اُردو جو کہ کہنے کو تو ہماری قومی زبان ہے‘ مگر حقیقت
میں یہ ہر جگہ بے توقیر ہے‘ اُردو کوئی غیر اہم زبان ہے نہ ہی نئی زبان
ہے۔اُردو کے حوالہ سے سید احتشام حسین‘اُردو کی کہانی میں لکھتے ہیں: ”ہم
جس آسانی سے اپنی زبان بول لیتے ہیں اِس سے بہت کم یہ خیال ہوتا ہے کہ اِس
زبان کے بننے اور شروع ہونے کتِنا وقت لگا ہو گا کیونکہ کوئی زبان اچانک
نہیں شروع ہو جاتی‘دھیرے دھیرے بنتی ہے۔ مسلمان جب یہاں آئے تو وہ کوئی نہ
کوئی زبان ضرور بولتے رہے ہوں گے اور جن لوگوں میں آئے وہ بھی اپنی زبان
رکھتے ہوں گے۔ آنے والوں میں عرب‘ ایرانی‘افغانی‘ ترکستانی‘مُغل‘ ہر قسم کے
لوگ تھے‘یہاں جن جن جگہوں پر وہ لوگ گئے‘وہاں الگ زبانیں اُن کو ملیں۔ یہ
تو تم سمجھتے ہی ہو کہ جو لوگ باہر سے آئے تھے وہ کم ہونے کی وجہ سے یہاں
کے لوگوں پر اپنی زبان لاد نہیں سکتے تھے بلکہ اپنی ضرورت کی وجہ سے یہیں
کی بولی بولنے پر مجبور تھے وہ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے تھے کہ یہاں کی
بولیوں میں اپنے کچھ لفظ مِلا دیں‘اِس طرح کچھ مِلاوٹ ہوئی مگر اصل زبان
یہیں کی رہی۔
پہلے پہل مسلمان سندھ میں آئے‘ یہ آٹھویں صدی عیسوی کی بات ہے اُنھوں نے
سندھ پر قبضہ کر لیا مگر اِدھر اُدھر زیادہ پھیل نہ سکے‘اِس لیے وہاں جو
نئی سندھی زبان بن رہی تھی اُس پر اُن کا کچھ اثر پڑا، مگر کوئی نئی زبان
نہیں بنی۔ پھر دسویں اور گیارھویں صدی میں مُسلمان بڑی تعداد میں درّہ خیبر
کے راستے سے آنے لگے اور سارے پنجاب میں پھیل گئے اور قریب قریب دوسوسال تک
اِن میں اور وہاں کے بسنے والوں میں میل جول بڑھتا رہا چونکہ ہمارے پاس اُس
وقت کی زبان کے نمونے موجود نہیں ہیں اس لیے یہ بتانا مُشکل ہے کہ وہاں کی
زبان پر ایک دوسرے کے میل جول سے کیا اثر پڑا‘ اِسی اثر کی وجہ سے بہت سے
لوگوں کا خیال ہے کہ جس کو ہم اُردو کہتے ہیں وہ پنجاب ہی میں پیدا ہوئی‘
یہ بات کچھ کچھ صحیح ہے کہ شروع میں ہم کو اُردو میں پنجابی کا اثر ملتا ہے
مگر صحیح بات یہ ہے کہ جس طرح پنجابی زبان بن رہی تھی اُسی طرح دِلّی کے
پاس کی بولیوں میں مل کر اُردو بھی بن رہی تھی اور جب دِلّی ہی میں
دارالسلطنت بن گیا تو ہر بولی کے بولنے والے وہاں آنے لگے۔ قرب و جوار کی
سب بولیاں ایک دوسرے سے مِلتی جُلتی تو تھیں ہی‘یہاں اور زیادہ میل ہوا،
اِس لیے شروع میں کئی اثر اُردو میں دِکھائی دیتے ہیں۔ دِلّی اور اُس کے
پورب میں جو بولی بولی جاتی تھی اس کو کھڑی بولی کہا جاتا ہے‘ دِلّی کے پاس
والی اِسی کھڑی بولی نے دھیرے دھیرے ایسا رُوپ دھار لیا کہ اِس میں ضرورت
کے مطابق فارسی‘ عربی‘ترکی لفظ شامِل ہو گئے اور فوجوں کے ساتھ پھیلنے لگی۔
یوں ہم آسانی کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ اُردو زبان کھڑی بولی کے اندر نِکھر
کر ایسی زبان بن گئی جس میں تھوڑے ہی دِنوں میں شعر لِکھے جانے لگے اور
کِتابیں تیار ہونے لگیں۔
تاجر بھی زبان اپنے ساتھ لے جاتے تھے دِلّی سے جو حاکم دُور دُور بھیجے
جاتے رہے ہوں گے۔ پھر مذہبی کام کرنے والے صوفی لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ
جاتے تھے اور عام لوگوں کو اپنی بات سمجھاتے تھے اِس لیے وہ زبان جو مرکز
میں یعنی دِلّی میں بولی جانے لگی تھی وہ فوجوں، تاجروں، حاکموں اور صوفی
فقیروں کے ساتھ ملک کے مُختلف حِصّوں میں پہنچنے لگی۔
دِلّی کے بادشاہ علاؤ الدّین خلجی نے دکنی ہندوستان کو جیت لیا اور تیرھویں
صدی میں دِلّی کا اثر دکن میں کرنا ٹک تک اور پورپ میں بنگال تک پھیل گیا
تھوڑے دِنوں کے بعد جب تُغلق حکومت قائم ہوئی تو زبان کے بننے اور عام ہونے
کے لیے کچھ اور وقت بھی مِلا اور دِلّی کا اثر بھی بڑھا۔ سب سے زیادہ
دِلچسپ بات یہ ہوئی کہ مُحمد تغلق نے ۱۳۲۷ میں اپنا دارالسلطنت دِلّی سے
ہٹا کر دیوگری یا دولت آباد کر دیا اور دِلّی کے بسنے والوں کو حکم دیا کہ
سب کے سب دولت آباد چلے جائیں۔ بادشاہ کا حکم تھا‘ سب لوگ روانہ ہو گئے‘
اِس میں امیر‘غریب‘ کساِن‘مزدُور‘کاری گر‘تاجر‘ حاکم‘ محکوم‘ بوڑھے‘جوان سب
شامِل تھے‘ یہ اپنا سامان لے گئے ہوں یا نہ لے گئے ہوں اپنی بولی اور اپنی
زبان تو ضرور ساتھ لے گئے ہوں گے، اِس طرح دکن بھی اس بولی کا ایک مرکز بن
گیا جو اتّری ہندوستان میں بولی جاتی تھی۔
ابھی چودھویں صدی آدھی بھی نہیں بیتی تھی کہ دِلّی کی سلطنت کمزور ہو گئے
اور دکن میں ایک نئی حکومت قائم ہو گئی۔ یہ راج بہمنی راج کہلایا اِسی طرح
گجرات میں بھی ایک الگ راج کی بُنیاد پڑی۔ اِن جگہوں پر اتّری ہندوستان سے
صوفی اور فقیر گئے اور عام لوگوں کی بولی میں اپنے دِل کی بات کہنے لگے،
اِسی زمانے میں اتّری ہندوستان کی دوسری زبانوں اور بولیوں میں بھگتی کے
گیت گائے گئے اور راجاؤں کی تعریف میں خوب نظمیں لِکھی گئیں‘اور تقریباً
تمام نئی زبانوں میں اَدب پیدا ہونے لگا۔
مسلمان ہندوستان میں آئے تھے وہ یہیں رہ پڑے‘اِسی دیش کو اُنھوں نے اپنا
دیش سمجھا، یہیں پیدا ہوئے‘یہیں جیے اور یہیں مرے‘ یہیں کے حالات نے اُنھیں
بادشاہ اور فقیر بنایا۔ اُنھوں نے بادشاہی بھی کی اور فقیری بھی۔ بادشاہ بن
کر بھی اُنھوں نے یہیں کی زبان سے کام لیا اور فقیر بن کر بھی یہیں کی بولی
بولے۔ اُس وقت تک اُردو کی کوئی ایسی شکل نہیں بنی تھی جس سے ہم اُس کو
پہچان لیں‘ اِس لیے اُن کی بولی کبھی کھڑی بولی یعنی ہندوستانی سے مل جاتی
ہے‘ کبھی برج بھاشا سے‘اور کبھی کئی بولیاں ملی ہوتی ہیں بہر حال امیر
خُسرو کو ہندی والے اپنا کَوی سمجھتے ہیں‘ اُردو والے اپنا شاعر اِن کی دو
پہیلیاں پڑھ کر تم کو تیرھویں اور چودھویں صدی کی دِلّی کی زبان کا اندازہ
ہو گا“۔اُردو بہت قربانیوں کے بعد ہم تک پہنچی ہے‘ہمیں اس کی قدر کرنی
چاہیے‘ہمیں اپنی زبان پر فخر ہونا چاہیے۔
|