ٍ انسان کی جبلت ہے کہ وہ آرزو کرتا ہے ،آرزو انسان
کومتحرک رکھتی ہے ۔انسان کی پہلی آرزو من پسند زندگی ہے لیکن ہم بطور انسان
یہ بھول جاتے ہیں جب ہماری پیدائش ہماری مرضی سے نہیں ہو سکتی ، ہم مرضی سے
مرنہیں سکتے تو زندگی مرضی کے مطابق کیسے ہو سکتی ہے ،ہم سے پہلے بھی اس
دشت بے اماں سے یہی آرزوئیں لیے کئی کارواں گزرے اور خاک ہوئے ۔ہم چاہتے
ہیں کہ زندگی تمام آسائشوں کے ساتھ پر سکون ایک ہی جیسی ہمیشہ چلتی رہے ،
ہم مجموعی طور پر تبدیلی پسند نہیں کرتے اوراگر تبدیلی چاہتے بھی ہیں تو وہ
تبدیلی چاہیے جو ہماری مرضی کی ہوجس میں ہمارا فائدہ ہو ہم یہ نہیں سمجھتے
کہ خالق کی بنائی کائنات میں کچھ بھی ایک سا کبھی نہیں رہتا ایک کی مشکل
دوسرے کی آسانی ہوتی ہے۔آسانیاں مشکلیں،دکھ درد زندگی کا حصہ ہوتے ہیں،یہاں
مستقل کچھ نہیں ہے ، کائنات ایک حال پر نہیں ہے ،وقت بدلتا ہے ،ہمارا گردو
نواح بدلتا ہے ۔قدرت نے کائنات کا حسن تضاد میں رکھا ہے، موت سے زندگی ہے
صحت سے بیماری ہے ، پروردگار کے بنائے سسٹم میں کوئی بھی پرزہ ساکن نہیں،
خالق نے لیل و نہار کی تخلیق کی اس لیے کہ ہم سمجھ جائیں کے مستقل کچھ نہیں
ہے خوشی ہے تو خوشی کے باطن میں غم ہے ،ہم پھر بھی سمجھ نہیں پا رہے کہ
زندگی خواہشوں کے مطابق نہیں ہو سکتی۔
حاصل لاحاصل انسان کے لیے ہی ہیں ،غم یا خوشی تو اپنی کفیات کا نام ہے ۔تضادسے
ہی زندگی خوبصورت ہے مگر تضاد کو سمجھنے اس کا سامنا کرنے کے لیے بڑا حوصلہ
چاہیے بڑادل چاہیے ۔زندگی بدلتے ہوئے حالات و اقعات کا نام ہے یہاں ابد کچھ
بھی نہیں ہے جس مقام کے بعدموت نہ ہو وہ ابد ہے ہم انسان ہیں تو پیش آنے
والے حالات اچھے یا برے بھی ہمارے لیے ہیں ہم آسمان کی وسعتوں پر قیام نہیں
کر سکتے ہمارا ٹھکانہ زمین ہے ۔آرزو کرنا غلط نہیں آرزوجینے کا سبب پیدا
کرتی ہے لیکن آرزو کے پورا نہ ہونے سے اس سے مایوسی گناہ ہے یعقوب علیہ
السلام کو خبر نہیں تھی کہ بیٹے کی ملنے کی آرزو کیا حالات لے کے آنی والی
ہے۔مطمئن رہیں خدا بزرگ و برتر پر توکل کریں وہی ذات ہے ساکن وہی ابد ہے ۔خدا
تعالی ہمارے دلوں کو ہمارے حاصل پر مطمئن فرمائے۔آمین۔۔ |