میں روزانہ کی طرح جیسے ہی اپنے آفس کی کار پارکنگ میں
پہنچا ابھی میں کار سے اترا بھی نہیں تھا کہ ایک نوجوان تیز ی سے میری کار
کی طرف بڑھا اس کی بے چینی اور بے قراری کی وجہ سے میں بھی جلدی سے باہر
نکلا اور اس کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا کہ کیا بات ہے تو اس نے سلام
کے بعد ایک بہت بڑی جیپ نما سیاہ جہازی گاڑی کی طرف اشارہ کیا کہ اس گاڑی
میں میرے مالک بیٹھے ہیں اور وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ مالک پورے غرور اور
تکبر سے گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا کیونکہ گرمی کا موسم تھا اِس لیے وہ گاڑی
کی آرام دہ نشست پر ACلگا کر بیٹھا تھا چند لمحوں کے لیے بھی وہ اپنے آرام
کو خراب نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ایک لمحے کے لیے بغاوت اور انکار کی لہر سے
اٹھی اور میرے دماغ کے سرکٹ کو ہلا کر چلی گئی یہ لہر یا کیفیت اکثر ایسے
امیروں اور متکبروں کو دیکھ کر میرے جسم کے کئی سرکٹ ہلا دیتی ہے لیکن جلد
ہی میں نے اِس باغی لہر کو قابو کیا اور اس امیر زادے کی گاڑی کی طرف بڑھا
۔ ڈرائیور نے دوڑ کر دروازہ کھولا اور میں اس امیر زادے کی ساتھ والی آرام
دہ اور گداز نشست پر بیٹھ گیا باہر درجہ حرارت بہت گرم تھا جبکہ جاپانی
گاڑی کے اندر کا ماحول بہت Coolاور آرام دہ تھا ۔ سیٹ پر بیٹھنے کے بعد میں
اس امیر زادے کی طرف متوجہ ہوا جو سپاٹ چہرے سے میری طرف دیکھ رہا تھا سلام
دعا کے بعد میں نے اس سے پوچھا فرمایے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں تو
بولا بھٹی صاحب میرے کسی دوست نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اگر آج شام تک
میرا کام نہ ہوا تو میں خود کشی کر لوں گا اور میری موت کے ذمہ دار آپ
ہونگے ۔میں اس کی اِس دھمکی کے لیے بلکل تیار نہ تھا۔ میرے چہرے اور آنکھوں
کی فطری شائستگی اور شفقت کی جگہ تحیر کے بہت سے تاثرات ابھر آئے ۔ لیکن
پھر بھی میں نے اخلاق اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور نرم لہجے
میں اس سے پوچھا کیو ں جناب میرا کیا قصور ہے جو آپ خود کشی کرنا چاہ رہے
ہیں اور آپ کس طریقے سے مرنا چاہتے ہیں تو وہ بولا میں سمندر میں ڈوب جاں
گا ۔ جناب خود کشی کی وجہ کیاہے تو امیر زادہ بولا میرے والد صاحب مجھے ہر
ماہ خرچہ دے دیتے ہیں وہ کوئی کاروبار کیوں نہیں کراتے کوئی فیکٹری لگا کر
کیوں نہیں دیتے ۔اس سے گفتگو کے بعد جلد ہی میں جان چکا تھا کہ یہ ڈپریشن
کا مریض ہے اور بات بات پر مرنے کی دھمکی دے کر ماں باپ سے اپنی فرمائشیں
پوری کرتا ہے ۔ جب وہ بول چکا اپنے والد صاحب کے خلاف زہر اگل چکا تو میں
بولا جناب خود کشی کے لیے سمندر ہی کیوں یہ کا م تو مینارِ پاکستان سے کود
کر یا زہر کی گولیاں کھا کر بھی ہو سکتا ہے تو وہ بولا مجھے اِن کاموں سے
ڈر لگتا ہے یعنی وہ خود کشی کے لیے بھی اپنی مرضی چاہ رہا تھا ۔ مجھے بھی
وہ ڈرا دھمکا کر یہ چاہ رہا تھا کہ اس کا والد سارا کاروبار اس کے نام لگا
دے ۔ جب کہ اس کا لباس گھڑی موبائل اور گاڑی بتا رہی تھی کہ اس کے والد
صاحب نے اس کی زندگی کی تمام آسائشیں دے رکھی ہیں ۔ وہ کافی دیر تک اپنے
والد صاحب بیوی ماں اور بہن بھائیوں کے خلاف زہر اگلتا رہا اور میں خاموشی
سے اس کی بکواس سنتا رہا جب وہ اپنی بھڑاس نکال چکا تو مجھے خود کشی کی
دھمکی دیتا ہوا چلا گیا۔ اِس امیر زادے کا رونا مایوسی اور خود کشی کی
دھمکی کے بعد مجھے اپنے گاں کا وہ پہلوان یاد آگیا ۔ چند ماہ پہلے مجھے پتہ
چلا کہ پہلوان صاحب بیمار ہو گئے ہیں پہلوان صاحب ایک شاکر اور زندہ دل
آدمی تھے میں جب کبھی بھی ملا انہوں نے ہر بات پر اﷲ تعالی کی نعمتوں کا
شکر ادا کرنا ۔اِن کی گفتگو اور کمپنی زندگی سے بھر پور ہوتی تھی ۔ لہذا
میں ان سے ملنے ہسپتال پہنچ گیا مجھے باہر ہی اس کا بیٹا مل گیا اس نے
بتایا کہ والد صاحب کا جگر کام کرنا چھوڑ چکا ہے ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے
اور پہلوان صاحب زندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہیں مجھے یہ سب سن کر بہر دکھ
ہوا انہی باتوں کے دوران ہم پہلوان صاحب کے کمرے میں داخل ہو ئے جہاں پر
پہلوان صاحب بے شمار نالیوں اور نلکیوں میں جکڑے نظر آئے ان کا پیٹ پانی سے
بھر چکا تھا اور پھولا ہوا تھا چہرے پر صحت کی سرخی اور تازگی کی جگہ سیاہی
آچکی تھی ۔ زندگی کے تاثرات نہ ہونے کے برابر تھے ۔ میری آنکھیں ایسے کسی
منظر کے لیے بلکل تیا ر نہیں تھیں اِس لیے میں غم زدہ حیرت و استعجاب میں
ڈوبا کسی سنگی مجسمے کی طرح پہلوان صاحب کو دیکھ رہا تھا ۔ ڈاکٹر اور نرسیں
بے دردی سے اس کو انجیکشن اور ڈرپس لگا رہے تھے لیکن پہلوان صاحب کسی بھی
درد یا تکلیف کا اظہار کئے بغیر آرام سے لیٹے ہو ئے تھے ۔ میں حیران تھا کہ
پہلوان کسی درد یا تکلیف کا اظہار کیوں نہیں کر رہے مجھے لگا شاید پہلوان
صاحب بے ہوش ہو چکے ہیں لیکن جب ڈاکٹر اور نرسیں اپنا کام وغیرہ کر کے چلے
گئے تو پہلوان صاحب کے کان میں اس کے بیٹے نے میرا نام لیا توپہلوان صاحب
نے فوری اپنی آنکھیں کھولیں اور بولے پروفیسر صاحب کیا حال ہے ۔ شدید
بیماری ڈاکٹروں کے جواب دے دینا بیماری کا آخری درجہ ، لیکن اِس کرب ناک
کیفیت سے دو چار ہو نے کے باوجود بھی پہلوان صاحب کے چہرے آواز اور لہجے کی
شائستگی بر قرار تھی ان کے ہونٹوں پر مخصوص شفیق تبسم ابھر آیا جن کو اﷲ نے
مسکراہٹ کی اسی کرامت دے رکھی ہو اس سے بڑا شاکر اور ولی کون ہو گا۔ پہلوان
صاحب کو مسکراتا دیکھ کر میرے بکھرے اعصاب نارمل ہوئے اور میں ان کے پاس
پڑے بینچ پر بیٹھ گیا ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور محبت بھر ی آواز
سے پوچھا پہلوان جی کیا حال ہے مولا کا کرم ہے ستے خیراں نیں وہ اپنے مخصوص
پنجابی لہجے میں بولے بیماری کی آخری سٹیج اور پہلوان صاحب کا اظہار تشکر ،
مجھے حیرت زدہ خوشی نے گھیر لیا میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں
فرشتوں سی روشنی اور پاکیزگی کا تاثر شدید ہو تا جا رہا تھا ۔ اِس حالت میں
بھی شکر ۔ میں نے اگلا سوال کیا پہلوان جی جب ڈاکٹر صاحب اور نرسیں آپ کو
انجیکشن اور ڈریپس لگا رہے تھے تو آپ نے ایک بار بھی درد یا تکلیف کا اظہار
نہیں کیا آپ کئی دن سے کچھ بھی نہیں کھا رہے پانی کاقطرہ بھی آپ کے حلق سے
اترے تو باہر آجا تا ہے آپ کا پیٹ بار بار پانی سے بھر جاتا ہے اور تکلیف د
ہ مرحلے کے بعد یہ پانی ڈاکٹر نکالتے ہیں اور آپ کو بلکل بھی درد نہیں ہو
رہا اور بیماری کی شدید ترین حالت میں بھی آپ اﷲ کا شکر ادا کر رہے ہیں
تومیری آنکھیں آنسوں سے بھیگ چکی تھیں میں بھیگی دھندلائی آنکھوں سے پہلوان
جی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ پہلوان صاحب نے میری طرف دیکھا اور بولے پروفیسر
صاحب میری عمر 65سال ہے صرف 10دن پہلے سے جب میں بیمار ہوا ہوں تو اس سے
پہلے 65سال میرے منہ سے جو بھی دعا اور خواہش نکلی سوہنے رب نے پوری کی
مجھے زندگی کی ہر نعمت سے نوازا اور آج اگر تھوڑی سی بیماری دی ہے تو رونا
شروع کر دوں جس رب نے ہر خوشی دی اب اس کی تھوڑی سی بیماری پر ناشکری کیسی
میں اﷲ تعالی کی ہر عطا اور آزمائش پر کل بھی راضی تھا اور آج بھی اور آنے
والے دنوں میں بھی رہوں گا ۔ میں پہلوان صاحب کا اظہار تشکر دیکھ کر
شرمندگی اور ندامت کے سمندر میں غرق ہو چکا تھا ۔ مجھے لگا میرے سامنے ایک
زندہ ولی لیٹا ہوا ہے میں نے پہلوان صاحب کے ہاتھ کو چوما اپنے سر پر رکھا
اور کمرے سے باہر نکل آیا پہلوان صاحب آسمان سے بھی بلند اور میں خود کو
مٹی کا کیڑا سمجھ رہا تھا ۔ ہر روز جب کوئی بے زار شخص مجھے مایوسی اور خود
کشی کی دھمکی دیتا ہے تو مجھے پہلوان صاحب کا تشکر بھرا نورانی چہرہ یاد
آجا تا ہے ۔
|