جمعہ نامہ: حُکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آزری

ارشادِ ربانی ہے:’’اللہ عدل اور احسان اور صلہء رحمی کا حکم دیتا ہےاور بدی اور بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو‘‘۔قرآن کریم کی اس جامع ترین آیت کو سن کربنی مخزوم کے سردار ولید بن مغیرہ نے کہا تھا کہ : ” خدا کی قسم اس میں ایک خاص حلاوت ہے اور اس کے اوپر ایک خاص رونق اور نور ہے۔ اس کی جڑ سے شاخیں اور پتے نکلنے والے ہیں اور شاخوں پر پھل لگنے والا ہے۔ یہ کسی انسان کا کلام ہرگز نہیں ہوسکتا۔ “حقیقت یہی ہے کہ اس آیت کے ایجابی اور تحریمی احکامات میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کی فلاح ونجات کا مکمل پیغام ہے۔ عدل تو یہ ہے کہ حق واجب بےکم وکاست ادا کردیا جائے لیکن احسان کریمانہ اور فیاضانہ رویہ کاتقاضہ کرتا ہے۔ ایک ایسے طالب علم کی مارک شیٹ کو جو پیڑ کے نیچے تعلیم حاصل کرکے آیا ہواگر اے سی میں پڑھ کر آنے والے کے برابر کردیا جائے تو کیا انصاف ہوگا؟ عدل کا تقاضہ ہے کہ اول الذکر کے ساتھ احسان کا معاملہ کرکے اسے رعایت دی جائے۔ حسن سلوک کے معاملے میں مسلمان ، کافر ،انسان یا حیوان کی تفریق جائز نہیں۔ امام قرطبی کے مطابق کوئی شخص اگر گھر کی بلی کو خوراک نہ دےیا پنجرے میں بند پرندوں کی خبر گیری نہ کرےتو وہ کتنی ہی عبادت کرلے محسنین میں شمار نہیں ہوگا۔

معاشرے کے خوشحال لوگ اگر اپنے رشتے داروں تک کا خیال نہ رکھیں تو دوسروں کے ساتھ انفاق کا معاملہ کیسے کریں گے اور امیر و غریب کے درمیان کی کھائی کیسے ختم ہوگی ؟ یوم جمہوریہ کے موقع پر بڑے شدو مد کے ساتھ آئین ہند کی تمہید جھوم جھوم کر پڑھنے والے بھول جاتے ہیں کہ اس میں درج ’’ سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف‘‘ کا خواب اس آیت پر عملدرآمد کے بغیر شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ایک صحتمند معاشرے کی تعمیر کے لیےاسے بےحیائی اور بدکاری سے پاک کر کے اس میں نیکی و بھلائی کا فروغ لازمی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی سماج میں ظلم و زیادتی کا بول بالہ ہو ۔ حکمراں اور سرمایہ دار اپنی قوت و طاقت کے زور و اثر سے ناجائز کمزوروں کو دبانے لگیں ۔ اپنے حدود سے تجاوز کرکے دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرنے لگیں توآئین میں درج ’ خیال، اظہار، عقیدہ، دین اور عبادت کی آزادی‘ کا تعین کیوں کر ممکن ہوسکے گا؟ اوربہ اعتبار حیثیت اور موقع مساوات کیسے قائم ہوگی ؟ ان دونوں کی عدم موجودگی ازخود تمہید کی چوتھی شق یعنی اخوت کا نہ فروغ ہوسکے گا اورنہ فرد کی عظمت، قوم کے اتحاد اور سالمیت کو برقرار رکھا جاسکے گا۔ ان اہداف کے حصول کی خاطر مذکورہ آیت کے مطابق ظلم و زیادتی کی روک تھام ناگزیر ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا ظلم کے سوا کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا بدلہ اور عذاب جلد دیا جاتا ہو یعنی اخروی عذاب سے پہلے دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ ظالم کو سزا دیدیتے ہیں کیونکہ رب کائنات نے مظلوم کی مدد کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔انسانی تاریخ شاہد ہے کہ کسی معاشرے میں اگر فحاشی ، منکرات اور ظلم وستم کا بازار گرم ہوجائے تو اس کے خلاف لوگ اپنے ضمیر کی آواز پر احتجاج کرنےلگتے ہیں۔ انسانی سوسائٹی نے ہمیشہ ایسے نظاموں کو اکھاڑ کر پھینک دیا ہے ۔ اللہ کی طرف سے عدل و احسان کا حکم دینا اور فحاشی ، منکرات اور ظلم سے منع کرنا فطرت سلیمہ کے عین مطابق ہے۔ اسلام اس فطری رد عمل کو اسلامی جدوجہد قرار دے کر اسے قوت عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کا اختتام” وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو “ پر کیا گیا۔

عدل و انصاف کا قیام فطرت انسانی کا تقاضہ ہے ۔ ہر کوئی اس کی کوشش کرتا ہےبیشتر لوگ نا کام کیوں ہوجاتے ہیں ؟ اس سوال جواب قرآن حکیم میں یہ ہے کہ :’’تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ یعنی عدل و صدق کے حوالے سےجو احکامات رب کائنات نے نازل فرمائے ہیں ان میں ہذف و اضافہ کا اختیار کسی فردِ بشرکو نہیں ہے اور اگر کوئی کھلے عام یا پس پردہ سرکشی کرتا ہے تو اسے خبردار کردیا گیا کہ ’’ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے‘‘۔ اس کے بعد والی آیت تو گویا عصرِ حاضر کے لیے ہی ہے ۔ فرمانِ خداوندی ہے’’ اور اے محمدؐ! اگر آپ اُن لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ آپ کو اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں ‘‘۔ اس دور کا فتنہ ٔ عظیم یہ ہے کہ الہامی ہدایات کو پسِ پشت ڈال کر اکثریت کی رائے کو معیار حق قرار دے دیا گیا۔ اس کی آڑ میں شاطر لوگوں نے اپنی من مانی لوگوں پر تھوپنی شروع کردی اور دنیا ظلم و فساد سے بھر گئی نیز عدل و قسط کا جنازہ اٹھ گیا۔ علامہ کایہ شعر جو دعوت فکر دیتا ہے اس پر عمل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے؎
سروَری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حُکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آزری
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448780 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.