آج ہمیں فقدان نظر آتا ہے معاشرے میں انسان اخلاقی
اقداراور تعلیمات کی سمجھ رکھنے کے باوجود دینی اور دنیاوی معاملات میں کمی
بیشی کا شکار ہے تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے قاصر ہیں اور بہتی ہوئی رو
میں بہہ رہا ہیں اور بعد میں اپنے آپ کو اطمینان ایسے دیتا ہیں کہ وقت کا
تقاضا ہے اب ایسے ہی معاملات چل رہے ہیں اگر آپ بھرپور جائزہ لیں تو آپکو
اخلاقی اقداراور تعلیمات بالکل پس پشت نظر آئے گی باہمی معاملات اور لین
دین میں قول و فعل میں تضاد نظر آئے گا۔
اسکی دو بڑی وجوہات جو بنیادی طور پر نظر آتی ہیں ایک تو ریاست جو بنیادی
حقوق عام آدمی تک پہنچانے سے قاصر ہیں جو انسان کو غیر یقینی صورتحال میں
مبتلا کرتی ہے اور انسان موجودہ سنگین صورتحال کو دیکھتے ہوئے کل کیلئے
پریشان ہیں اور کل کیلئے جتنا بھی اکٹھا کر لے لالچ بڑھتا چلا جارہا ہے اور
دوسری وجہ انسان خود جو اخلاقی اقدار اور تعلیمات کو پس پشت ڈال کر زمانے
کی رو میں بہنے کی کوشش کرتا ہے تو زیادہ ترتو شروعات میں ناکامی کا سامنا
کرنا پڑتا ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا انسان کو غلط راستے پر چلنے سے بچانا
مقصود ہوتا ہے لیکن جب انسان وقت اور حالات کی رو میں بہتے ہوئے اپنے نفس
کا مارا غلطی پر ڈٹ جاتا ہے پھر اللّٰہ تعالیٰ اسکی رسی دراز کردیتے ہے
اورایسے انسان بہت زیادہ دنیاوی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ انسان اخلاقی اقداراورتعلیمات کے راستے پر چلتے ہوئے
اضطراب کا شکار کیوں ہے۔ اس مشکل صورتحال میں جہاں آپ کو نت نئے مسائل پے
در پے معاشی اور معاشرتی لحاظ سے درپیش ہے ایسے میں باشعور اور مضبوط اعصاب
کے مالک بھی ڈگمگا جاتے ہیں اور برائی کا رستہ اختیار کر لیتے ہیں
ایسی صورتحال میں ہمیں مستقل مزاجی کی ضرورت ہے جیسے اللّٰہ تعالیٰ دن میں
پانچ دفعہ انسان کو اپنی وحدانیت کا اقرار اور یادہانی کرواتے ہیں ویسے ہی
انسان معاشرتی تغیرات کو اپنی اقداراور تعلیمات کو ہاوی نہ ہونے دیں اور
بہتی ہوئی رو میں بہہ جانے کی بجائے وہ کام کیا جائے جس سے معاشرے میں اچھی
روایات پڑے۔
|