میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
70 مائوں سے زیادہ پیار کرنے والے رب ذوالجلال نے جب دنیا کو تخلیق کیا تو
حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے سے پہلے اس خالق حقیقی نے اپنے بندے کی
نسل سے پیدا ہونے والی مخلوق کے لئے سب نعمتوں کو تخلیق کیا بنی نوح انسان
یعنی ہمارے لئے اگر پوری دنیا کے نظام کو چلتا ہوا دیکھتے ہیں تو ہمیں
معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں موجود ہر ملک کی آب و ہوا اور زمین کی طاقت کے
مطابق رب العزت انہیں ہر نعمت سے نوازتا ہے ہر ملک میں پیدا ہونے والے سبزی
، فروٹ اور بے شمار نعمتیں دوسرے ممالک سے قدر مختلف ہوتی ہیں یہ اس مالک
ومولا کا اس نظام کو چلانے کا اپنا ایک طریقہ ہے اور یہ سب کچھ وہ صرف اور
صرف ہمارے لئے پیدا کرتا ہے اب اگر اس بات پر بھی ہم اس کا شکر ادا نہ کریں
تو کیا یہ ناشکری نہیں ہوگی ؟
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یہ ہی نہیں آپ یہ دیکھیں کہ وہ ممالک جہاں
کے رہنے والے اہل ایمان نہیں ہیں جو اس رب العزت کی واحدانیت کو ماننے سے
انکاری ہیں وہ رب ان کو بھی اپنی بےشمار نعمتوں سے نوازتا ہے کیوں کہ وہ رب
المسلمین نہیں ہے بلکہ رب العالمین ہے اب کون اس کی واحدانیت پر پختہ یقین
رکھتا ہے اور کون نہیں اس کا حساب بروز محشر ہوگا لیکن وہ رب الکائنات
فرماتا ہے کہ جو انسان دنیا میں آگیا پیدا ہوگیا اس کا رزق اس کی زندگی موت
او سب کچھ میرے ہاتھ میں ہے اب ان سب نعمتوں کے نزول کے عوض اخر وہ رب
العزت ہم سے کیا چاہتا ہے ہم سے اس کا کیا مطالبہ ہے ؟
میرے محترم اور معزز پڑھنےوالوں وہ رب العالمین ہمیں اپنی عبادت میں مشغول
دیکھنا چاہتا ہے وہ رب العزت ہمارے دل میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم کے عشق کا خواہ ہے اور صرف نیک کام کرنے میں زندگی کو مصروف رکھنا اس
کا ہم سے مطالبہ ہے وہ مالک و مولا چاہتا ہے کہ ہم اس کا ہر حال میں شکر
ادا کریں اور اگر ہم انسانوں پر اس رب العالمین کی کرم نوازیوں اور
مہربانیوں کو دیکھیں تو شکرانے کے طور پر ہمارا سر اگر سارا دن ساری رات
بھی سجدے میں پڑارہے تو کم ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آپ دیکھیں اپنی ساری مخلوقات کی تخلیق کے
بعد اس رب الکائنات نے انسان کو سب سے افضل اور اعلی مقام یعنی اشرف
المخلوقات کا درجہ دیا اگر دیکھا جائے تو یہ ہی ایک بہت بڑی وجہ ہے جو ہمیں
اس رب ذوالجلال کا شکر ادا کرنے پر مجبور کرسکتی ہے ہم انسانوں کو جو مراتب
اور مقامات اس رب العزت نے عطا کئے ہیں وہ اپنی کسی مخلوق کو عطا نہیں کئے
اگر ہم اس کا شکر ادا کرنے کے لئے کوئی وجہ تلاش کرنے میں لگ گئے تو یہ بھی
ناشکری کے زمرے میں آجاتا ہے میں اگر آپ کو اس رب ذوالجلال کا شکر ادا کرنے
کی وجوہات بیان کرنا شروع کردوں تو یہ مضمون چھوٹا پڑجائے گا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے
اپنے دین کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء
کرام علیہم السلام کو بھیجا اور ان کو امتیں بھی عطا کیں لیکن کیا یہ اس
خالق حقیقی کے حضور شکر ادا کرنے کا مقام نہیں ہے کہ اس رب العزت نے ہمیں
اپنے سب سے آخری نبی محبوب نبی اور وجہہ تخلیق کائنات نبی حضور صلی اللہ
علیہ والیہ وسلم کا امتی بنایا وہ رب ذوالجلال ہمیں پچھلی امتوں میں بھی
پیدا کرسکتا تھا لیکن یہ اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں حضور صلی اللہ علیہ
والیہ وسلم کے امتی ہونے کا شرف بخشا جس کے لئے اس کا جتنا شکر کریں کم ہے
۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی نے قران مجید فرقان
حمید کی سورہ ابراھیم کی آیت نمبر 7 میں ارشاد فرمایا کہ ترجمہ کنزالایمان
" جب تمہارے رب نے سنادیا کہ اگر احسان مانوگے تو میں تمہیں اور دوں گا اور
ناشکری کروگے گو تو میرا عذاب بڑا سخت ہے" مطلب یہ کہ ہر ھال میں اس رب
ذوالجلال کا شکر ادا کریں اور ناشکری سے بچیں کیوں کہ ناشکری غم اور بے
سکونی کو کھینچ لاتی ہے جبکہ شکرگزاری نعمتوں ،خوشیوں اور راحتوں میں اضافے
کا سبب بنتی ہے اس لئے یہ حکم ہے کہ ہر حال میں ہر وقت اس خالق حقیقی کا
شکر ادا کرتے رہو ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا دور
خلافت تھا ایک بدوی مسلمان ( بدوی اسے کہتے جو خانہ بدوش لوگ ہوتے ہیں
مستقل کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا اور یہ بدو یعنی صحرائوں اور ریگستانوں میں
زندگی بسر کرتے ہیں ) وہ خانہ کعبہ پر غلاف کعبہ کو پکڑ کر سینے سے لگائے
گڑگڑا کر دعا مانگنے میں مصروف تھا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس وقت
طواف کعبہ میں مصروف تھے لیکن جب اس بدوی کے دعا کی آواز کانوں تک پہنچی تو
کھڑے ہوگئے اور جب وہ دعا سے فارغ ہوا تو بڑے احترام اور ادب سے اسے بٹھایا
اور دعا کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے آج تک اس طرح کی کوئی دعا کسی
کے منہ سے نہیں سنی ماشاءاللہ اس بدوی کی دعا کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ " اے
خدا تو مجھے اپنے قلیل بندوں میں شامل کرلے" تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے
استفسار کیا کہ یہ قلیل کا لفظ کیوں استعمال کیا آپ نے تو اس بدوی مسلمان
نے قران مجید کی سورہ سبا کی آیت نمبر 13 کے ایک حصے کی تلاوت کی جس میں
اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے کہ ترجمہ کنزالایمان " کم ہیں میرے بندوں
میں شکر کرنے والے " تو اس میں میرے رب ذوالجلال نے کم کے لئے قلیل کا لفظ
استعمال کیا ہے اس لئے میں نے قلیل کا لفظ استعمال کیا واقعی ہمیں بھی اپنے
مالک و مولا سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں اپنے ان لوگوں میں شامل کرے جو
اس کے شکرگزار بندے ہیں اور ہمیں بھی اپنے ان قلیل لوگوں میں شامل کردے اور
اپنا شکرگزار بنائے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں شکرگزاری اور ناشکری کے بے شمار واقعات
قران مجید فرقان حمید میں موجود ہیں جن میں ناشکری کے نقصانات اور شکر کرنے
کے فائدے کا ذکر کیا گیا ہے ناشکری پر ایک چھوٹی سی کہانی اپنی تحریر کا
حصہ بنائوں گا ایک بارہ سنگھا جنگل میں گھاس کھارہا تھا جب اس کو محسوس ہوا
کہ اس کا پیٹ بھر گیا ہے تو وہ پانی کی تلاش میں نکل گیا تھوڑی ہی دور اسے
پانی مل گیا جب اس نے پانی پینے کے لئے اپنا منہ پانی میں ڈالا تو اسے اس
میں اپنا عکس نظر آتا ہے اپنے بارہ سنگھ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتا ہے اور
سوچتا ہے کہ وہ ان بارہ سنگھوں کی وجہ سے تمام جانوروں میں سب سے خوبصورت
اور منفرد نظر آتا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یکایک اس کی نظر اپنے باریک اور پتلی
ٹانگوں پر پڑتی ہے تو وہ بڑا پریشان ہوجاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ کاش
میری ٹانگیں بھی موٹی اور مظبوط ہوتی تو کیا بات ہوتی ابھی وہ اپنی سوچوں
میں گم ہوتا ہے کہ اچانک اسے شیر کی اواز سنائے دیتی ہے اور وہ اپنی جان
بچانے کی غرض سے بھاگنے لگتا ہے اب وہ تیز رفتار سے بھاگنے میں مصروف ہوتا
ہے اور شیر اس کے پیچھے پیچھے ہوتا ہے کہ اچانک بارہ سنگھے کے سینگھ ایک
درخت کی ٹہنیوں میں پہنس کر الجھ جاتے ہیں وہ کوشش کرتا ہے کہ سینگھ نکل
جائیں لیکن وہ نہیں نکلتے وہ ٹانگیں جنہیں وہ پتلا اور باریک کہ رہا تھا ان
ٹانگوں نے اسے یہاں تک پہنچادیا تھا اور وہ سینگھ جنہیں وہ خوبصورت کہ رہا
تھا وہ اس کی جان کے دشمن ہوگئے یہاں اس کی کوشش ناکام ہوئی اور وہاں شیر
نے آکر اسے دبوچ لیا اور کھا گیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یہ بیماری انسانوں کے اندر بھی پائی جاتی
ہے اکثر و بیشتر ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ میرا رنگ کالاہے اگر گورا ہوتا
تو؟ میرا قد لمبا نہیں ہے ہوتا تو ؟ یہ سب معاملات ناشکری کے زمرے میں آتے
ہیں اور اللہ تبارک وتعالی نے ہر انسان کو اپنی مرضی مصلحت اور منشاء سے
بنایا ہے اور اس کی تقسیم اس کی بناوٹ ہمارے لئے بہت بہتر ہے کیوں کہ وہ
اپنے بندے کے لئے وہ ہی کرتا ہے جو وہ بہتر سمجھتا ہے اس رب الکائنات کے ہر
کام میں اس کی کوئی نہ کوئی مصلحت کارفرما ہوتی ہے اس کا شکر ادا نہ کرنے
کی کوئی دلیل کوئی ٹھوس وجہ ہمارے پاس نہیں اس لئے ناشکری سے بچتے رہنا
چاہئے اور ہرحال میں اس کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب کسی عورت کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ
ماں بننے والی ہے تو اب آپ انداہ لگائیے کہ ماں کے شکم میں ایک گوشت کا
لوتھڑا ہوتا ہے اور وہاں سے وہ رب ذوالجلال آہستہ آہستہ اسے مکمل اعضاء کے
ساتھ ایک مکمل انسان کی شکل دیکر دنیا میں بھیجتا ہے لیکن ان 9 ماہ میں
باقاعئدہ سانس لینے اور غذا لینے کا جو انتظام میرا رب ذوالجلال قائم کرتا
ہے کیا اس کا شکر ادا کرنے کے لئے یہ دلیل کافی نہیں ہے یہ تو ماں کے شکم
میں 9 ماہ گزارنے اور مکمل انسانی شکل لیکر دنیا میں انے کی بات ہے لیکن آپ
اندازہ لگایئے کہ جب ہم اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو وہ رب العزت اپنے بندے
کو اپنے پاس بلانے کے لئے اور اس کا استقبال کرنے کے لئےاسے یعنی ہمیں کیا
مقام عطا کرتا کے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب کوئی جانور مرجاتا ہے تو اسے گندگی کے
ڈھیر یعنی کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے جہاں چیل کوے یا گدھ آکر اسے کھاجاتے
ہیں لیکن جب ہماری آنکھ بند ہوتی ہے اور دنیا سے رخصتی کا وقت آتا ہے تو سب
سے پہلے اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ اسے غسل دو یعنی میں نے پاک پیدا کیا
تو یہ میرے پاس پاک ہوکر آئے اس کے بعد اللہ رب العزت اور اس کے حبیب صلی
اللہ علیہ والیہ وسلم کے پسندیدہ رنگ یعنی سفید رنگ کا لباس (کفن ) پہنایا
جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے چہرے کا نور اور روشن ہوجاتا ہے اس کے بعد اللہ
تبارک وتعالی فرماتا ہے کہ جس طرح دنیا میں آنکھ کھولتے ہی اس کے کان میں
اذان دی جاتی ہے بلکل اس طرح اب نماز (نماز جنازہ ) پڑھی جائے اس کے بعد جب
اسے چار کاندھوں پر اٹھا کر لےجایا جاتا ہے تو اس کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ
سب سے آگے ہوتا ہے اور باقی سارے لوگ اس کے پیچھے ہوتے ہیں یعنی آنکھ کے
بند ہونے سے لیکر مٹی کے سپرد کرنے تک کے سارے مراحل میں اس رب العزت نے
اپنے بندے کی عزت توقیر اور مقام و مرتبہ کا کتنا خیال رکھا کیا یہ اس کا
شکر ادا کرنے کے لئے کافی نہیں ہے اگر پھر بھی ہم نہ سنبھلے تو یہ نا شکری
ہوگی اور اس نا شکری کا انجام تو بہت کٹھن ہے بہت سخت ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی نے قران مجید فرقان
حمید کی سورہ النحل کی آیت نمبر 112 میں ارشاد فرماتا ہے " اور اللہ نے
کہاوت بیان فرمائی ایک بستی کہ امان و اطمنان سے تھی ہر طرف سے اس کو روزی
کثرت سے آتی تو اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے لگی تو اللہ نے اسے یہ سزا
چکھائی کہ اسے بھوک اور ڈر کا پہناوا پہنایا بدلہ ان کے کئے کا " ۔ اس آیت
مبارکہ میں صاف طور اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا ہے کہ ناشکری کا انجام
کبھی دنیا میں ہی طاہر ہوجاتا ہے اور کبھی اس کی سزا کا انتخاب آخرت میں
ہوتا ہے بہر حال ناشکری کی سزا ملتی ضرور ہے کتنے لوگ اور کتنی بستیاں آباد
تھیں جہاں اللہ رب العزت کی بیشمار نعمتوں کا نزول ہوتا تھا لیکن جب وہاں
کے لوگوں نے ناشکری کی تو وہ تباہ برباد ہوگئے جیسے اس آیت مبارکہ میں
بتایا گیا ہے۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت
کرتے ہیں کہ سرکار انبیاء صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ
تبارک وتعالی جب کسی بندے کو کوئی نعمت سے نوازتا ہے اور وہ الحمداللہ کہتا
ہے تو اس نے گویا رب العزت کا شکر ادا کردیا اور اگر وہ دوسری مرتبہ
الحمدللہ کہے تو اللہ رب العزت اسے نیا ثواب عطا کرے گا اور جب وہ تیسری
مرتبہ الحمدللہ کہے گا تو اللہ تبارک وتعالی اس کے گناہوں کو معاف کردیتا
ہے اللہ تبارک و تعالی کا شکر ادا کرنے کے تین درجات ہیں ۔پہلا درجہ یہ ہے
کہ بندے کو یہ احساس ہو کہ میں شکر ادا کروں دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس شکر کو
زبان سے بھی ادا کرے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ وہ اس شکر پر خود عمل کرکے
بھی دکھائے اللہ تبارک وتعالی جب کسی کو کوئی نعمت عطا کرتا ہے تو اس سے
شکر ادا کرنے کا بھی مطالبہ کرتا ہے اب وہ رب العالمین اس بات پر قادر ہے
کہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے کو اور زیادہ نعمتیں عطا کردے اور ناشکری
کرنے والے کو عذاب میں مبتلہ کردے اور بیشک اس کا عذاب بڑا سخت ہے۔
میرے محترم پڑھنے والوں نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ زندگی بسر کیجیئے
صبر اور شکر کا دامن کبھی بھی اپنے ہاتھوں سے نہ چھوڑیں نیک کاموں میں اپنا
وقت گزاریں فالتوں اور گناہوں کے کاموں سے بچنے کی ہمیشہ کوشش کریں ہر وہ
کام کریں جس میں اللہ رب العزت کی رضا شامل ہو اور جس سے قرب الہی نصیب ہو
حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا عشق میسر ہو اسی میں دنیا اور آخرت دونوں
کی بھلائی ہے ۔
قیامت تک سجدے میں رہے سر میرا اے خدا
کہ تیری نعمتوں کے شکر کے لئے یہ زندگی کافی نہیں
|