دنیامیں اس مسئلہ پر کافی عرصہ
یہ بحث چلتی رہی کہ انسانی زندگی میں کون سی قومیں باقی رہتی ہیں ، اور کون
سی مٹ جاتی ہیں، توقوم کی بقاءکے لئے اصلاح کو قانون بنایا گیاکہ جس قوم
میں زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، وہ قوم باقی رہتی ہے، اورجس قوم میں کم صلاحیت
ہوتی ہے وہ قوم ختم ہو جاتی ہے۔لیکن یہاں ایک مسئلہ پیدا ہوا کہ اگرانسانی
صلاحیت جسم پالنے میں ہے، تو ہر جانوربھی جسم پال رہا ہے۔اگر زیادہ کھانا
صلاحیت ہے،تو اس میں بھی کئی جانور انسان سے بہت آگے ہیں۔اگر مال جمع کرنا
صلاحیت ہے، تو یہ صلاحیت ایک چیونٹی میں بھی ہے۔لہذاصلاحیت کسی قوم کی
بقاءکا قانون نہیں ،لیکن صلاحیت اپنی جگہ ایک خاص مقام رکھتی ہے۔اس کے
باوجودقوم کی بقاءصلاحیت سے نہیں بلکہ کسی اور چیز سے ہے۔ وہ کیا چیزہے جو
قوموں کو باقی رکھتی ہے؟وہ کیا چیز ہے جوانسان کو عظمت کی بلندیوں پر
پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے؟ وہ چیزہے اخلاقیات کی عظمت، عقائد کی
عظمت، روحانیت کی عظمت، یہی عظمتیں ایک قوم کو دوسری ا قوام سے افضل بناتی
ہیں۔جو ایک قوم کو ہمیشہ باقی رکھتی ہیں۔لہذا قوم کی بقاءمیں انسانی صلاحیت
کوقانون کا درجہ نہیں دیا جاسکتا،بلکہ کسی بھی قوم کی بقاءانسان کے اعلیٰ
اخلاق کی وجہ سے ہے ،اور یہی قوم کی بقاءکاقانون بھی ہے۔
آج ہم ان باقی رہنے والے اعلیٰ اخلاق کوچھوڑ کران عناصر کے پیچھے بھاگ رہے
ہیں،جو بہت ہی مختصر اور عارضی ہیں۔آج ہمارے معاشرے کا ہرفردزیادہ کھانے
اور زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کے چکر میں پڑا ہوا ہے،کیونکہ زیادہ مال
جمع کرنا،یا زیادہ کھانا،یا زیادہ جسم کا پالنا،ان چیزوں کو ہم نے اپنی
بقاءتصور کرلیا ہے،اور اسے انسانی صلاحیت کا درجہ دے دیا ہے۔جبکہ قوم کی
بقاءانسان کے اعلیٰ اخلاق سے ہے ،جن کے ذریعے ہم عظمت کی بلندیوں تک پہنچ
سکتے ہیں،جبکہ ہماری قوم اخلاقیات کو ہی پسِ پردہ ڈال چکی ہے۔آج ہم اپنے
گھر، اپنے خاندان،اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں،تو ہماری زندگی غیراخلاقی قدروں
کا مجموع ہے۔اپنے سے کم تر کوذلیل کرنا ایک رواج بن گیاہے،چھوٹی چھوٹی
باتوں پر لڑائی جھگڑے، گالی گلوچ ایک معمول بن گیا ہے۔ اگر کسی کے پاس پیسہ
ہے تو وہ اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرلیتا ہے۔دولت کی وجہ سے اپنے آپ کو
اعلیٰ تر سمجھنا شروع کردیتا ہے۔آج ہم معاشرے میں دوسروں کی خوشیاں برداشت
کرنے سے قاصر ہیں،آج دولت کی خاطربھائی بھائی کادشمن بن گیاہے۔قتل وغارت کا
ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔الغرض ہمارا معاشرہ اس وقت عجیب وغریب
افراتفری کا شکارہے۔
معاشرے میں ایک دوسرے کی عیب جوئی، غیبت،حسد اور دوسروں کو ذلیل کرناوغیرہ
یہ تمام چیزیں جو بداخلاقی کی مثال ہیں،ہمارے معاشرے میں بہت عام ہیں۔
ہمارے معاشرے میں کچھ لوگوں کا یہ معمول ہے کہ دوسرے شخص کو ذلیل کرکے اپنی
برتری ظاہر کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص تو جاہل ہے، اس کی
سمجھ ناقص ہے، اس کا کلام کمزور ہے، اس تنقید کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مخاطب
پر اپنی فضیلت کا اظہار کرے اور یہ ثابت کرے کہ میں اس کے مقابلے میں زیادہ
علم رکھتا ہوں، میری گفتگو عمدہ ہے،اور یہ کہ کہیں لوگ میری طرح اس کی بھی
تعظیم نہ کرنے لگ جائیں، اور معاشرے میں اسے بھی نمایاں مقام نہ حاصل
ہوجائے۔آج ہم دفاترمیں کسی کوہدفِ تنقیداس لئے بناتے ہیں کہ افسران بالا کی
نظر میں اس کی عزت کم ہو،افسر کی خوشنودی اور مختلف اندیشوں کے پیش نظر ہم
دوسرے لوگوں پرتنقید اوران کی برائی کا سلسلہ بھی جاری رکھتے ہیں۔
آج ہم معاشرے میں رہتے ہوئے یہ برداشت نہیں کرتے کہ فلاں شخص سے لوگ محبت
کیوں کرتے ہیں،اس کی عزت کیوں کرتے ہیں،اور ہماری یہ کوشش رہتی ہے کہ اس کی
عزت باقی نہ رہے،اس کے عیب نکال کرہم اسے معاشرے میں ذلیل کریں۔آج ہم اپنے
دلوں میں حسد،کینہ اور غضب اٹھائے پھررہے ہیں،کہ جب موقع ملے تو دوسرے شخص
کوذلیل وخوار کرکے رکھ دیں۔اور اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے سیاستدان حضرات
ہیں،جو ہرپل ایک دوسرے پربہتان اور ذلالت کا کیچڑ اچھال رہے ہیں۔اخلاقیات
سے عاری یہ لوگ ایک دوسرے پرتنقیدکا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں
دیتے۔ہماری اکثریت عوام بالخصوص ان سیاستدانوں کی آنکھوں پرلالچ کی پٹی
بندھی ہوئی ہے، اسی لئے وہ اپنی بقاءکے لئے دولت جمع کرنے کی صلاحیت کو ہی
منتخب کرتے ہیں،اور اپنی ساری زندگی دولت کے پیچھے بھاگ کر گزار دیتے
ہیں۔اور جب اس دنیا فانی سے کوچ کرجاتے ہیں تو پیچھے ان کا نام لینے والا
کوئی نہیں ہوتا۔یاہمیشہ انہیں برے لفظوں سے یاد کیا جاتا ہے،کیونکہ جس نام
کے زندہ رکھنے کے لئے زندگی میںوہ کوشش کرتے تھے،وہ کوشش اچھے اخلاق کے
بجائے دولت جمع کرنے کے لئے تھی۔دنیا میں ایسی بے شمار شخصیات اور اقوام آج
بھی زندہ ہیں، جو بلند اخلاق اور بلندکردار کے مالک تھیں۔
اخلاقیات سے گری ہوئی ایک حرکت جو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا دستور بن چکی
ہے کہ ہم دوسروں کی توہین وتذلیل اس لئے کرتے ہیں کہ محفل میں دلچسپی کی
فضا پیدا ہو، اور اہل محفل کو ہنسنے ہنسانے کا موقع ملے، اور اچھا وقت
گزرے۔اس سے نہ صرف ہم اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں، بلکہ اپنے گناہوں میں
بھی اضافہ کرتے ہیں،اور ہم بدنصیبوں کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتاکہ ہم
کیا کررہے ہیں۔ اور یہ کام صرف اور صرف اس لئے کیا جاتا ہے کہ دوسرے شخص کی
تحقیر وتذلیل ہو۔ جہاں یہ بڑے بڑے سیاستدانوں اورمتکبرین کا شیوہ ہے وہاں
عام لوگوں میں بھی یہ چیز کثرت سے پائی جاتی ہے۔ ہم میں سے بعض لوگ سامنے
بیٹھے ہوئے آدمی کو اپنی تنقید اور مذاق کا ہدف بناتے ہیں،ہم یہ نہیں سوچتے
کہ اس طرح دوسرے آدمی کی کس قدر رسوائی ہوگی، نیز اگر وہ اس جگہ ہوتا تو
خود اس کا کیا حشر ہوتا۔اس سے ملتی جلتی مثال آج کل ہمارے ٹی۔وی چینلز پر
ہونے والے ٹاک شوز ہیں۔جن میں دوچار پارٹیوں کے کارکن ساتھ مل بیٹھ کرایک
دوسرے کی تذلیل کررہے ہوتے ہیں،اور دیکھنے والے ان کی بے ہودہ گفتگو سے لطف
اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان اس وقت جن مسائل اور معاشرتی خرابیوں کا شکار
ہے، ان مسائل اور خرابیوں کے پیدا کرنے میں خاصہ حصہ ہمارا بھی ہے۔کیونکہ
یہاںخرابی ہرخاص وعام سطح پر موجود ہے۔خاص سطح کی خرابیوں کودرست کرنا
شاہدہمارے بس میں نہیں ، لیکن عام سطح پر ہونے والی خرابیوں کو کم از کم ہم
ضرور کنٹرول کرسکتے ہیں۔عام سطح سے مراد ہمارا معاشرہ، ہمارا عام آدمی،
ہماری عوام ہے۔ دراصل ہم اپنے اندر موجود ان خرابیوں کو بہت معمولی سمجھتے
ہیں،اور انہیں دورکرنے کی کوشش نہیں کرتے۔جبکہ ایک معاشرے کوقائم رکھنے کے
لئے آپس میں اخوت ،محبت اوردوسروں کی عزت لازمی ہیں، اور یہی اخلاقیات ہیں۔
اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ بحیثیت پاکستانی قوم رہتی دنیا تک باقی رہیں،اور
دنیا میں ہماری کوئی پہچان ہو،تو ہمیں اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے ہوں
گے۔ جہالت کے اندھیروں سے نکل کرعلم کی روشنی سے اپنے عقائد کو درست
کرناہوگا،اوران تمام عارضی صلاحیتوں جنہیں ہم اپنی بقاءکادرجہ دے چکے
ہیں،ان کو خداحافظ کہنا ہوگا۔کیونکہ ان سے نہ صرف ملک اور معاشرے میں نفرت،
کدورت، ذلالت اور بدامنی کو فروغ مل رہا ہے،بلکہ بحیثیت قوم رفتہ رفتہ
ہماری شناخت بھی اس دنیا سے مٹ رہی ہے۔ |