ہمارے معاشرے میں کیوں رواج پا
رہا ہے؟
اللہ تبارک و تعالٰی نے دو بہت عجیب و غریب مخلوقات انسان کی وجہ سے یا
انسان کے لیے پیدا فرمائی ہیں-جس میں سے ایک شیطان ہے-دوسری مخلوق کا ذکر
ہم ذرا بعد میں کرینگے-شیطان اس دنیا میں انسان کے اعمال و افکار پر بری
طرح اثر انداز ہے-تقریباً ہر مذہب اور عقیدے میں اسکا ذکر کسی نہ کسی شکل
میں ایک منفی قوّت کے طور پہ ملتا ہے-جو انسان پر ہر ممکن طریقے سے قابو
پانے اور بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے-جس کے نتیجے میں انسانی معاشرے میں طرح
طرح کے ، متنوع اور گو نا گوں مسائل پیدا ہوتے ہیں- دو انسانوں کے درمیان
غلط فہمی سے لے کر بڑی بڑی خوفناک جنگوں تک اور بے جا ذاتی فائدے کے حصول
کے لیے دوسرے کے حقوق کو پامال کرنے سے لے کر ہوس ملک گیری تک شیطانی قوت
ہی کارفرما نظر آتی ہے-انسانوں کے اخلاق و افکار کو بگاڑ کر اسے برباد کرنا
اس کے نصب العین کا ایک اہم حصہ ہے-
شیطان کے ایجنڈے کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سی ایسے معاملات اور اثرات کو بھی
شیطان کی کارستانی قرار دے دیا جاتا ہے جس میں شیطان کا کوئی ہاتھ نہیں
ہوتا بلکہ وہ انسان ہی کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتا ہے- لیکن اپنی
کمزوریوں اور اپنے معاشرے کی غلط روائتوں سے صرف نظر کر کے شیطان کو یا کسی
دوسری تہذیب یا انسانی گروہ کو با آسانی مورد الزام قرار دے دیا جاتا ہے-
اس کی ایک دلچسپ مثال گزشتہ دنوں ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے چند مضامین پڑھتے
ہوئے میرے سامنے آئے- اس قسم کے جملے نظروں سے گزرے :
۱- مغربی تہذیب شیطان کا ہتھکنڈہ ہے جو جدید میڈیا کے ذریعے ہماری تہذیب پہ
حملہ آور ہوا ہے-
۲- ہزار برس سے قید شیطان کو مغربی تہذیب نے رہا کرایا ہے-
۳- شیطان نے محبت کے پاکیزہ تعلق کو شہوت کی غلاظت سے لتھیڑ دیا ہے-
۴- ویلنٹائن ڈے منا کر ہم یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ہمیں اپنی بیٹیوں سے عصمت
اور اپنے نوجوانوں سے پاک دامنی مطلوب نہیں-
۵- لگتا ہے امتی اب ” حیا“ کے اس ”بوجھ “ کو زیادہ دیر تک اٹھانے کے لیے
تیّار نہیں ہیں-
۶- نوجوان مغربی حیا سوز فلمیں دیکھتے ہیں لہٰذہ ------------- شیطان کا
رقص -----وغیرہ وغیرہ
کیا یہ سب اسباب اور اثرات جو ہمارے معاشرے پر پڑ رہے ہیں ان میں ہماری
کوئی غلطی نہیں ہے؟کیا ہمارا دین اور ہماری اقدار اتنی بودی اور کمزور ہیں
کہ کوئی بھی تہذیب ہمارے اوپر ا تنی آسانی سے چھا جائے ؟کیا صرف شیطان ہی
اس بے راہ روی کوپھیلانے کا ذمہ دار ہے اور ہم بے قصور ہیں؟
ویلنٹائن ڈے یا اسی قسم کی اور روایت ہمارے ہاں کیوں ترویج پا رہی ہے اس
میں سب سے بڑا قصور ہمارا اپنا ہے-آئیے کچھ حقائق کا جائزہ لیتے ہیں-
انسانی جذبات اور احساسات اللہ تبارک و تعالیٰ نے خاص طور پہ تخلیق فرمائے
ہیں اور ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک نہایت اعلیٰ ذہن عطا فرمایا ہے -
یہ اس کی صفت ”المصوّر“ کی ایک ہلکی سی جھلک ہے -لیکن اس دنیا میں ودیعت
کیے ہوئے سارے جذبات لطف اندوز ہونے کے لیے نہیں ہیں ---بلکہ کچھ جذبات
اپنی فطرت میں منفی اثرات رکھتے ہیں جیسے غصّہ ، حسد ، نفرت ، لالچ ، کینہ
و کدورت ، ہوس ، دشمنی وغیرہ ---نیز مثبت اور پاکیزہ جذبات پر بھی دنیا میں
بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے - اگر انسان کی پیدا کی ہوئی معاشرتی
و سماجی دیواروں کو نظر انداز بھی کردیا جائے تو فطری طور پر خدا کی پیدا
کی ہوئی طبعی حدود بھی پاکیزہ جذبات سے پوری طرح لطف اندوز ہونے میں مانع
ہیں- مثلاً بیماری ، تھکن ، اضمحلال ، کمزوری و ناتوانی ، بھوک ، نیند ،
بڑہاپا ، معذوری ، درد و تکلیف وغیرہ - پھر کروڑوں لوگ پیدا ہونے کے بعد
کسی بھی قسم کے لطف سے آشنا ہوئے بغیر ایک نہایت تکلیف دہ اور اذیّت ناک
زندگی گزار کے مر جاتے ہیں- جبکہ کچھ لوگ جو تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں
بغیر کسی مشکل اور تکلیف کے ایک عالیشان زندگی گزارتے ہیں -یہ انتظام اس
دنیا کی زندگی میں ایک دارالامتحان کی حیثیت سے جاری کیا گیا ہے اور یہ بہت
جلد ختم ہونے والا ہے-
اس زندگی کے بعد ایک لافانی زندگی ہے جس میں ’ ’جنت“ میں جانے والوں کے لیے
تمام منفی جذبات اور طبعی حدودکا ختمہ کردیا جائے گا اور وہ ایک لامتناہی
لذیذ ، پرلطف و پاکیزہ ، امن و سلامتی والی ابدی زندگی گزاریں گے-ان کے رہن
سہن کا اعلیٰ ترین بند و بست ہوگا جو اس دنیا میں ناقابل تصوّر ہے-قرانی
بیان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی جسم صرف لطف اندوز ہونے کے لیے اس
طریقے سے دوبارہ زندہ کیا جائے گا کہ اس میں کوئی طبعی تبدیلی کبھی واقع
نہیں ہوگی ، گویاجسم میں خلیوں کی شکست و ریخت نہیں ہوگی نیز کسی بھی قسم
کے خلیے میں کوئی ”جینیاتی نقص “ (جینیٹک ڈیفیکٹ) نہیں ہوگا ، جس سے نہ
تھکن و کمزوری ہوگی نہ بڑہاپا آئے گا،نہ نیند آئے گی اور نہ بھوک لگے گی !!
یعنی انسان ہمیشہ جوان اور تروتازہ رہے گا ، ”جینیاتی کوڈ “ فانی سے لافانی
کی طرف تبدیل کردیا جائے گا! مزید یہ کہ نسل انسانی کا سلسلہ نہیں ہوگا
یعنی کوئی نیا انسان نہیں پیدا ہوگا-! وقت کی کوئی قید نہیں ہوگی ، غالباً
وقت ہوگا ہی نہیں یا ہر انسان وقت کو اپنی خواہش کے مطابق تبدیل کر سکے گا
(جدید سائنس نے اس دنیا میں ہی ان طبعی شرائط کا پتہ چلا لیا ہے جن کے پورا
ہونے پر وقت سست ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ رک بھی سکتا ہے اور یہ تجربے سے
ثابت بھی ہو چکا ہے)- یہ ایک انتہائی انوکھا اور خوبصورت انتظام ہو گا-ہر
پاکیزہ خواہش صرف لطف و لذّت حاصل کرنے کے لیے پوری کی جائے گی-مثلاًکھانے
پینے کی چیزیںمحض ”ذائقہ کی لذّت “ کے لیے موجود ہونگی-کیونکہ ایک مطلق
جوان ، توانا ، صحت مند اور تروتازہ جسم کو کسی پروٹین یا وٹامن یا
نیوٹریشین وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوگی-
اسی طرح جنسی جذبہ بھی صرف لطف کے واسطے ہوگا- انسانی نسل چلانے یا امتحان
کے لیے نہیں-مذہب کی رو سے جنسی جذبہ محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے ، اسی لیے اس
کو ایک اعلیٰ و ارفع نعمت کے طور پہ جنتیوں کے لیے دیگر نعمتوں کے ساتھ
شامل کیا گیا ہے- جنّت میں ہر پاکیزہ جذبہ اپنی انتہائی اعلیٰ شکل میں
موجود ہوگا-اللہ تعالٰی نے اپنے پسندیدہ بندوں کے لیے جنت میں اس کا خاص
الخاص انتظام کیا ہے-ان کے لیے ، ہم سن اور کنواری انسانی ازواج کے علاوہ،
ایک نہایت ناقابل تصوّر خوبصورت مخلوق اضافی طور پہ پیدا فرمائی ہے تاکہ اس
جذبہ کی انتہائی درجہ کی لذّت سے لطف اندوز ہوا جاسکے- حور وہ دوسری مخلوق
ہے جو انسان کی وجہ سے صرف انسان کے لیے جنت میں پیدا کی گئی ہے یا پیدا کی
جائے گی-اس مخلوق یعنی ’حور‘ کی تخلیق صرف اور صرف انسان کی جنسی جذبہ محبت
کی تسکین اور لطف کے لیے ہے-اور یہ اسی طرح سے ہے جیسے طرح طرح کے پھل دنیا
کے پھلوں کے مشابہ جنت میں پیدا کیے گئے ہیں لیکن ذائقہ میں ناقابل تصوّر
حد تک لذیذ اور ایسے ذائقہ دار ہونگے جیسا ذائقہ کسی نے نہ چکھا ہوگا-
لہٰذہ جنتی لوگ کہیں گے کہ یہ پھل ہم دنیا میں بھی کھا تے تھے ، مگر چکھنے
کے بعد کہیں گے کہ ایسا لذیذ ذائقہ ہم نے کبھی نہیں چکھا تھا-اسی طرح ”حور“
بھی جنت کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کی لذت کا تجربہ انسان کو پہلے کبھی
نہیں ہوا ہوگا- وہ ایک بہت مخصوص خلقت پر پیدا کی گئی ہیں -یعنی انکی ایک
ہی فطرت ہوگی اور ایک ہی مقصد ہوگا -وہ ہمہ وقت خیموں میں جنتیّوں کے لیے ”
منتظر “ اور ” تیّار “ ہونگی- ان کا کنوارا پن کبھی نہ ختم ہوگا- سوائے
محبت کے انہیں کچھ نہیں آتا ہوگا---- قرانی بیان سے کچھ ایسا ہی اندازہ
ہوتا ہے------واللہ اعلم بالصواب
لہٰذہ ارشاد ہوتا ہے:
یو نہی ہو گا اور ہم ان کا نکاح بڑی آنکھوں والی حوروں سے کر دیں گے---۴۵
الدخان
تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے جو قطاروں میں بچھے ہوئے ہیں اور ہم ان کا نکاح
بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے کردینگے--الطور ۰۲
اور ان میں نیچی نگاہ والی (حوریں) ہونگی جنہیں پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ
لگایا نہ کسی جن نے--- الرحمان ۶۵
خیموں میں ٹھیرائی ہوئی حوریں-----الرحمان ۲۷
بے شک ہم نے ان حوروں کو خاص خلقت پر پیدا فرمایا ہے-پھر ہم نے انکو
کنواریاں بنایا ہے-جو خوب محبت کرنے والی ہم عمر ازواج ہیں---- --الواقعہ
۵۳،۶۳،۷۳
اور ان کے پہلو میں نیچی نگاہ رکھنے والی ، بڑی خوبصورت آنکھوں والی(
حوریں) ہونگی-----الصافات ۸۴
گویا اس جذبے کی خوبصورتی اور انسانی فطری خواہش کے پیش نظر خدا نے آخرت
میں انسان کے لیے اس کا خاطر خواہ انتظام کیا ہے - اس جنسی خواہش کی آرزو
رکھنا اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنا کوئی ناجائز یا شیطانی کام نہیں ہو
سکتا- بلکہ اس کو حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے- حوصلہ افزائی فرمائی گئی ہے
اور اس میں مانع رکاوٹوں کو رد کیا گیا ہے-
اس دنیا میں البتہ اس جذبہ محبت کے تین مقاصد ہیں- یعنی لذت ، نسل انسانی
کا دوام اور امتحان- اس کے حصول کے لیے اور برے راستے سے بچنے کے لیے کچھ
اصول واضح طور پہ سمجھا دیے گئے ہیں-نیز اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کے
مطابق اس کو آسان اور متنوّع بنایا ہے- انسانی اور سماجی ضرورت اور فطرت کے
تحت کثیر الازدواجی زندگی کی اجازت دی ہے-یہاں تک کہ بعض سورتوں میں کنیزوں
کی بھی اجازت ہے-ان تمام معاشرتی اور مادّی اسباب کو رد کیا ہے جنہیں انسان
شادی کی راہ میں سدّ راہ سمجھتا ہے-جیسے غربت و مفلسی ، آمدنی کا نہ ہونا ،
دکھاوا وغیرہ-انسان روزی کے لیے بھاگ دوڑ کرنے والا ہو سکتا ہے لیکن پالنے
والا نہیں-
ارشاد باری تعالیٰ ہے
وہ جس نے پیدا فرمایا تمہیں ایک نفس سے اور بنایا اس سے اس کا جوڑا تاکہ
اطمینان حاصل کرے اس سے-----اعراف ۹۸۱
یعنی نکاح سے انسان کو ذہنی ، قلبی ، طبعی ، اور جنسی سکون ملتا ہے جو
انسانی زندگی کے لیے بہت اہم ہے اور ایک نعمت ہے-یہ انسان کو دنیوی تگ ودو
کے لیے تیّار بھی کرتا ہے-جب انسان بلاغت کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسی فطری
سکون کو حاصل کرنے کی طرف پر زور طریقے سے مائل ہوتا ہے-لیکن معاشرتی ،
سماجی اور خاندانی روایات ، رسومات اور ”مسائل عزّت “ ، دکھاوا وغیرہ اس کو
اپنا جوڑا بنانے نہیں دیتی-وہ بے سکون و بے قرار رہتا ہے-
اور نکاح کردو اپنوں میں انکا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق غلاموں اور
کنیزوں کا اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ انہیں غنی کر دے گا اپنے فضل کے سبب سے
اور اللہ وسعت والا اور علم والا ہے---- ۲۳ النور
خدا نے فقیروں اور غلاموں کی بھی شادی کی حکم دیا ہے اور روزی کو اپنے فضل
سے دینے کا وعدہ فرمایا ہے-کیا ہم روزی اور معیار زندگی بلند کرنے کے
انتظار میں اپنے بیٹوں ، بیٹیوں اور بہنوں کو بوڑھا نہیں کر رہے ہیں؟ انکے
ازدواجی سکون کے حق کو اپنے مصنوعی معیار پہ قربان نہیں کر رہے ؟
ان عورتوں سے نکاح کرو جوتمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں- دو دو ، تین تین
اور چار چار - پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم عدل نہیں کر سکو گے تو صرف
ایک ہی عورت سے- یا وہ کنیزیں جو تمہاری ملکیت میں آئی ہوں- یہ بات اس سے
قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو----- ۳ النسا ء
نکاح کے راستے میں رکاوٹ انسان کے اپنے پیدا کردہ مسائل اور روایات ہیں -ہم
اس ظلم کو رواج دینے میں کتنے شریک ہیں؟ خود سوچیں ----
مولانا رقم طراز ہیں:-
بعض لوگ اہل مغرب کے نظریات سے مغلوب و مرعوب ہوکے اس آیت سے یہ ثابت کرنے
کی کوشش کرتے ہیں کہ قران کا اصل مقصد تعدّد ازواج کے طریقے کو مٹا دینا
تھا( جو فی الاصل مغربی نقطہ نظر سے برا طریقہ ہے)-لیکن اس قسم کی باتیں
دراصل محض ذہنی غلامی کا نتیجہ ہیں-تعدّد ازواج کا فی نفسہ ایک برائی ہونا
بجائے خود ناقابل تسلیم ہے-کیونکہ بعض حالات میں یہ چیز ایک تمدّنی اور
اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے-قرآن نے صریح الفاظ میں اس کو جائز ٹھیرایا ہے اور
اشارةً و کنایةً بھی اس کی مذمّت میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا ہے جس
سے معلوم ہو کہ فی الواقع وہ اسے مسدود کرنا چاہتا ہے------تفہیم القران
حضور اکرم ﷺ ،آپ کے صحابہ ، تابیعن اور تبع تابعین کی ایک کثیر تعداد نے
اور ماضی قریب تک مسلمانوں نے کثیرالازدواجی زندگی کامیابی سے گزاری ہے-
روایتوں کی رو سے خود حضور نے بعض صحابہ کو دوسری شادی کا مشورہ دیا-ہمارے
معاشرے میں عورتوں کی شادی کے مسائل اور عمر رسیدہ کنواری لڑکیوں کے لیے یہ
ایک جائز شرعی راستہ ہے- اسے ہم نے خود مسدود کیا ہوا ہے-
اے ہمارے رب مرحمت فرما ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی
ٹھنڈک اور بنا ہمیں پرہیز گاروں کا امام---الفرقان ۴۷
گویا بیویاں اور اولاد انسانی سکون کا سرچشمہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور
پرہیزگاری کی امامت کی طرف ایک قدم ہے-
نکاح کرنا میری سنت ہے جس نے میری سنت پہ عمل نہیں کیا وہ ہم میں سے نہیں
ہے- حدیث
جو شخص مفلسی کے ڈر سے نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں---حدیث
تمام احکامات کو پس پشت ڈال کر ، فطرت انسانی کو نظرانداز کرکے- اپنے
معیارات اور تصنّع اور خواہشات اور خود ساختہ مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے،
جوان بچوں اور بچیوں کو عمر کے سنہری حصے سے محروم کرکے اور سارے دروازے
بند کر کے ہم اگر یہ کہیں کہ ویلنٹائن ڈے مغربی تہذیب کی یلغار ہے اور
شیطانی رقص ہے----تو یہ ستم ظریفی ہوگی---- شیطانی رقص تو ہمارا معاشرہ کر
رہا ہے اور ہم اس کا ملبہ دوسروں پر ڈال رہے ہیں!
کچھ عجب نہیں کہ ہمارے بچّے اس دن کو نعمت غیر مترقّبہ سمجھ کر اس کی طرف
مائل ہوں- |