شیرواں کا مشہور جملہ ہے کہ 'دنیا میں ظلم کی بنیاد تھوڑی
ہی تھی'اسی لئے اس نے اپنے سپاہیوں کو نمک بھی بلا معاوضہ لینے سے منع کر
دیا۔ہم کہتے ہیں کہ کیا مضائقہ ہے اگر بچے کچھ تحفے تحائف کا تبادلہ
کریں،سرخ گلاب کس کی کمزوری نہیں ہوتے ۔۔۔کیا ہے اگر دوست،بہن بھائی یہ بے
ضرر سا تبادلہ کر لیں۔۔۔اسلام میں اتنی سختی نہیں جتنی مذہبی طبقے نے نے
عائد کر رکھی ہے حالانکہ ملت اسلامیہ کا ہر فرد اسلامی مزاج کو سمجھنے اور
اس پر عمل پیرا ہونے کا مکلف ہے کوئی خاص طبقہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب
نظریات میں تصادم ہو جائے۔یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ ایک بڑے ضرر کے خاتمے کے
لئے کم مضر فعل پر اتنی سختی مناسب نہیں۔سر دست یہی تو سوچنے کا مقام ہے کہ
امت وسط اتنی گہری کھائی میں کیسے گر گئی کہ اب اسے اپنے بنیادی اور فطری
تصور حیا کو بھی بتدریج اجاگر کرنا پڑے!
ہم کہہ سکتے ہیں کہ یوم حیا اپنی انفرادیت برقرار رکھنے کی علامت کے طور پر
منایا جانا ضروری ہے،اپنی شناخت پر فخر اور اغیار کے فضول اور حیا سے عاری
رسم و رواج سے بغاوت کا اعلان ہے۔ایک طرح سے ویلنٹائن ڈے سے عدم دلچسپی کا
اظہار بھی اس سے ہوتا ہے اور حیا کے دائرے سے نکلنے قدغن کو بھی یہ دن ظاہر
کرتا ہے۔
جب قومیں بے عملی کی طرف راغب ہو جایا کرتی ہیں تو ایسے اقدامات کرنے پڑتے
ہیں کہ بحیثیت مجموعی تو اسلام کا درست چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جا
سکے۔دنیا پر واضح ہو کہ یہ دین اپنے پیروکاروں کو ایسے گھٹیا اور اخلاق
باختہ کلچر کو اپنے میں ضم ہونے سے روکتا ہے۔اس نے اپنے پیروکاروں کے اخلاق
کی تربیت یوں کی ہے جو تصور حیا پر مبنی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے ہر
رسم و روایات کو دیکھ کر چوکنے ہو جاتے ہیں جو اخلاق کی رہ گزر سے ان کی
شناخت کو ہی ختم کر دے۔جو قومیں بھی اپنے بنیادی کاز کو بھول جایا کرتی ہیں
وہ تباہ ہو جایا کرتی ہیں اور حیاء تو وہ جزو ہے جو خوبصورتی بھی عطا کرتی
ہے اور اس کا عدم ہر برائی کا دروازے کھول دیا کرتا ہے۔آئیے اپنے اندر،اپنے
معاملات میں،اعمال میں جھانکیں کہ کہیں یہ عنصر معدوم تو نہیں ہوتا جا رہا؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم ایسی اولادوں کے والدین ہیں جو اگر چہ ہماری آزاد
روش کے پروردہ ہیں مگر اب وہ ان حدود کو بھی پابندی اور بوجھ سمجھتے ہیں جو
کسی بھی کھائی میں گرنے سے بچنے کے لئے بحثیت والدین آپ نے قائم کی ہے۔حدود
اللہ کو عبور کرنے والے والدین کے لئے سوچنے کا مقام اور اصل کی طرف
لوٹنےکا اشارہ ہے کہ جب وہ خود اللہ کی حدود کو کھیل سمجھ کر آگے بڑھ گئے
تو کیا وہ اللہ سے زیادہ اپنی اولاد کے خیرخواہ ہیں جو اولاد کی سرکشی اور
بے راہ روی دیکھ کر اپنی باونڈریز کی کراسنگ پر نالاں ہیں۔آئیے،خود بھی حیا
سے ناطہ جوڑ لیں اور اپنی اولاد کو بھی یہی نمونہ دیں تا کہ کوئی دوسرا
کوئی بھی جال بچھا کر ہمیں اپنے میں ضم نہ کر لے۔
|