پاکستان کی جیلیں کرپشن کی آماجگاہیں

آئیں آج آپکو اپنی آپ بیتی سناتے ہیں۔ یہ 1983 کی وہ منحوس شام تھی جب مجھے ایک مرتبہ قتل کے جھوٹے مقدمے میں اور دوسری مرتبہ 2017 میں مجھے اینٹی کرپشن کے ایک ڈائیریکٹر کیخلاف قلم اٹھانے اور سچی رواد لکھنے پر میرے خلاف پولیس کو سفارش کر کے مجھ پر ایف آئی آ ر درج کروا کر گرفتار کروا دیا گیا۔ حالانکہ یہ ایف آئی آر بالکل جھوٹی تھی۔ تھانے پر میری ابتدائی تفتیش اور عدالتی کارروائی کے بعد مجھے ڈسٹرکٹ جیل منتقل کر دیا گیا۔ مقدمے کی کارروائی ایک علیحدہ ٹاپک ہے مخترصاًٍ یہ کہ میں نے اس عرصے میں جیل میں کیا دیکھا اور پایا آئیں آپکو بھی بتاتے ہیں۔

میرا وہ پہلا روز جب مجھے جیل منتقل کیا جا رہا تھا شاید ھی میں اسے اپنی زندگی میں بھول پاوں۔ جیل کے گیٹ میں داخل ہوتے کیساتھ ہی ایک لمبے تڑنگے جیل کے وارڈن نے ہیمیں نیچے زمین پر بیٹھ جانے کا حکم دیا۔ اسنے زور سے پکار کر میرا نام لیا کہ فلاں فلانے دا کون ہے۔وہ ہاتھ کھڑا کر لے۔ میں نے ہاتھ کھڑا کیا تو مجھے تحمکانہ انداز میں کہا گیا کہ تم اس لایئن سے باہر آ جاو۔ میں جیسے ہی لائن سے باہر آیا انہوں نے میرا نام پوچھا کاغزی کا رروائی مکمل کرکے حکم دیا گیا کہ اسے سپرنٹنڈنٹ کے افس لے جائیں۔ ایک جیل وارڈن اور ایک قیدی جو سفید رنگ کی شلوار قمیص اور لال رنگ کی کیپ میں ملبوس تھا انہوں نے مجھے دونوں بازووں سے پکڑا اور جیل سپر نٹنڈنٹ کے کمرے کی طرف چل پڑے جب ہم سپرنٹڈنت کے کمرے کیطرف جا رہے تھے تو مجھے چٹاخ کی اواز آئی میں نے پیچھے مڑ کر دکھا تو ایک شخص جو ہمارے ساتھ ہی آیا تھا ایک وارڈن نے اسے مرغا بنایا ہوا ہے اور اسے مارا جا رہا ہے۔ میں یہ دیکھ کر خوفذدہ ہو گیا۔ اگر میں یہ کہوں کہ جیل سپرنٹنڈنٹ جیل کا خدا اور وارڈن اسکے فرشتے ہوتے ہیں تو کسی طور بھی کم نہ ہوگا۔ جیل میں یہ لوگ سیاہ کریں یا سفید انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہ لعگ جیل کے خدا ہوتے ہیں۔

نئے آنے والے قیدیوں کو رشوت نہ دینے پر ان کے بال کاٹے دئے جاتے ہیں لیکن اگر آپ اپنے بال ترشوانا نہیں چاہتے تو کوئی بات نہیں،جیل حکام کو 1500 روپے رشوت دے کر اپنے بال اپنی مرضی سیرکھ سکتے ہیں۔ورنہ ایک نائی لائن میں بیتھے قیدیوں کے بال اسطرح کاٹ رہا ہوتا ہے جیسے گدھوں کی حجامت کی جاتی ہے۔

تھوڑا فاصلے طے کر کے ہم سپرنٹنڈنٹ کے دفترپہنچ گئے۔ انہوں نے مجھے اپنے سامنے والی کرسی پر بیٹھ جانے کو کہا میں انکے کہنے پر کرسی پر بیٹھ گیا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آہکے بارے میں مجھے سب کچھ بتا دیا گیا ہے آپ فکر مت کریں اپکو جیل کے ہسپتال میں جگہ دی جا رہی ہے کوئی تکلیف ہو اس سے مجھے آگاہ کر دینا۔ اتنا کہہ کر انہوں نے وارڈن کو حکم دیا کہ مجھے ہسپتال پہنچا دیا جائے۔ہسپتال میں 6 لوگ تھے وہ مختلف کرپشن کے جرائم میں آئے ہوئے تھے اور سب انتہائی پڑھے لکھے اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز تھے۔ انہوں نے مجھیہسپتال میں کوئی تکلیف نہ ہونے دی۔ پھر یہ شب و روز کیسے جیل میں گزرا وہ ایک الگ کہانی ہے،۔ جیل میں میں نے کیا دیکھا اسکا انکھوں دیکھا حال سپرد قلم کر رہا ہوں۔ یہ دور جس میں ہم جی رہے ہیں سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں کوئی بھی خبر چشم زدن میں آگ کیطرح پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ ہم انتہائی ترقی یافتہ دور میں رہتے ہوئے بھی انتہائی پسماندگی میں رہ رہے ہیں اور ہمارے وہ ادارے جو جرائم کی بیخ کنی کیلئے بنائے گئے ہیں وہی ادارے جرائم کو فروغ دینے اور انکی ابیاری کیلئے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کہاں کیا ہو رہا ھے مگر کبوتر کیطرح آنکھین بند کئے ہوئے سب خاموش ہیں اور اس خامشی کو 75 سال ہو چکے ہیں کوئی توڑنے پر راضی نہیں ہے۔

کہتے ہیں جیل میں رہ کے یا تو انسان سدھر جاتا ہے یا وہ وقت کا دادا بدمعاش بن کر نکلتا ہے۔

جیل شریفوں کا نہیں بلکہ مستقل طور پر یہ جرائم پیشہ افراد کا ٹھکانہ ہے۔ مگر شومئی قسمت کہ ہمارے اداروں کی بے حسی کیوجہ سے یہ ادارے کرپشن کا گڑھ اور عضو معطل ہو کر رہ گئے ہیں۔ اور بجائے اصلاح کے جرائم پیشہ افراد بنانے کا کام کر رہے ہیں۔اور جرائم کم ہونے کی بجائے برابر بڑھ رہے ہیں۔جہاں پولیس کے محکمے میں اصلاحات کی ضرورت ہے وہیں جیل کے محکمے میں بھی انقلابی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت کی موجودہ صورت حال میں جبکہ کہ جیلوں کا ظالمانہ،،آمرانہ، غیر انسانی اور غیر مہذب نطام جو بے یار و مدد گار قیدیوں کیساتھ روا رکھا جاتا ہے ہماری پاکستان کی جیلوں کا ہے شائد ہی کسی مہذب معاشرے میں اسکی مثال ملتی ہو۔ کرپشن زدہ بدبو دارنظام، جس میں انسان کی انسانیت کو ختم کر دیا جائے اور اسے جانور بننیپر مجبور کر دیا جائے ایسے نظام کے بارے میں سن کر بھی ان اداروں کے انگ انگ سے بدبو اور تعفن کے بھبھوکے آتے ہیں۔ آئیں دیکھتے ہیں پاکستانی جیلون میں کیا ہورہا ہے یہ سب کا سب میرا ذاتی مشاہدہ ہے جو قارئیں کی خدمت میں پیش کرنے جا رہاہوں۔

گرمیوں کا موسم ہے کڑاکے کی دھوپ میں 8 اشخاص جیل کی دیوار کے نیچے کھڑے ہاتھوں میں پنکھے لئے ہوئے دیوار کو پنکھا جھل رہے ہیں، میں حیرا ن ھو گیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ انکی رشوت نہیں آئی اور سزا کے طور پر انسے دھوپ میں یہ کام لیا جا رہا ہے۔ جیل میں صفائی کا عملہ ہونے کے باوجود حوالاتیوں اور قیدیوں سے گٹر صاف کرائے جاتے ہیں اور گٹر کے گندے بدبو دار اور تعفن زدہ پانی کے بھرے ڈول اٹھوا کر انکو نہ صرف زہنی تکلیف میں مبتلا کیا جاتا ہے بلکہ انہیں مادر زاد گالیاں دیکر انکے پچھواڑے پر لاتیں مار کر انکی انا کو بھی ٹھیئس پہنچائی جاتی ہے۔ جیل کے مختلف کام اور حصے باقائدہ طور پر غیر قانونی طور پر جیل ملازمین کو ٹھیکے پر دئیجاتے ہیں اور ہر قیدی اور حوالاتی سے بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ جو بھتہ نہ دے اس پر جیل کے یہ آمرانہ رویہ رکھنے والے وارڈن اور بدمعاش اسے مار مار کر اور جھاڑو پوچا لگوا کر ادھ موا کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے مجرم بھی جیل میں آتے ہیں جو کسی بڑے آدمی سے جرم کے ارتکاب میں ملوث ہوں تو ایک فون کال پر اسے مار مار کر اسکی ہڈیاں توڑ دی جاتی ہیں۔ بازو اور ٹانگیں توڑ کر انہیں بے یار و مدد گار چھوڑدیا جاتا ہے۔
کسی بڑے افسر کے ملاحظہ میں نئے حوالاتیوں اور قیدیوں پر تھپڑوں گھونسوں کی بارش کے کھٹن مرحلہ گردن نیچے کرکے بیٹھنا اور اوپر کرنے پر یا کسی بھی شکائت کرنے کی جرات نہیں ہوتی اگر کوئی سوال کر بھی دے تو اسے نشان عبرت بنا کر دوسروں کو اسطرح نہ کرنے کا سبق دیا جاتا ہے۔ پہلے دن جب کسی قیدی کا ملاحظۃ کیا جاتا ہے اس میں مار سیکیلئے۔بچنے کے لئے 2500 دے کر جان بچائی جا سکتی ہے،

ملاقات شیڈ میں ملاقات کا وقت 35 منٹ متعین ہوتا ہے اور اگر قیدی کو ملاقات کا زیادہ وقت درکار ہو تو 300روپے فی گھنٹہ کے حساب سے وصول کئے جاتے ہیں اور زیادہ تر متعین کئے گئے ملاقات کے وقت کو 20 منٹ تک محدود کر دیا جاتا ہے جبکہ اس مد میں شیڈ کا ٹھیکہ 150000 ماہانہ پر دیا جاتا ہے۔ اگر کسی قیدی کو عدالت کیطرف سے قید با مشقت سزا ہوئی ہو تو قیدی سے مشقت والی سزا سے بچنے کے لئے 5500 روپے ماہانہ وصولی کی جاتی ہے،اس وقت جیل میں قید با مشقت والے قیدیوں کی تعداد 3600 کے لگ بھگ تھی جس میں سے صرف 80 قیدی مشقت کی اذیت میں باقی افراد کی مشقت کا بوجھ بھی برداشت کررہے تھے اور بہت کم قیدی تعلقات کی بنا پرکرپشن دینے سے محفوظ ہیں اور اس مد میں تقریباً 750000 - 850000/-لاکھ روپے ماہانہ وصول ہو جاتے ہیں۔اگر کسی قیدی کو اپنی مشقت کچن اسیران سے چکر میں کروانی ہو تو اس سے 15000 روپے وصول کئے جاتے ہیں سنٹرل ٹاور جسے عرفِ عام میں ''چکر'' کہتے ہیں جس کا ٹھیکہ 3 لاکھ ماہانہ ہوتا ہے اس جگہ قیدیوں اور حوالاتیوں سے تشدد کر کے پیسے لئے جاتے ہیں۔ (اب وقت کیسات یہ رقم بڑھ چکی ہے)اس چکر میں دوسرے قیدیوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے صبح کے وقت سے نئے اور پرانے قیدیوں پر تشدد شروع کر دیا جاتا ہے۔ جیل میں مختلف بڑے بڑے ڈاکووں اور جرائم پیشہ لوگوں کیگروہ بنے ہوئے ہیں جو قیدیوں پر تشدد کرکے جیل حکام کے ایماء ہر ان سے رشوت وصول کر کے جیل حکام کو پہنچایہیں اور ہر ماہ اپنے حصے میں آنے والی رقم اپنے گھر بھی پہنچاتے ہیں یعنی یہ ان بدمعاشوں کا کاروبار ہے جو وہ جیلمیں کرتے ہیں۔۔

بارک میں سگریٹ پینا منع ہے مگر جو حوالاتی بارک انچارج کو رقم دے دیتاہیوہ سگریٹ کے علاوہ تمام قسم کی منشیات کا استعمال کر سکتا ہے یہ منشیات جیل میں جیل کے ملازمین ہی فراہم کرتے ہیں چرس، افیون ھیروین، شراب سب کچھ میسر ہو جاتا ہے بس پیسے کی گیم ہے سب جبکہ اس بارک کے ٹھیکہ کے لئے متعین ملازم کو 60000روپے بارک انچارج کو ادا کرنے ہوتے ہیں اور عدم وصولی پر مقررہ رقم کی حامی بھرنے والے نئے ملازم کا تقرر کر دیا جاتا ہے۔گورنمنٹ آف پنجاب کی طرف سے ہفتہ میں چار دن حوالاتیوں اور قیدیوں کو چکن فراہم کیا جاتا ہے مگر چکن کے نام پر انتہائی شرمندہ کرنے والا سالن ایسا جیسے نالی کا پانی گھی ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے، اسی طرح دال اور بڑے کا گوشت انتہائی گھٹیا درجے کا ہوتاہے جسے شائد جانور بھی کھانا پسند نہ کرتے ہوں۔ گوشت کی بوتی جیسے ربڑ کی بنی ہو۔ مختص بارکوں کا ٹھیکہ 10000 ہزار ماہانہ ہے اور بارک انچارج ماہانہ موجودہ رقم ادا کر کے ہی اپنی ڈیوٹی متعلقہ بارک میں جاری رکھ سکتا ہے جبکہ بارک انچارج 40 سے 45000 ماہانہ کما لیتا ہے۔
قیدی بارک کا ماہانہ ٹھیکہ 30000 ہزار ہے جبکہ خاص بارک کا 70000, اور ایے ہی ایک اور پارک جسے قصوری بارک کا نام دیا گیا ہے کا 25000, بارک یو سی سی پی(UCCP) کا 25000 ماہانہ متعین کیا گیا ہے جو رشوت کے طور پر قیدیوں سے وصول کیا جاتا ہے۔

جیل کی بااثر وارڈن کے پاس بیک وقت 3 عدد ٹھیکے (ملاقات شیڈ،کچن چکر، ھوتیہیں ان جگہوں کے ٹھیکہ جات جو غیر قانونی ہوتے ہیں یہاں سے لاکھوں روپے رشوت وصول کیجاتی ہے۔،اسی طرع اُڑدی جو کہ کارِ خاص اور منشی کے طور پر پہچان رکھنے والے وراڈن کی زیر نظر ہوتے ہیں انہیں دیا جاتا ہے۔ جیل کے اسکول میں اور جیل لا ئیبریری میں ہڑھنے والے قیدیوں سے ماہانہ 5000-8000 روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ یہ اسکول سوشل ویلفئر کی مدد سے چلاےء جاتے ہیں مگر اسکے باوجود یہاں رشوت دینے والے قیدیوں اور ملازمین کے وارے نیارے ہیں اسی طرح جیل کے ہسپتال میں بیمار جو فرضی طورپر داخل کئے گئے حوالاتی اور قیدی ماھانہ 12000-15000 روپے لیکر داخل کئے جاتے ہیں۔

کسی حوالاتی کو اس کی فرمائش پر من پسند بارک میں بھیجے کے لئے 5500 سے 10000 روپے وصول کئے جاتے ہیں۔اگر کوئی حوالاتی جیل میں پیسے دینے سے انکار کر دے تو اس کی اُرڈی لگا دی جاتی ہے تو اس حوالاتی کو ہر روز کے 300 روپے دینے ہوتے ہیں۔ایک ہی بارک میں رہنے اور اڑدیی رکوانے کا ٹھیکہ 3-2 لاکھ فی ماہ ہوتا ہے۔ڈپٹی سپریٹنڈنٹ کو ہفتہ وار جیل کا دورہ کرنے کا گورنمنٹ فنڈ درکار ہے جبکہ ہر بارک کا انچارج، قیدیوں اور حوالاتیوں سے ہر ماہ چونا پینٹ اور صفائی کا سامان لانے کی مد میں 2000 ہزار روپے وصول کرتا ہے۔ ہر بارک کا انچارج اپنی بارک کے حوالاتی سے 500-1000 فی کس ہر ماہ وصولی کرتا ہے اور انکار پر حوالاتی کو کسی نہ کسی بہانے سزاکے طور پر جیل کیقانون کے مطابق’’سولہ بی‘‘ جسکو عرف عام میں’قصوری‘ کہتے ہیں بند کر دیا جاتا ہےْ کسی حوالاتی یا قیدی کے ملاقات پر لائے گئے کھانے کا بہت سا حصہ جیل کے ملازمیں کھا جاتے ہیں اسی طرح نہانے اور کپڑے دھونے کا صابن، سرف، مٹھائی، پھل، کپڑے کمبل اور بسترے بھی ملازمیں غائب کر لیتے ہیں۔

حقوق اسیران کے قوائد کے مطابق دفاعی حکمت عملی کو اپناتے ہوے کوئی حوالاتی یا قیدی جیل افسرِ کی طرف سے بنائی گئی پالیسی کے خلاف یا اسکے ظلم اور رشوت کیخلاف عدالت میں درخواست دے تو جیل سے منسلک ملکی و صوبائی سطع پر متعین اعلی افسران کی طرف سے بجائے جیل حکام کیخلاف انکوائری کرنے یا قانونی حکمت عملی اختیار کی جائے قائم مقام متعلقہ جیل کے اعلی افسر الٹا قیدی کو درخواست واپس لینے کے لئے اسپر دباؤ ڈالتے ہیں اس پر تشدد کرتے ہیں یا پھر کسی قیدی سے لڑائی کا مقدمہ بنا کر اسے چکی میں بند کر دیاجاتا ہے اسطرح درخواست دینے والا مجبوراً یہ درخواست وا پس لے لیتا ہے۔
اسی طر ح رشوت کیخلاف منہ کھولنے والے قیدیوں کو ذہنی مریض یا انتشار انگیز زہنیت اور خطرناک قرار دے کر انکا تبادلہ دوسری دور دراز جیلوں میں کر دیا جاتا ہے جہاں پر ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ رشوت کی رقم وصولی کرنے والے ملازمین بتاتے تھے کہ ماہانہ اکٹھا ہونے والی رقوم کو اعلی سطع کے افسران تک انکا حصہ پہنچایا جاتا ہے اس کے علاوہ کچھ ملازمین کے مطابق سیاسی عناصر بھی انکی پشت پناہی کرتے ہیں۔

پاکستان میں جہاں قیدیوں کیساتھ آمرانہ رویہ رکھا جاتا ہے وہیں جیلوں کی خستہ حال حالت زار اور اسمیں قائم بارکون کا ذکر نہ کیا جائے تو کہانی ادھوری رہ جاتی ہے۔ ایک بارک میں 300 سے ساڑھے تین سو قیدیوں کو جاوروں کی طرح رکھا جا ہے۔ انتہائی خستہ حال کمبل بچھانے اور اوڑھنے کیلئے دئے جاتے ہیں جن میں جوئیں اور گرد بھری ہوتی ہے جس کے اوڑھنے سے قیدی بیچارے جووں کیوجہ سے خارش اور دوسرے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جیل ہسپتال کا ڈاکٹر اگر کسی بیمار قیدی کو باہر کے ہسپتال میں ریفر کرتا ہے تو اسے ریفر کرنے کیلئے 5 سے دس ہزار روپے رشوت لی جاتی ہے، پاکستان کی جیلوں مین خارش، اسہال، ملیریا، ہیپاٹائٹس، ٹی بی، یرقان، دمہ، ایڈز اور اسی طرح کورونا کے امراض میں مبتلا قیدی بھی ہیں جو بے توجہی کا شکار ہو کر مر رہے ہیں مگر کوئی نہیں جو انکے بارے میں سوچے۔
پاکستان میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی جانب سے جمع کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 155675 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.