عالمگیریت کے اس دور میں کوئی ملک نہ ہی اکیلا ترقی کر
سکتا ہے اور نہ ہی اکیلے رہ کر یا دنیا سے کٹ کر اس کا گزارہ ممکن ہے لیکن
یہ بھی حقیقت ہے کہ طاقت حاصل کرنے کے بعد کسی ملک کا رویہ دوسرے ممالک کے
ساتھ کیسا ہو تا ہے۔دنیا کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے جہاں کسی
طاقت نے خود کو دنیا کی ضرورت سمجھا اور پھر دنیا کو اپنے حکم اور مفاد کی
خاطر چلانا چاہا۔شاید یہ قوموں کے مزاج پر منحصر ہے کہ وہ اپنی حکمرانی کے
وقت دنیا کے ساتھ کیسا برتائو کرتے ہیں۔لیکن چین کے معاملے میں دنیا ایک
الگ نظارہ دیکھ رہی ہےچین ایک بڑی عالمی قوت ہونے کے با وجود دنیا بھر کے
خطوں کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔افریقی ممالک ہوں
،لاطینی امریکی ممالک ہوں ،ایشیائی ممالک ہوں یا عرب
ممالک۔تعاون،ہمدردی،دوستی اور انسانیت ہی چین کی پہچان ہیں۔
چین کی ترقی کا دور کم ازکم گزشتہ تین دہائیوں سے شروع ہو تا ہے اور اس کا
عروج گزشتہ ایک دہائی میں نظر آرہا ہے جب چین کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل
سیکٹری اور چین کے صدر شی جن پھنگ نے چین کا اقتدار سنبھالا۔غربت
،تعلیم،صحت،ماحول سمیت ہر شعبے پر خصوسی توجہ اور بے مثال کامیابیوں سے پر
اس ایک دہائی میں چین معیشت کے میدان میں ترقی کرتا آج دنیا کی دوسری بڑی
معیشت بن چکا ہے اور ساتھ ہی دنیا کی معیشت میں اس قدر فعال کردار ادا کر
رہا ہے کہ اب اسے عالمی ترقی کا انجن کہا جاتا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ چین
چلے گا تو والمی معیشت کی گاڑی چلتی رہے گی
کرونا وبا کے بعد چین نے اپنے عوام کی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے اپنے
معاشی پہییے کو بھی رواں دواں رکھ لیکن اب سال 2023 میں اپنے حالیہ انسسداد
وبا کے اقدامات کی کامیابی کے بعد چین نے دنیا کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا
ہے کہ بطور عالمی معیشت کے انجن کے چین اپنا سفر پہلے سے بھی زیادہ تیزی کے
ساتھ طے کرے گا ۔چین کے عالمی معیشت کے انجن ہونے کی حقیقت کو دنیا بھر میں
تسلیم کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں ڈبلیو ٹی او کی ڈائریکٹر جنرل نگوزے ایولا نے ایک انٹرویو میں
کہا کہ دنیا میں وبا کے اثرات بدستور موجود ہیں ، لیکن صورتحال بہتر ہو رہی
ہے ۔ چین میں کھپت میں اضافہ اور مینوفیکچرنگ کا معمول پر واپس آنا عالمی
معیشت کے لئے ایک اچھی بات ہے۔چین عالمی ترقی کا انجن ہے۔
چین کے صدر نے ستمبر 2021 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس
کے عام مباحثے میں پہلی بار یہ خیال پیش کیاکہ کوویڈ 19 کے شدید اثرات کا
سامنا کرتے ہوئے عالمی ترقی کو متوازن، مربوط اور جامع ترقی کے ایک نئے
مرحلے کی طرف لے جانے کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے
انہوں نے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو (جی ڈی آئی) کی تجویز پیش کی
اس اقدام کا مقصد ترقی کو ترجیحی بنیاد پر عوام پر مرکوز کرتے ہوئے سب کے
فائدے کے لئے جدت طرازی پر مبنی ترقی اور انسان اور فطرت کے درمیان ہم
آہنگی اور نتائج پر مبنی اقدامات کے لئے پرعزم رہنا تھا۔
جی ڈی آئی نے ابتدائی نتائج بھی حاصل کیے ۔ 100 سے زیادہ ممالک اور اقوام
متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے جی ڈی آئی کی حمایت کا وعدہ کیا
اور 70 کے قریب ممالک جی ڈی آئی کے دوستوں کے گروپ میں شامل ہوئے.
ایک گلوبل ڈیولپمنٹ پروموشن سینٹر تشکیل دیا گیا ، جس میں 31 ممالک اور
علاقائی تنظیمیں اس کے نیٹ ورک میں شامل ہوئیں۔ ایک گلوبل ڈیولپمنٹ پروجیکٹ
پول قائم کیا گیا جس میں 50 منصوبوں کی پہلی فہرست شروع کی گئی تھی۔ جی ڈی
آئی کے گروپ آف فرینڈز کے 50 سے زائد رکن ممالک سمیت مجموعی طور پر 1000
انسانی وسائل کے تربیتی پروگرام منعقد کیے گئے ۔
اس کے ساتھ ہی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) 10 سال پہلے تجویز کیے
جانے کے بعد سے عوامی بھلائی اور تعاون کو فروغ دینے کے لئے ایک مقبول بین
الاقوامی پلیٹ فارم بن گیا ہے، جس میں دنیا کے دو تہائی ممالک اور ایک
تہائی بین الاقوامی تنظیموں کا احاطہ کیا گیا ہے.
گزشتہ دس سال ایک ایسی دہائی کا حصہ ہیں جس میں چین کی اقتصادی طاقت ایک
نئی سطح پر پہنچی ہے۔ 2021 میں، چین کا جی ڈی پی 114 ٹریلین یوآن تک پہنچا،
اور عالمی معیشت میں چینی معیشت کا تناسب 2012 کے 11.4فیصد سے بڑھ کر
18فیصد سے زیادہ ہو گیاہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر چین کی حیثیت
کو مستحکم اور بہتر کیا گیا ہے۔چین کا فی کس جی ڈی پی 12,500 امریکی ڈالر
تک پہنچ گیا ہے، جو زیادہ آمدنی والے ممالک کی صف میں شامل ہے۔ حالیہ برسوں
میں، عالمی اقتصادی ترقی میں چین کی معیشت کا حصہ عموماً 30 فیصد کے قریب
رہا ہے۔یہ سب حقائق اور منظر یہ حقیقت بیان کر رہے ہیں کہ فی الوقت چین ہی
وہ واحد طاقت ہے جسے دنیا کی معیشت کا انجن کہا جا سکتا ہے۔
|