پاکستان سپورٹس بورڈ ، دھمکی اور سوالات..
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
بے غیرتی، بے شرمی اور ڈھیٹ پن کی انتہا یہی ہوتی ہے کہ کوئی اگر غلط کام کرے تو اس کیلئے توجیح یا دلیل پیش کرے.عزازیل کوجو فرشتوں کا استاد تھا کو جب اللہ تعالی نے انسان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو بجائے سجدہ کرنے وہ انکار کرگیا اور جب اللہ تعالی نے پوچھا کہ کہ میرے حکم کی تعمیل کیوں نہیں کی تو جواب میں عزازیل دلیل پیش کی کہ انسان مٹی کا بنا ہوا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں اور اس سے بہتر ہوں.بس اس دن سے اللہ تعالی کی ہاں سے عزازیل راندہ درگاہ ہوا اور رہتی دنیا تک جب تک کل من علیہا فان اور یبقی رب ذوالجلال واکرام چاہے گا رہے گا اور پھر اس کے بعد قیامت کے دن اس سے حساب ہوگا. اللہ تعالی اس دن کے سخت حساب سے سب مسلمانوں کو بچائے.
بلاگ کا آغاز بے غیرتی کے الفاظ سے اس لئے کیا کہ ایک صاحب نے گذشتہ روز موبائل فون پر دھمکی آمیز لہجے میں بات کی، پہلے دو ریاستی اداروں کے نام لئے اور پھرجب جواب نہ بن پڑا تو فون بند کردیا موبائل فون کرنے والے کا یہ کہنا تھا کہ آپ پی ایس بی پشاور کے پرویز علی ڈائریکٹر کے بارے میں خبریں نہ دیا کریں. ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں. بہر حال جو فو ن نمبر دیا گیا تھا وہ متعلقہ اداروں تک پہنچ گیا ہے، تھانے کو بھی درخواست دیدی گئی ہیں.وہ اس حوالے سے اپنی کارروائی کریں گے . اور فون کرنے والے کے دھمکی آمیز لہجے کا احترام کرتے ہوئے راقم صرف یہ عرض کرتا ہے.کہ.پی ایس بی پشاور سنٹر میں تعینات مخصوص افراد جو سموسوں پر بکتے ہیں سب کو اپنی طرف سمجھے ہوئے ہیں جو سوال نہیں اٹھائیں گے. نا بھائی نا...یہ سوال تو ہم پہلے بھی اٹھاتے رہیں ہیں اب بھی اٹھائیں گے بلکہ اب زیادہ شد و مد کیساتھ اٹھائیں گے کہ...
عوامی ٹیکسوں پر پلنے والے پاکستان سپورٹس بورڈ کے ملازمین سے اس صوبے کے عوام پوچھنے کا یہ حق رکھتے ہیں کہ گذشتہ کئی سالوں سے پی ایس بی پشاور سنٹر میں ایک سکواش کوچ کو کس کے کہنے پر قائم مقام ڈائریکٹر رکھا گیا ہے جسے نہ مینجمنٹ کا تجربہ ہے نہ سکواش کا.ہاں اسے پشاور کے کارخانو مارکیٹ سے تحفے تحائف اسلام آباد افسران کے گھروں تک پہنچانے کا خوب تجربہ ہے اسی طرح نمک منڈی کے چرسی تکے کھلانے کا بھی اسے خوب تجربہ ہے اور یقینا اسی تجربے کی بنیاد پر وہ قائم مقام ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کررہا ہے.
پی ایس بی ہیڈ کوارٹر میں بیٹھیڈائریکٹرجنرل کیا یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ پی ایس بی جو کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی کا ایک بڑا ادارہ ہے اور جس کا بنیادی کام کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی ہے نہ کے دکانداری اور پیسے کمانا، کیا وہ یہ پوچھنے کی جرات کرسکتے ہیں کہ پی ایس بی پشاور سنٹر کے ہال سے کس نے ٹیبل ٹینس کے قومی اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کوپریکٹس کرنے سے روکا اور انہیں نکالا اور یہی ہال بغیر کسی اشتہار کے ایک پرائیویٹ شخص کو دی گئی اور ابتدائی چھ ماہ تک پی ایس بی پشاور سنٹر اسے مفت میں بجلی فراہم کرتی رہی، اور بعد میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ بجلی فراہم کرتی رہی اور ابھی بھی صرف چیک میٹر پر کام چلایا جارہاہے.حالانکہ بجلی قیمت میں ٹیکسوں کی ادائیگی بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے.اور سوال یہ بھی ہے کہ کس طرح ایک قائم مقام ڈائریکٹر نے جس کے پاس معاہدے کا اختیار نہیں، ایک پرائیویٹ کنٹریکٹر کیساتھ معاہدہ کیا..اور یہ معاہدہ نومبر2022 میں ختم ہو چکا ہے لیکن آج فروری 2023 میں کس کے کہنے پر یہ چل رہا ہے..
پاکستان سپورٹس بورڈ اسلام آباد کے حکام یہ سوال کرنے کے پابند بھی ہیں کہ کس طرح ضم اضلاع کے ایک ویٹ لفٹر اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اتھلیٹکس کے کوچ کس حیثیت میں ان کے پرائیویٹ جیم میں کام کررہے ہیں حالانکہ ایک جگہ پر ڈیوٹی کے بعد دوسری جگہ پرائیویٹ نوکری کیلئے این او سی لینا پڑتی ہے،.
پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر کے حکام و متعلقہ سیکرٹری پشاور سنٹر کے قائم مقام ڈائریکٹر سے یہ سوال بھی تو پوچھ سکتے ہیں کہ پی ایس بی پشاور سنٹر کے تعمیر نو کے بعدچمن سے غائب ہونیوالے چیزیں کہاں پر گئی ہیں. حتی کہ استعمال شدہ کموڈ اور لیٹرین کون لیکر گیا. اور کاغذات میں کیا دکھایا گیا..
چلیں چھوڑیں پی ایس بی ہیڈ کوارٹر کے حکام کو تو یہ پوچھ سکتے ہیں کہ انہیں کس نے بے وقوف بنایا کہ پی ایس بی پشاور سنٹر کے چمن میں حال ہی میں جو تعمیر نو کے سلسلے جو مٹی لاکر کرڈال دی گئی اور اس پر لاکھوں روپے پی ایس بی ہیڈ کوارٹر سے نکال لئے گئے یہ کہہ کر مٹی باہر سے لائی گئی ہیں حالانکہ یہ وہ مٹی ہے جو کنٹریکٹر نے ہاسٹل کے گٹر کیلئے کھودے گئے گڑھے سے نکالی تھی اور یہی مٹی اس چمن پر ڈال کر پی ایس بی ہیڈ کوارٹر کے حکام کو بے وقوف بنایا گیا...
یہی نہیں بلکہ یہ سوال بھی کریں کہ یہاں پر تعینات کس شخصیت کو مختلف سفارتخانوں نے مکمل طور پر بین کیا گیا ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے سکواش کے کھلاڑیوں کو آفیشل لیٹر لکھ کر دئیے تھے کہ یہ سکواش کے میچ کیلئے باہر کیلئے جارہے ہیں اور پھر وہ وہاں غائب ہوگئے اور یہ ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ ہوا.جس کی بناء پر بیلجیم سے لیکر متعدد یورپی ممالک نے ان صاحب کو مکمل طور پر بین کردیا اور اس بارے میں میں ای میل لکھ کر بھیج دی گئی کہ اب ان کے لیٹر نہ کسی کھلاڑی کو نہ تو ویزہ دیا جائے اور نہ ہی اسے ذاتی حیثیت میں کوئی ویزہ دیا جائے.کیا ایسا شخص پی ایس بی پشاور میں اعلی عہدے پر تعینات رکھا جاسکتا ہے.
ویسے پی ایس بی اسلام آباد کے حکام یہ سوال بھی تو کرسکتے ہیں کہ کس طرح بجلی کے پانچ میٹر تار کو پندرہ میٹر تار ظاہر کے ریکارڈ میں سے بھاری رقم نکالی گئی اور اس بارے میں ابھی تک انکوائری جاری ہے.. ویسے اگر ریکارڈ چیک کرنے پر آجائے تو پی ایس بی کے حکام یہ بھی چیک کریں کہ محب اللہ سکواش کورٹ میں سکواش کے کھلاڑیوں کو سکالرشپ میں آنیوالا سامان کون لے جاتا رہا ہے.حالانکہ کئی دہائیوں سے چلنے والے اس کورٹ سے ابھی تک کوئی قومی و بین الاقوامی کھلاڑی نہیں نکل سکا.
چلیں اگر یہ نہیں کرتے تو پی ایس بی حکام یہ پتہ تو کرلیں کہ پی ایس بی پشاور سنٹر کے سکواش کورٹ میں آفیشل سکواش کوچ کون ہے اور اس میں ایک صاحب پرائیویٹ طورپر روزانہ کی بنیاد پر کھلاڑیوں کوسکواش کی کوچنگ کرواتا رہا اور ان سے پیسے وصول کرتا رہا اور اس میں برابر سب کو حصہ جاتا رہا.
چلیں اگر یہ سوال نہیں کرسکتے تو پھر یہ انکوائری تو کرسکتے ہیں کہ کس شخصیت نے براہ راست صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے رقم لی اور اپنے اکاؤنٹس میں رکھی اور یہ کتنی مرتبہ ہوا، حالانکہ قانونی طور پر پی ایس بی اسلام آباد کے ہیڈ کوارٹر کے اکاؤنٹس میں رقم جمع کی جانی چاہئیے تھی. لیکن ایسا نہیں کیا گیا..
چلیں اگر یہ سوال نہیں کرتے تو پھر پی ایس بی پشاور کی انتظامیہ نے نے کس کے کہنے پر ایک سال سے زائد عرصہ تک پی ایس بی پشاور کے ہاسٹل میں ضم اضلاع کا کھیلوں کا سامان رکھا اور کرایہ لیتے رہے جس کے ریکارڈ کا پتہ نہیں.اور بعد میں ایک لڑکی کا سکینڈل آنے پر سامان مجبورا نکالنا پڑا. کیا اس کی کوئی انکوائری کرے گا.. ویسے سوالات تو بہت سارے ہیں جو اب انشاء اللہ مزید اٹھیں گے.اور ہر فورم پر اٹھیں گے انشاء اللہ #PSB #PESHAWAR #kpk #kp #kpsports #kikxnow #digitalcreator #pakistan #dgsports
|