ڈی ایس او کا متنازعہ امتحان ، میرٹ کا قتل عام
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کا پبلک سروس کمیشن کے عہدے کیلئے دیا جانیوالا امتحان متنازعہ ہو چکا ہے کیونکہ انٹرنل پیپر جو ایم سی کیوز پر مشتمل ہے اسی شام سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا جس دن امتحان ہوا . سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالے ڈی ایس او کے امتحانی پیپر جو وائرل ہیں میں ایک طرف پیپر زمین پر پڑا ہے اور اسکی تصویر نکال دی گئی ہیں جبکہ بعض جگہوںپر لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اور اس کی تصاویر لی گئی ہیں اور لولوں کے انگوٹھے بھی اس میں صاف نظر آرہے ہیں.یہ سال 2021 میں دئیے جانیوالے ایڈورٹائزمنٹ کا امتحان تھ جو سال 2023 میں ہوا .جس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سرکار کے کام کتنے "تیز رفتاری" سے ہوتے ہیںپشاور میں دو مختلف سنٹرز پر امیدواروں نے امتحانات دئیے. بیشتر امیدواروں کا یہ موقف ہے کہ جیسے ہی وہ پیپر دیکر نکلے اسی وقت یہ پیپر سوشل میڈیا پر وائرل تھا.
اب سوال یہ ہے کہ جب امیدواروں سے موبائل فون لیا جاتا ہے اور انہیں امتحان دینے کیلئے چھوڑا جاتا ہے تو پھر اس پیپر کو آﺅٹ کس نے کروایا ، جس طرح سے یہ وائرل ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسے دو ہی اداروں سے نکالا جاسکتا ہے یا تو پبلک سروس کمیشن ہی اس میں خود ملوث ہے یا پھر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ اس معاملے کی ذمہ دار ہے.لیکن ابھی تک اس پر خاموشی ہی ہیں.امتحان دینے والے بعض امیدواروں کے مطابق سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے فزیکل ایجوکیشن کے امیدواروں کیساتھ ساتھ اس میں سوشل سائنسز کے امیدواروں کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے تعلیمی قابلیت میں تبدیلیاں کی اور یہ سب کچھ مخصوص افراد کو اس امتحان میں لاکر انہیں گریڈ سترہ میں تعینات کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے. کسی حد تک امیدواروں کی یہ شکایت بھی ٹھیک ہے کہ کیونکہ بعض امیدواروں کو جو ابھی بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں "وڈے" افسران کے رشتہ دار ہیں اور گڈ بک میں شامل ہیں انہیں ابھی سے مبارکبادیں دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ " کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے"کیونکہ تعلیمی قابلیت میں تبدیلی اور پھر آخر میں پیپر آﺅٹ ، یہ وہ چیزیں ہیں جو کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ بتا دیتی ہیں.
پبلک سروس کمیشن خیبر پختونخواہ نے اس معاملے پر ابھی تک نوٹس ہی نہیں لیا ، حالانکہ اس سے متعلق خبریں زبان زد عام ہے جبکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے ڈائریکٹر جنرل کا یہ موقف ہے کہ یہ امتحان پبلک سروس کمیشن نے لیا ہے اور وہی اس کا رسپانس دے سکتی ہے اور پیپر آﺅٹ ہونے سے متعلق انہیں کچھ معلومات ہی نہیں ، کسی حد تک ان کی بات بھی ٹھیک ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اسی طرح کی باتیں ان کے اپنے ذاتی کام میں نکلتی تو پھر کیا وہ بھی اس طرح کہتے ہیں کہ یہ دوسرے ڈیپارٹمنٹ کا کام ہے. لیکن چونکہ یہاں پر تو ذاتی مفاد الگ ہوتا ہے اور " مڑہ پاکستان دے" غم ئے مہ کوہ ، یعنی چھوڑ دو پاکستان ہے اس لئے ڈی جی سپورٹس کو اس سے کوئی مطلب نہیں کیونکہ کون سے انہوں نے جیب سے تنخواہ دینی ہیں سرکاری کام ہے اور سرکار ی مال پر کس کا دل دکھتا ہے.حالانکہ انہی ڈی ایس اوز کی تعیناتی اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ میں ہونی ہیں. خیر.
مزے کی بات یہ ہے کہ پبلک سروس کمیشن بھی خاموش ہے ، اس سے قبل سابق دور حکومت چلو تبدیلی والی سرکار کی حکومت تھی اس لئے وہ تو سیاسی تھی کچھ نہیں کرسکتی تھی لیکن اب تو نگران ہیں اور یہ کسی سے "ڈرتے ورتے"بھی نہیں البتہ ان کی تاجر برادری سے تعلقات اچھے ہیں اس لئے انہی ان چیزوں کی پروا نہیں ، سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے ڈی ایس او کے امتحان میں بیٹھنے والے بعض امیدواروں کے مطابق اس سیٹ کیلئے پچیس لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کی جارہی ہیں یہ افواہ ہے یا حقیقت اس کا اندازہ تونہیں کیا جاسکتا لیکن کیا تحقیقاتی ادارے اس بات کا نوٹس لیں گے یا نہیں کہ پبلک سروس کمیشن کا ڈی ایس او کا یہ پیپر کس طرح آﺅٹ ہوا ، اگر تحقیقاتی ادارے اس بات کو دیکھ لیں کہ کس کے کہنے پر تعلیمی قابلیت میں تبدیلیاں کی گئی اور کس کیلئے کی گئی تو پھر سرکار کے اہم عہدوں پر تعینات بہت سارے افراد کا ڈیٹا نکل آئے گا .کہ کس طرح سرکار ی عہدوںپر بیٹھے کتنے ایماندار ہیں اور اپنے مفاد کیلئے کس حد تک جاسکتے ہیں.
ڈی ایس او کے اس عہدے پر لوگ بھرتی بھی ہو جائینگے اور وہ بھی گڈ بک میں شامل افراد ، شائد کچھ لوگ میرٹ پر بھی ہوں لیکن جس طرح کی چیزیں سامنے آرہی ہیں ایسے میں میرٹ تو خواب ہی ہیں لیکن پھر نوجوان نسل کا کیا ہوگا جو اس معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے لئے روزگار کی باتیں سوچ ہے ہیں اور انہیں میرٹ میرٹ کی گردان ہر جگہ پر کی جاتی ہیں لیکن حقیقت میں ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک اور رویہ اور طریقہ کار اپنایا جاتا ہے. ایسے ہی کتنے بیروزگار نوجوان ہوں گے جو صرف میرٹ پر یقین رکھتے ہیں لیکن انہیں اس طرح کا رویہ اور اقدام کہاں پر لے جائیگا یہ وہ چیزیں ہیں جو نہ صرف حکومتی ایوانوں میں بیٹھے افرادسمیت بیورو کریٹس اور مختلف عہدوں پر تعینات افراد کوسوچنا ہوگا کیونکہ اگر سو افراد نے امتحان دیا ہو اوراس میں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ان کا حق مارا گیا تو ان میں لازما دس تو ایسے ہونگے جنہیں حالات اور خیالات منفی چیزوں کی طرف لے جائیں گے اور پھر وہ معاشرے میں وہی کچھ کرینگے جس سے بچنے کیلئے ہم سب کبھی مذہب اور کبھی قانون کی آڑ لیکر انہیں منع کرتے ہیں .اور پھر یہی نوجوان معاشرے میں بگاڑ کا سبب بھی بنیں گے. اور ان اداروں پر نوجوانوں کا اعتماد بھی ختم ہو جائیگا.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں تعیناتی کیلئے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کی حالیہ امتحان میں ہونیوالے بے قاعدگیوں کا نوٹس نگران گورنر غلام علی کوخود لینا چاہئیے کیونکہ وہ خود بھی کچھ عرصہ تک کھیلوں کے شعبے سے وابستہ رہ چکے ہیں اور وہ اس معاملے کو بخوبی ڈیل کرسکتے ہیں ، نگران کابینہ میں نئے آنیوالے کھیلوں کے منتظم کو شائد اس بات تک پہنچنے میں مہینہ لگ جائے ان حالات میں فوری ایکشن ہی اس صورتحال کو بہتر کرسکتی ہیں. #sports #dsoexam #dso #peshawar #pakistan #sportsofficers #dgsports #govenorkp #ghulamali #recruitment #merit #kikxnow #digitalcreator
|