ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں ، ہر روز نسیمِ صبح وطن
یادوں سے معطر آتی ہے، اشکوں سے منور جاتی ہے ۔
پردیس ایک ایسا لفظ جس کا مفہوم ایک پردیسی اور وہ شخص سمجھ سکتا جسا کوئی
قریبی پردیس میں ہو کیونکہ ہمارے نزدیک تو وہ بہت خوش قسمت ہے لیکن جب کسی
پردیسی سے اس متعلق پوچھا جائے تو اس کا جواب یہی ہو گا کہ "گھر سے نکل
جانا کیسی خوش قسمتی ہے ۔۔۔۔" وہ بیٹا جو اپنی ماں سے کہتا تھا کہ میرے
کپڑے استری کر دیں، وہ بہن کا مان بھائی جو خود اٹھ کر پانی تک نہ پیتا تھا
اور وہ باپ کا لاڈلا جو اپنی ہر بات منوا لیتا تھا آج پردیس میں بیمار بھی
ہو تو کوئی اس کا حال دریافت کرنے والا نہیں ہے، نہ اس کے پاس وہ ماں ہے جو
اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر سہلا سکے، نہ ہی وہ بہن ہے جو اسکی تیمارداری
کی خاطر اس کے آگے پیچھے پھرے اور نہ ہی وہ باپ ہے جو اسے ہسپتال لے جا
سکے۔ ایک ناسمجھ لڑکا پردیس میں جا کر سمجھدار ہو ہی جاتا ہے وہ ہر ایک بات
کے لیے اپنے والدین کو پریشان کرنا چھوڑ دیتا ہے ۔۔۔۔اپنے خوابوں کو اپنی
آنکھوں سے روندتے ہوئے دیکھنا بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے، لیکن ایک پردیسی
اس پر بھی راضی ہو ہی جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک بات بہت عام ہے کہ اگر
کوئی عزیز و اقارب میں سے بیرونِ ملک جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں "وہ تو عیش کی
زندگی گزار رہا ہے ، وہ تو بہت مزے میں ہے "لیکن یقین جانئے اگر ہمیں اسکے
حالات، تنہائی کا علم ہو جائے تو ہم ایسی باتیں زبان پر لانے کی بجائے اس
متعلق سوچنا ہی چھوڑ دیں۔ وہ بیرونِ ملک رہنے والا اپنے گھر والوں کی ہر
خواہش پوری کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ عیدین کے دن قریب پہنچنے سے پہلے
ہی وہ غریب الوطن اپنے اہلِ خانہ کو کپڑے، جوتے حتیٰ کہ تمام ضروریاتِ
زندگی خریدنے کے لیے پیسے بھیجتا ہے اور خود۔۔۔ وہ پرانے کپڑوں میں ہی عید
گزارتا ہے۔
بیرونِ ملک میں مقیم ایک پردیسی کے لیے سب سے اذیت ناک لمحہ وہ ہوتا ہے جب
اسے اپنے والدین یا کسی قریبی کی وفات کی خبر ملتی ہے اور اس کی اس اذیت
میں مزید اضافہ تب ہوتا ہے جب وہ اس فوت شدہ شخص کو آخری مرتبہ دیکھنے سے
قاصر ہو، اسکے جنازے کو کاندھا نہ دے سکے۔ کوئی بھی شخص بیرونِ ملک خوشی سے
نہیں جاتا کچھ مجبوریاں اور کچھ ذمہ داریاں انھیں اپنا گھر، رشتہ دار،
والدین شہر اور وطن چھوڑنے پر مجبور کرتی ہیں۔ آسمان کو اوڑھنا اور زمین کو
بچھونا بنانے والا رب میرے ملک کے ہر بندے کو اپنے خفظ و امان میں رکھے اور
اس وطنِ عزیز کو اس قابل بنائے کہ کوئی بھی ماں کا لاڈلا کمانے کی غرض سے
بیرونِ ملک نہ جائے۔ آمین
خوب گئے پردیس کہ اپنے دیوار و در بھول گئے
شیش محل نے ایسا گھیرا مٹی کے گھر بھول گئے
|