کمشنر راولپنڈی ڈیویژن لیاقت علی چٹھہ نے بدھ کے روز
کلرسیداں کا دورہ کیا ہے ان کے دورے کا مقصد سرکاری اداروں کے حوالے سے
عوامی شکایات سننا تھا لیکن وہ اسوقت بلکل حیران و پریشان ہو کر رہ گے جب
وہ اپنی کھلی کچہری کے مقام پر پہنچے تو وہاں پر کوئی شکایت کنندہ موجود
نہیں تھا محکمہ مال کا عملہ پٹواری اور ان کے منظور نظر صرف محدود میں
افراد وہاں پر موجود تھے انہوں نے زمہ داران سے دریافت کیا کہ عوام اس کھلی
کچہری میں کیوں نہیں آئے ہیں جس پر اسسٹنٹ کمشنر اعجاز اعوان و دیگر کوئی
تسلی بخش جواب نہ دے سکے جس پر انہوں نے اظہار برہمی کیا ہے اس پورے معاملے
میں جو سب سے زیادہ پریشانی والی بات ہے وہ یہ کہ کارکردگی کے لحاظ سے ضلع
راولپنڈی کے ٹاپ ترین اے سی کلرسیداں نے یہاں پر لاپرواہی و غفلت کا مظاہرہ
کیوں کیا ہے وہ عوام کو اکٹھا کرنے میں ناکام کیوں رہے ہیں حقیقت میں اس
سارے کام میں ان کا ذاتی طور پر کوئی قصور نہیں ہے وہ اپنے ہی ما تحت محکمہ
مال کے عملہ کے جھانسے میں آ گئے جنہوں نے خود یہ افواہ پھیلا رکھی تھی کہ
کمشنر کھلی کچہری لگانے نہیں ٓا رہے ہیں بلکہ ان کا یہاں پر صرف وزٹ ہے وہ
عوامی شکایات نہیں سنیں گے یہ افواہ عوام کے کانوں میں باقاعدہ ایک منظم
طریقے سے پھیلائی گئی جس وجہ سے عوام نے وہاں کا رخ نہیں کیا ہے کلرسیداں
کے عوام کی خوش قسمتی تھی ہے کہ کلرسیداں میں پہلی اور شاید آخری مرتبہ
کوئی آفیسر ایسے کھلی کچہری لگانے کیلیئے تشریف لائے تھے جو بیک وقت کان ،
آنکھیں اور دل و دماغ سے کام لینے والے تھے ورنہ یہاں پر بے شمار کھلی
کچہریاں لگتی ہیں جن میں پولیس ،محکمہ مال اور دیگر امور سے متعلق ہوتی
تھیں لیکن سب فرضی کاروائیاں ثابت ہوتی رہی ہیں عوامی مفاد میں کوئی بھی
ثابت نہیں ہوئی ہے لیکن اگر کمشنر کی اس کھلی کچہری کو ایکی منظم سازش کے
تحت ناکام نہیں کیا جاتا تو یہ کھلی کچہری کلرسیداں کی تاریخ میں یاد رکھی
جاتی اس میں عوامی مسائل بھی موقع پر حل ہوتے اور بہت سے غیر زمہ دار
افسران کا رگڑا بھی نکلتا خاص طور محکمہ مال کاقبلہ وہ ضرور درست کر جاتے
جس کمشنر کو بغیر عوامی مسائل سنے تمام معاملات کا علم ہو گیا اگر عوام کو
ان سے ملنے دیا جاتا تو عوام ساری عمر یاد رکھتے کہ انہون نے کسی آفسر کے
سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا تھا لیکن شاید اسی خوف کی وجہ سے ہمارے کلرسیداں
کے بھولے بھالے عوام کو اس سے مستفید نہیں ہونے دیا گیا ہے اگر یہ تما
باتیں اسسٹنٹ کمشنر کے علم میں تھیں تو وہ واقع ہی قصور وار ہیں لیکن ایک
قوی اندازے کے مطابق ان کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا ہے اور وہ کھلی کچہری کو
ناکام بنانے والے منصوبے سے بے خبر رہے ہیں ہر شے پر نظر رکھنے والے ، عوام
کے چہروں کے تاثرات پڑھنے واے اے سی اگر اس بات سے بے خبر تھے تو یہ بھی ان
کا قصور ہے انہوں نے بذات خود تمام معاملات پر نظررکھنی تھی ان کے پاس بڑا
اچھا سٹاف بھی موجود تھا وہ ان کی مہارت سے کیوں فائدہ حاصل کرنے میں ناکام
رہے ہیں حالنکہ ان کو تو کمشنر سے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہونا چاہیئے تھا
انہوں نے تو کلرسیداں کو اس پوزیشن پر لا کر چھوڑ دیا ہے جہاں پر بہتری
بلکل قریب تھی صرف اگلے چند ماہ میں یہاں پر ہر طرف قانون پر عمل درآمد
ہوتا دکھائی دیتا یہ سب ان کی بہترین کارکردگی کی گواہی تھی پھنسنا تو
انہوں نے تھا جنہوں نے پچھلے کئی برسوں سے غریب عوام کو ٹرک کی بتی کے
پیچھے لگا رکھا ہے انہوں نے اپنے آپ کو بچانے کیلیئے اے سی کو قربانی کا
بکرا بنا دیا ہے اور خود بلکل محفوظ رہے ہیں اور اے سی بھی ان کی باتوں میں
آ گئے کمشنر راولپنڈی کا اس بات پر اصرار کہ یہاں کے عوام کو کوئی مسئلہ ہی
نہیں اپنی جہگہ بلکل درست تھا اگر ہمارے عوام کو اس کھلی کچہری کی افادیت
سے محروم نہ کیا جاتا تو شکایتوں کے انبار لگ جاتے اور اﷲ پاک کے فضل و کرم
سے شکایات کا حل بھی نکلتا کلرسیداں کے عوام کو بہت مفید موقع سے دور کر
دیا گیا ہے ایسے مواقع بار بار نہیں ملتے ہیں اس سے قبل جتنے بھی آفیسرز نے
یہاں پر کھلی کچہریاں لگائی ہیں ان میں سب اچھا کی رپورٹ ہوتی تھی لیکن
کمشنر نے محکمہ مال ، ٹی ایچ کیو کلرسیداں،اے سی آفس سے بے شمار غلطیوں
کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے اگر اس زہین آفیسر کو عوام سے ملنے دیا جاتا تو
کیا عوام کے مسائل حل نہ ہوتے ضرور ہوتے عوام کو سمجھ لگ جاتی اورعوام
کیلیئے مسائل پیدا کرنے والوں کی آنکھیں بھی کھل جانی تھیں اس سارے معاملے
میں کلرسیداں کے عوام کو دو بڑے نقصان ہوئے ہیں ایک تو وہ کمشنر کی مہارت
سے بھر پور کھلی کچہری سے محروم ہو گے ہیں اور دوسرا خوش قسمتی سے ایک طویل
عرصے کے بعد کوئی کام کے اسسٹنٹ کمشنر ہمیں نصیب ہوئے تھے ان سے بھی ہاتھ
دھونا پڑا گیا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کمشنر دوبارہ کلرسیداں میں کھلی
کچہری رکھیں دورسرا پہلی کچہری کو ناکام بنانے والے زمہ داران کو ڈھونڈیں
جو جو سرکاری اہلکار اس کی ناکامی کا باعث بنے ہیں ان کا تعین کیا جائے
سارا قصور اے سی کا نہیں ہے اس کے پیچھے دیگر سرکاری افراد کے بھی ہاتھ کار
فرما رہے ہیں اے سی تو بس خود اچھے ہونے کی باعث دوسرے ساتھیوں کو بھی اچھا
سمجھ بیٹھے تھے جس وجہ سے اپنا سب کچھ لٹابیٹھے ہیں اور اس میں عوام کا
کوئی قصور نہیں ہے عوام کو کمشنر کی دوبارہ کھلی کچہری کا شدت سے انتظار
رہے گا بہر حال ھو بھی ہوا ہے اس میں نقصان ہمیشہ کی طرح عوام کا ہی ہوا ہے
|