روایتی کاغذی کرنسی کے دور کو الوداع

چین میں قیام پزیر افراد یہ مانتے ہیں کہ یہاں اب آپ کو کاغذی کرنسی جیب میں رکھنے کی ہر گز کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی بینک کارڈ کو بٹوے میں لیے گھومنے کی کوئی خاص ضرورت ہے۔وجہ یہی ہے کہ یہاں خریداری "کیش لیس" ہو چکی ہے اور مختلف موبائل ایپس کی مدد سے آپ ایک چھوٹی سی سوئی سے لے کر بڑی بڑی مشینیں تک آن لائن خرید سکتے ہیں۔اس رجحان کی بدولت لوگوں کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور اُن کے روزگار سمیت سماجی سرگرمیوں میں بھی نمایاں سہولیات پیدا ہوئی ہیں۔اسی سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے چین میں حالیہ جشن بہار کے دوران بھی ڈیجیٹل کرنسی یا ڈیجیٹل یوان کے استعمال کو نمایاں مقبولیت ملی ہے۔ مقامی حکومتوں نے ڈیجیٹل کیش کی کھپت کی حوصلہ افزائی کے لئے کوپن جیسی مراعات بھی پیش کی ہیں۔ڈیجیٹل یوآن بالکل آر ایم بی کی طرح چینی کرنسی کا ایک جزو ہے ۔چین کے مختلف شہروں بشمول شین زن ، ہانگ جو ، تھیان جن ،اور جی نان نے ڈیجیٹل یوآن کا استعمال کرتے ہوئے لاکھوں یوان مالیت کے کوپن جاری کیے۔ان شہروں میں ڈیجیٹل یوان سے متعلقہ سرگرمیوں کی مالیت 180 ملین یوآن سے متجاوز رہی، جس سے جشن بہار کے دوران کھپت میں نمایاں اضافہ ہوا.اسی طرح مختلف ثقافتی سرگرمیوں کے لیے بھی ڈیجیٹل یوان کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔یہ الیکٹرانک ادائیگی کا ایک محفوظ طریقہ بھی ہے جو اس وقت چین میں ہر قسم کی پیمنٹ کے لئے ایک اہم انتخاب بنتا جارہا ہے۔ پیپلز بینک آف چائنا کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2022 کے اختتام تک گردشی ڈیجیٹل یوآن کی مالیت 13.61 بلین یوآن تک پہنچ گئی ، کیونکہ اس نے ڈیجیٹل یوآن سسٹم اور روایتی ای پیمنٹ ٹولز کے مابین باہمی رابطے کو آسان بنانے کی کوششوں پر زور دیا ہے تاکہ صارفین کے لئے ڈیجیٹل کرنسی کا استعمال زیادہ آسان بنایا جاسکے۔اسی طرح جنوری کے اواخر تک کھپت کے حوالے سے 90 سے زائد معروف انٹرنیٹ پلیٹ فارمز نے بھی ڈیجیٹل کرنسی کو اپنانے کے لئے اپنے دروازے کھولے ہیں ، ان میں جے ڈی ڈاٹ کام ، تاؤباؤ ، اور میتوان قابل زکر ہیں۔
حقائق کے تناظر میں ڈیجیٹل معیشت ایک ناگزیر رجحان بن چکا ہے اور دنیا بھر کے ممالک معاشی ترقی کے لیے ڈیجیٹلائزیشن میں سبقت کے لیے کوشاں ہیں۔ تکنیکی جدت اور ڈیجیٹل معیشت سے جنم لینے والی نئی تیز رفتار پیداواری صلاحیت مختلف ممالک میں صنعتوں کو ازسرنو ترتیب دے رہی ہے اور "ڈیجیٹل معاشی وسائل" سے ہم آہنگ ممالک کو معاشی پہلووں کے اعتبار سے کمزور ممالک پر واضح برتری حاصل ہو رہی ہے۔

چین نے مستقبل کی منصوبہ بندی اور موجودہ تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بھی زبردست تیز ی لائی ہے۔ ملک میں دنیا کی سب سے بڑی اور تکنیکی طور پر جدید ترین نیٹ ورک کی سہولیات تعمیر کر لی گئی ہیں، جس میں پریفیکچر کی سطح کے شہروں تک فائبر آپٹک نیٹ ورکس کا احاطہ کیا گیا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ چین نے توانائی، طبی دیکھ بھال، نقل و حمل، تعلیم اور زراعت جیسے شعبوں کے ساتھ بگ ڈیٹا، کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور مصنوعی ذہانت کے انضمام کو بھی تیز کیا ہے۔یہ بات بھی غیر معمولی ہے کہ ملک میں بڑے الیکٹرانک انفارمیشن مینوفیکچررز کی ویلیو ایڈڈ پیداوار میں اضافہ بھی ایک دہائی کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے جبکہ سافٹ ویئر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی خدمات کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور متعلقہ خدمات کی آمدنی میں بھی "ڈبل ڈیجٹ" کی نمو درج کی گئی ہے۔

علاوہ ازیں ،چین انٹرنیٹ گورننس کے عالمی اتفاق رائے کی روشنی میں اپنے تمام شہریوں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ اور سائبر کلچر کو سماجی ترقی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بھی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ایک بڑے ذمہ دار ملک کے طور پر چین سائبر سپیس میں نظم و ضبط برقرار رکھنے اور عالمی نیٹ ورک کو مزید کھلا اور جامع بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔چین کی اہمیت اس لحاظ سے بھی نمایاں ہے کہ یہاں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 01ارب سے زائد ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین انٹرنیٹ کی ترقی سےای کامرس ، موبائل ادائیگی ، فائیو جی ایپلی کیشنز ، مصنوعی ذہانت کی صنعت اور بلاکچین کابھی عالمی رہنما ہے۔چین دنیا کی صف اول کی فورچون 500 کمپنیوں کی فہرست میں شامل بڑی انٹرنیٹ کمپنیوں کا مرکز بھی ہے ، لہذا چین کی کوشش ہے کہ موثر اور محفوظ نیٹ ورکس کے ساتھ ساتھ عالمی انٹرنیٹ تہذیب کی تعمیر کی جائے اور چین کے کامیاب تجربات کا دیگر ممالک کے ساتھ تبادلہ کیا جائے تاکہ دنیا بھر میں شہریوں کی انٹرنیٹ تک باآسانی رسائی ممکن ہو سکے اور وہ بھی" کیش لیس" سہولیات اور ڈیجیٹل معیشت سے استفادہ کر سکیں۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1139 Articles with 431134 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More