جلال الدین رومی نے ایک بار کہا تھا۔
”عیسائی، مسلمان، یہودی، زرتشت، حتیٰ کہ پتھر زمین، پہاڑ، دریا ہر ایک کے
پاس زندہ رہنے کی کوئی نہ کوئی دلیل اور ایسے پر اسرار راز اور بھید ہیں کہ
اُن کی اس منفرد سوچ کو نہ تو جا نجا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی فیصلہ کیا
جاسکتا ہے“۔
یہ بات مجھے اس لیے یاد آئی کہ حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت کی پہلے
پاکستان سے ہار اور پھر نیوزی لینڈ سے شکست کے بعد سے بھارتی کرکٹ ٹیم کو
ابھی تک سوشل میڈیا پر شدید نفرت اور طعنے بازی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہاں غالباً ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ پاکستان سے شکست کے بعد پاکستان
کے سوشل میڈیا پر بھارتی ٹیم اور بھارتیوں کے خلاف ہلکا پھلکا مذاق دیکھنے
کو ملا تھا۔ اُس میں بھارتی ٹیم کے ساتھ نفرت اور حقارت آمیز رویہ ہرگز
شامل نہیں تھا۔ بلکہ پہلے میچ کے ہارنے کے بعد واحد بھارتی مسلمان کھلاڑی
محمد شامی کو بھارتی انتہا پسندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ رویہ بھارت میں
موجود مذہبی عدم رواداری کی بدترین مثال ہے جو دیکھنے کو ملی اور بھارت میں
یہ مذہبی عدم رواداری کو پھیلانے کا سارا کا سارا کریڈٹ بھارتی وزیراعظم
مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمان مخالف بیانیہ
اور سوچ ایسی مضبوط جڑ پکڑ چکا ہے کہ اُسے کاٹنا نا ممکن دکھائی دے رہا ہے۔
بھارت کی پاکستان کے ہاتھوں 10وکٹوں سے شرمناک شکست کے بعد محمد شامی کو
سوشل میڈیا پر ٹرول کیا گیا اور گالیاں دی گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ
بھارتیوں نے او ر خاص طور پر بھارتی حکام نے بھارت میں پنپنے والی اس اتنہا
پسندی کو تسلیم کر نے کی بجائے ان تمام پوسٹوں کو پاکستان سے جوڑ دیا،
حالانکہ بھارتی حکام کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ جب ویرات کوہلی محمد شامی
کی سپورٹ میں بولے تو بھارتیوں نے اُنہیں بھی ٹرول کیا اور بُرا بھلا کہا۔
بھارتی انتہا پسندوں کا یہ طوفان بدتمیزی یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ بھارت کی
نیوزی لینڈ کی ٹیم سے شکست کے بعد مزید پھیلا۔ یہاں تک کہ ویرات کوہلی کی
کم سن بچی جس کی عمر غالباً ایک برس بھی نہیں ہے۔ ویرات کوہلی کو اُس کے
ساتھ زیادتی کرنے کی دھمکی دی گئی۔ یہ وہ نفرت انگیز رویہ اور سوچ ہے جس کے
ذمے دار وہ تمام بھارتی اور اُن کا وہ سماج ہے جو آج تک مسلمانوں کے ساتھ
ہونے والی تمام زیادتیوں پر خاموش رہا۔
سکالرز، مبصرین اور لکھاریوں کا ماننا ہے، مذہب یا مذہبی سوچ جوتوں کے اُس
جوڑے کی مانند ہے کہ آپ اپنے لیے ایسا جوڑا ڈھونڈتے ہیں جو آپ کیلئے موزوں
ہو، لیکن اپنے یہ جوتے کسی دوسرے کو پہنانے کی کوشش یا زبردستی مت کریں۔
دانشوروں کی اس سوچ پر کتنے لوگ عمل پیرا ہیں۔ اب تو مذہبی عدم رواداری کا
یہ عالم ہے کہ ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم فیصلہ کریں گے کہ دوسروں کی سوچ،
زندگی، ذات اور مذہب کیسا ہو گا۔پاکستان میں بھارت جیسی صورتحال نہیں ہے،
لیکن پھربھی ہمیں بھی ہوش کے ناخن لینا ہونگے۔ مذہبی جماعتوں کے لانگ مارچ
اور دھرنے شائد اتنے خطرناک نہیں، جتنے اُنہیں سڑکوں پر سے اٹھانے اور
گھروں میں بھیجنے کیلئے جز وقتی معاہدے خطرناک ہیں۔ اس وقت سوچ صرف یہ ہوتی
ہے کہ اِنہیں سڑکوں پر سے اٹھا کر گھروں میں بھیج دیا جائے اور راستے کھل
جائیں حالانکہ ایسا کرنے سے ہم اپنے مستقبل کے راستے بند اور مخدوش کر رہے
ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کی یہ حکمت عملی کہ بس اس وقت اِن سے جان چھڑائیں
اتنا ہی بھیانک اور خوفناک ہے جتنا اُن مذہبی جماعتوں کا سڑکوں پر آکر
بیٹھنا اور دھرنا دینا۔
عدم برداشت ناکافی تعلیم کی پہلی علامت ہے۔ ایک کم تعلیم یافتہ شخص مغرور
اور بے صبر ہوگا۔ تعلیم یافتہ شخص میں آپ کو عاجزی ملے گی۔ یہ بڑی بڑی مہذب
قومیں کیوں دوسروں کے ساتھ عاجزی سے پیش آتی ہیں۔ کیونکہ وہ پڑھ لکھ جاتے
ہیں۔
یہ بہت خوفناک بات ہے کہ آج ہمارے معاشرے سے نرمی، ہمدردی، شفقت، عاجزی،
غلطی کو تسلیم کرنے کی خوبی ختم ہو چکی ہے۔ ہماری سڑکیں اور اُن پر بے صبری
سے رواں دواں ٹریفک ہمارے معاشرے کا عکس ہے۔
بھارت میں دو میچوں کے ہارنے کے بعد بھارتی ٹیم کے ساتھ کیا ہوا۔ یہ عدم
برداشت کی سیدھی سادی تصویر ہے۔ ایسے معاشرے جہاں آپ دوسروں کی با ت نہ
سنیں۔انہیں اپنے دفاع کا موقعہ اور حق نہ دیں۔ تباہی اُن کی چوکھٹوں پر
ڈیرے ڈال لیتی ہے۔
صد شکر کہ ہم عدم برداشت کی اُس اسٹیج پرنہیں کھڑے، جہاں آج بھارت کھڑا ہے۔
لیکن اگر ہم وقت رہتے ہی نہ سنبھلے تو خدانخواستہ ہمیں بھی اس اسٹیج پر
پہنچنے میں وقت نہیں لگے گا۔ دوسروں کی سوچ، رائے اور آزادی کا اقرار لازم
ہے۔ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں غلام نہیں بستے تو پھر عدم برداشت، بے
صبری اور دوسروں کو غلام سمجھنے اور جاننے کا رویہ خدانخواستہ کیوں پروان
چڑھے۔رواداری کی روشنی پھیلے گی تو نفرت اور عدم برداشت کے اندھیرے دور
ہونگے۔
ایک بار ہیلین کیلر نے کہا تھا۔
”تعلیم کا اعلیٰ ترین نتیجہ ہمیشہ رواداری کی صورت میں سامنے آتا ہے“۔
مزمت اور تضحیک کرنے میں جلدی نہ کریں، غلطی تسلیم کرنے میں دیر نہ کریں۔
رواداری کا پہلو ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ تعصب ذہن میں آنے نہ دیں۔ کسی کی
ثقافت، تہذیب، کلچر، سوچ اور مذہب کو محض مفروضوں پرسمجھنے کی کوشش نہ
کریں۔ کیونکہ اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کے تسلسل کیلئے برداشت کا جذبہ
ضروری ہے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے میچز کو صرف کھیل کی حد تک دیکھنا چاہیے۔ ہم یہ کیوں
بھول جاتے ہیں کہ جب دو ٹیمیں کھیل کیلئے میدان میں اترتی ہیں تو کسی ایک
کو جیتنا ہوتا ہے اور دوسری ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انڈین کرکٹ
ٹیم اور انڈین کرکٹ بورڈ کو اگر اُن کے تکبر کی سزا ملی ہے تو شائد اُن
کیلئے یہ سزا ہی کافی ہے۔ ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ خدا بہترین
انصاف کرنے والا ہے۔
|