گنگا چوٹی ونٹر اسپورٹس فیسٹیول سے بیجنگ ونٹر اولمپکس تک

ابھی حال ہی میں میرے آبائی علاقے سدھن گلی میں تیسرے گنگا چوٹی ونٹر اسپورٹس فیسٹیول کا کامیاب انعقاد کیا گیا ، جس میں سرمائی کھیلوں کے شائق ایتھلیٹس سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کی پرجوش شرکت نے اسے ایک یادگار ایونٹ بنا دیا۔یہ فیسٹیول نہ صرف سرمائی کھیلوں کی ترقی اور ترویج کے لحاظ سے زبردست سرگرمی ہے بلکہ مقامی علاقے میں "سرمائی سیاحت" کو فروغ دینے کی بھی ایک نئی شروعات ہے۔فیسٹیول کے شرکاء نے جہاں سدھن گلی اور اس سے ملحقہ دیگر علاقوں کی فطری خوبصورتی کو بھرپور سراہا ، وہاں سیاحت سے جڑے دیگر لوازمات اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کا تقاضا بھی کیا ۔

یہاں ، سب سے اہم بات ونٹر اسپورٹس کی اہمیت اور اس سے سامنے آنے والے ثمرات کا ادراک ہے۔اس تحریر کا مقصد بھی یہی ہے کہ کچھ ایسے حقائق بیان کیے جائیں جو سرمائی کھیلوں اور سرمائی سیاحت ، دونوں کی ترقی سے مطابقت رکھتے ہیں۔چین میں قیام کے دوران یہاں گزشتہ برس بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022 کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جس نے پہلی مرتبہ ونٹر اسپورٹس کی اہمیت سے روشناس کروایا۔آج ایک سال کے بعد اگر بیجنگ سرمائی اولمپکس کی کامیابیوں اور مثبت اثرات کا جائزہ لیا جائے تو کئی حیرت انگیز پہلو دیکھنے میں آتے ہیں۔پہلی انتہائی متاثر کن بات ، لوگوں کی سرمائی کھیلوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی ہے اور قارئین کو یہ جان کر تعجب ہو گا کہ بیجنگ سرمائی اولمپکس کی وجہ سے 34 کروڑ سے زائد چینی شہریوں نے سرمائی کھیلوں میں شرکت کی،مطلب اگر ونٹر اسپورٹس کی مناسب تشہیر کی جائے تو لوگوں کی دلچسپی مزید بڑھے گی اور جب لوگ مزید شامل ہوتے جائیں گے تو اس سے جڑے دیگر شعبے بھی ترقی کریں گے ، یوں مقامی عوام کے لیے وسیع اور پائیدار سماجی اور اقتصادی ثمرات لائے جا سکتے ہیں۔

دوسری بات ونٹر اسپورٹس کا انعقاد بہترین انفراسٹرکچر کے بغیر ناممکن ہے۔ چین نے 2015 میں ایونٹ کے انعقاد کی بولی جیتنے کے بعد بہترین انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی، جس میں معیاری آئس رنکس سے لے کر اسکی ریزورٹس تعمیر کیے گئے ، ساتھ ساتھ کوچنگ اور ٹریننگ کے لیے بھی مختلف اہلکاروں کو شامل کیا گیا ، یوں مختلف لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع بھی میسر آئے ۔یہاں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ونٹر اسپورٹس یا سرمائی سیاحت محض کسی ایک سال تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر سال موسم سرما ہو گا ،برف باری بھی ہو گی ، لہذا منصوبہ بندی بھی طویل المیعاد ہونی چاہیے۔

یہاں چین سے سیکھنے کا پہلو یہ ہے کہ اُس نے سرمائی اولمپکس کی چمک دمک کو ماند نہیں پڑنے دیا بلکہ ایسی نت نئی سرگرمیاں متعارف کروائیں جو آج بھی گیمز والے علاقوں کی ترقی کو مستقل آگے بڑھا رہی ہیں۔ان میں سرمائی سیاحت کو نمایاں ترین ترجیح دی گئی اور آج صورتحال یہ ہے کہ بیجنگ کے شہری موسم سرما میں تعطیلات کے دوران انہی مقامات کا رخ کر رہے ہیں جہاں سرمائی گیمز کا انعقاد کیا گیا تھا۔چینی حکام کی جانب سے عمدہ منصوبہ بندی کی بدولت اولمپک وینیوز کو سیاحتی مقامات میں تبدیل کرنے، اولمپک مقامات اور عظیم دیوار چین سے ان کی قربت سے فائدہ اٹھانے اور مقامی کمیونٹیز کے لئے وسیع تر سماجی و اقتصادی ثمرات لائے گئے ہیں۔اسی طرح چین بھر کے ٹھنڈے اور برفیلے علاقوں میں اسکی ریزورٹس میں بھی سیاحوں کی بڑے پیمانے پر آمد میں اضافہ دیکھنے میں آیا کیونکہ پیشہ ور اداروں اورافراد کی جانب سے سرمائی کھیلوں کے سامان، تربیتی سیشنز اور ون ٹو ون نجی کوچنگ سروسز پر بھاری سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

سو خلاصہ یہی ہے کہ گنگا چوٹی ونٹر اسپورٹس فیسٹیول ، مقامی علاقے میں سرمائی سیاحت کے لیے ایک زبردست موقع ہے۔ آئندہ اس ایونٹ کو مزید کامیاب بنانے کے لیے لازم ہے کہ اول تو ، وسیع پیمانے پر اس ایونٹ کی میڈیا تشہیر کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس بارے میں جان سکیں۔ دوسرا ، بنیادی ضرویات جیسے بیت الخلاء ،صفائی ستھرائی وغیرہ کے احسن انتظامات کیے جائیں ، چونکہ ایونٹ میں خواتین بھی شریک ہوتی ہیں اس حوالے سے مناسب انتظامات ہماری سماجی ذمہ داری بھی ہے۔تیسرا ، مقامی لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اپنی مقامی ثقافت کا مظاہرہ کریں چاہے وہ روایتی پکوان کی صورت میں ہوں یا پھر کسی بھی مقامی سوغات کی صورت میں۔چوتھا ، سیاحوں کے لیے کیمپنگ اور اس جیسی دیگر سیاحت دوست سرگرمیاں متعارف کروائی جائیں جس سے یقیناً مقامی لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہو گا۔پانچواں ، ایسے اسپانسرز تلاش کیے جائیں جو مستقل بنیادوں پر گنگا چوٹی ونٹر اسپورٹس فیسٹیول اور معاون سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھیں۔اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ مقامی علاقے کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری آئے گی ،مقامی لوگ اس ایونٹ سے مستفید ہونے کے لیے ہوٹل ،ریستوران ،رہائش سمیت دیگر حوالوں سے قبل ازوقت تیاری کر سکیں گے اور ساتھ ساتھ مقامی ٹیلنٹ کو بھی اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملے گا۔ آخری بات ،حکومتی ادارے اور نجی تنظیمیں تو اس ایونٹ کی پلاننگ اور میزبانی کی ذمہ دار ہیں اور وہ اپنا کام کرنے کے بعد چلی جائیں گی، مقامی لوگوں کو بھی دور اندیشی سے یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اس ایونٹ سے حقیقی معنوں میں کیا ثمرات سمیٹ سکتے ہیں ؟ روزگار کے کیا نئے مواقع تلاش کیے جا سکتے ہیں ؟ اور سب سے بڑھ کر نوجوانوں کی صلاحیتوں سے اس ایونٹ کے ذریعے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔الغرضیکہ ،اسے محض چند دنوں کا تفریحی ایونٹ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ سیاحتی اعتبار سے مستقل آمدن کا ذریعہ بنانا چاہیے۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 618315 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More