علاج اور صحت کی سہولیات یہ تمام شعبے زندگی کیلئے اہمیت کے حامل ہیں لیکن تعلیم کا شعبہ اِ ن امور سے بھی کہیں زیادہ توجہ طلب ہے۔ حکومتیں خواہ بنتی بگڑتی رہیں۔ رہنما آتے جاتے رہیں لیکن تعلیم کے شعبے سے چھیڑ چھاڑ کرنا یا کسی طور پر بھی غیر سنجیدگی دکھانا پوری قوم کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔ دنیا کے بہترین تعلیمی نظام اگر سٹڈ ی کیے جائیں تو ہمیں بہت سی چیزوں کا پتہ چلے گا کہ کا میاب تعلیمی نظاموں کے پیچھے کیا وجوہات رہی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد جب جنرل آرتھر نے شہنشاہ جاپان ہیرو ہٹو سے پوچھا کہ بولو تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ شہنشاہ جاپان نے جواب دیا کہ ہمارے کلچر، زبان اور نظام تعلیم کو چھوڑ کر جو چاہے تباہ کر دو۔ ہمیں اُس کی کوئی فکر نہیں، ہم دوبارہ بنا لیں گے!
یہ ہوتی ہیں قومیں اور یہ ہوتا ہے وژن۔

معذرت کے ساتھ ہم قوم کم اور چوں چوں کا مربہ زیادہ لگتے ہیں۔ ہمیں کس سمت میں جانا ہے کچھ پتہ نہیں۔ ہمارا نظام تعلیم اردو ہوگا یا انگلش، ہم ابھی تک کنفیوزڈ ہیں۔ ترقی ہم سے اُس وقت تک گریزاں رہے گی جب تک ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتری کی راہ پر ڈال نا دیں۔ ہمارے تعلیمی سسٹم میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے جو اس ضرورت کو سمجھے گا وہ اس قوم کا محسن ہو گا۔ دنیا کے بہترین تعلیمی نظام جن اصلاحات سے گزر چکے ہیں ہم شائد اُن کی اے بی سی سے بھی واقف نہیں۔

تعلیم کے حوالے سے دنیا کے چند بہترین تعلیمی نظام آسڑیلیا، کینڈا، چین، فن لینڈ اور سنگا پور کے پاس ہیں۔ اِ ن ملکوں کی تعلیمی پالیسیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ نصاب، درس و تدریس کا طریقہ، نظم و نسق، ٹیکنالوجی، معیار اور اچھے اساتذہ اِن تمام پہلوؤں کو یکجا کرنے اور تعلیمی اصلاحات جاری رکھنے سے ہم اپنے تعلیمی سسٹم کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

نظام تعلیم میں طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ تعلیمی نظام کے طویل المدتی منصوبوں کیلئے طویل المدتی وژن سر فہرست ہے۔ فن لینڈ کے بہترین تعلیمی نظام پر ہو سکتا ہے کچھ سوچنے والوں کے پاس یہ جواز ہو کہ وہ امیر یورپی ملک ہے۔ اپنے نظام تعلیم کیلئے اُن کے پاس بہت سے وسائل ہیں۔ لیکن سنگاپور اور چین وہ ممالک ہیں جنہوں نے ایشیا میں ہونے کے باوجود اپنے تعلیمی نظام کیلئے طویل المدتی وژن اپنایا۔ چین کا آن لائن تعلیمی نظام، جدید ہائی اسکولز اور عالمی سطح کی یونیورسٹیاں۔ چین 2030تک اپنے تعلیمی نظام کو دنیا کے بہترین تعلیمی نظام میں لاکھڑا کرنے کیلئے طویل المدتی وژن پر گامزن ہے۔

کسی ملک کے تعلیمی نظام کے متاثر ہونے اور پیچھے رہ جانے کی وجوہات میں اصلاحات کا نہ ہونا، معاشی، معاشرتی اور سب سے بڑھ کر سیاسی بحران شامل ہیں۔ ایسے ممالک جو سیاسی بحرانوں کی زد میں رہتے ہیں جیسے یمن، کانگو یا دیگر افریقی ممالک اُن ملکوں کے رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ ایک نظریے کے تحت تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر بٹھا کر کچھ ایسے فیصلے کریں کہ جن سے تعلیم کا حرج نہ ہو۔ ہم یقینا اِسے تعلیم کے شعبے کو میسر آنے والی مستقل قیادت یا رہنمائی کا نام دیں گے۔

تعلیم کیلئے ایسی ہی رہنمائی اور قیادت کی پاکستان کو بھی ضرورت ہے۔ قیادت اور رہنمائی کے بعد ایک اہم ترین فیکٹر تعلیم کا معیاری ہونا ہے۔ ایسے ممالک جو اپنی تعلیم اور اُس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے کچھ معیار سیٹ کرلیتے ہیں وہاں تعلیم کا نظام بہتر ہونے لگتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اگر یکساں تعلیمی نظام پاکستان کو دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ پاکستان کی تاریخی کامیابی ہو گی اور یہ قوم ہمیشہ وزیر اعظم عمران خان کی احسان مند رہے گی اور اگر ایسا نہیں ہو پاتا اور الیکشن میں بننے والی حکومت یکساں نظام تعلیم کیلئے ہونے والی تمام محنت اور کاوشوں کو ضائع کر دیتی ہے تو پھر یہ قوم تمام عمر المیوں سے ہی دو چار رہے گی پاکستان سے قبل آسٹریلیا یہ کارہائے نمایاں سر انجام دے چکی ہے۔ آسٹریلیا کی تمام صوبائی ریاستیں ایک قومی نصاب تشکیل دینے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔
یکساں قومی نصاب کے بعد نا گزیر ترین پہلوؤں میں اساتذہ کی قابلیت کا پہلو بھی شامل ہے۔ تعلیمی وژن، نقطہ نظر، قیادت اور رہنمائی، اعلیٰ معیار، مساوات اور یکساں تعلیمی نصاب رائج ہو جانے کے بعد اہم ترین نقطہ اساتذہ کی قابلیت اور افادیت ہے۔ اگر یہ تمام سنگ میل عبور کرنے کے بعد کلاس روم میں درس و تدریس کیلئے قابل اساتذہ موجود نہیں ہے تو وہ باقی کامیابیوں اور تبدیلیوں کو بھی ضائع کر دے گا۔
تعلیمی نظام کی بہتری کے پہلوؤں میں پالیسیوں پر عمل درآمد اور مستقل مزاجی بھی اہم نقطے ہیں۔ حکومت وقت اور دیگر تعلیمی اداروں کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اہداف پر مسلسل نظر رکھیں اور ایسے تعلیمی ادارے جو اپنے اہداف اور گولز پورے کرتے ہیں، انہیں انعامات اور اعزازات سے نوازا جانا چاہیے۔

ہم نظام تعلیم میں خود احتسابی کے عمل کو فراموش نہیں کر سکتے۔ تعلیمی اداروں میں انتظام اور احتساب پر مسلسل نظر رکھنی ہوگی۔ بچوں کی قابلیت پر انعامات، داخلوں پر اثر و رسوخ کو غیر موثر بنانے، کمزور کارکردگی پر استفسار کا عمل، مستحکم کارکردگی اور اُس کے فروغ کیلئے ایک مضبوط میکانزم ہونا چاہیے۔
سائنسی اور جدید آئی ٹی ڈگریوں کو متعارف کرانے کی ضرورت سے انکار بھی ناممکن ہے۔ پاکستان کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ ہم پیشہ وارانہ طاقتور شعبوں کو اپنی جامعات میں پڑھانا شروع کریں۔ ہمیں دنیاکے ساتھ چلنا ہوگا۔ دنیا سے کٹ کر دنیا سے پیچھے رہ کر ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کو دنیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی نظاموں کے مدمقابل کھڑا کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ ہاں البتہ اس عظیم مقصد کیلئے سنجیدگی، مستقل مزاجی، عزم، حوصلہ، طاقت، احساس، چاہت، ارمان اور دل میں تڑپ کی ضرورت ہے، جو اُس شخص کے اندر ہوتی ہے جو سنگلاخ، ویران، بیابان اور بے آب صحرا میں پانی کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوتا ہے۔ کوئی ہے جو پاکستانی تعلیمی نظام کا ابن خلدون بنے!

 

Ahmed Naveed
About the Author: Ahmed Naveed Read More Articles by Ahmed Naveed: 47 Articles with 23925 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.