شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت
میں لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ شبلی ؒ نے ایک مرتبہ شہر سے گندم خریدی اور گندم
کی بوری کندھے پر اُٹھا کر اپنے گاﺅں لے گئے وہاں پہنچ کربوری کا منہ کھولا
تو گندم میں ایک چیونٹی نظر آئی جو بڑی بے چینی سے ادھر ادھر دوڑ رہی تھی
شبلی ؒ غریب چیونٹی کی پریشانی دیکھ کر سخت آزردہ ہوئے اور رات بھر نہ سو
سکے صبح ہوتے ہی اسے پکڑا اور جہاں سے گندم لائے تھے وہی جاکر چھوڑ آئے
شبلی ؒ فرماتے تھے کہ یہ انسانیت سے بعید ہے کہ کہ غریب چیونٹی کو گھر سے
بے گھر کردوں اللہ تعالیٰ فردوسی کی قبر پر رحمت نازل فرمائے اس نے کیا خوب
کہا کہ
میازار مورے کہ دانہ کشست
کہ جان داردوجانِ شریں خوشست
یعنی اُس چیونٹی کو بھی نہ ستا جو ایک دانہ کھینچنے والی ہے اس لئے کہ وہ
بھی جان رکھتی ہے اور جان ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے
سیاہ اندروں باشد وسنگ دل
کہ خواہد کہ مورے شودتنگ دل
یعنی وہ شخص بڑ اسیاہ باطن اور ظالم ہے جس کے ہاتھ سے کسی چیونٹی کو بھی
دکھ پہنچے ۔
قارئین ہمارے وطن کی ایک بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے جوہر قابل کی قدر یا تو اس
کے مرجانے کے بعدکرتے ہیں اور یاپھر جب وہ ہمارے حکمرانوں ،سیاستدانوں اور
معاشرے کی سخت دلی سے تنگ آکر اپنی جان اور عزت بچا کر اس ملک کو چھوڑ کر
ہجرت کرجاتاہے تو اسے یاد کرتے ہیں ایک دوگانے کا مصرعہ اس صورتحال کی
عکاسی کرتا ہے جو اکثر ٹرکوں کے پیچھے سابق سربراہ مملکت پاکستان جنرل ایوب
خان کی تصویر کے ساتھ تحریر ہوتا ہے کہ
تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔۔۔
آج سے چند سال قبل کینیڈا کے سربراہ حکومت پاکستان کے دورے پر جب تشریف
لائے تو اسلام آباد میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران اور سنجیدہ
لوگوں نے ان کے ساتھ ایک نشست میں جہاں اور کئی سوالات کیے وہاں ان سے یہ
بھی پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کینیڈا پوری دنیا سے پروفیشنلز کو امیگریشن
ویزہ دینے کی سہولت دے رہا ہے اور کیا وجہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں دنیا
جہان کے ڈاکٹرز ،انجینئرز ،ماہرین زراعت ،ٹیچر ز،جیالوجسٹس اور دیگر فنون
کے ماہرین کو کینیڈا کی مستقبل شہریت اور بہترین تنخواہوں پر مشتمل
ملازمتیں آفر کی جارہی ہیں ۔۔۔؟اس پر کینیڈا کے سربراہ مملکت کے جواب
انتہائی دلچسپ تھا انہوں نے کہا کہ کینیڈا رقبے کے اعتبار سے دنیا کا بہت
بڑا ملک ہے اور ہمارے پاس سرمایہ بھی موجود ہے اور زمین بھی اور منصوبے بھی
موجودہیں کہ جن پر عمل کرکے اعلیٰ ترین ترقی کی منازل طے کی جاسکتی ہیں
لیکن جس چیز کی ہمارے پاس کمی ہے وہ ہنر مند افرادی قوت ہے اور یہ افرادی
قوت ہم پوری دنیا سے اکٹھی کررہے ہیں پاکستان اور آزادکشمیر سے بھی ہزاروں
ہنر مند افراد کینیڈا کی مستقل شہریت اختیار کرچکے ہیں ہم دنیا کے بہترین
دماغوں کو کینیڈا میں اکٹھاکرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔
قارئین ان کا یہ جواب اس قدر جامع اور ہمارے معروضی حالات کے مطابق سنگین
تھا کہ بعد میں پوری نشست میں یہی باتیں ڈسکس ہوتی رہیں ۔۔۔
اس وقت پاکستان اور آزادکشمیر میں ایک عجیب وغریب منظر دیکھنے میں آتا ہے
ہمارے ملک میں 15سال سے 35سال کی عمر کے جو لوگ موجودہیں ان کا تناسب آبادی
کا 65فیصد کے قریب ہے اور یہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ تناسب والے ممالک
میں شمار ہوتا ہے ہمارے ہاں میڈیکل کالجز ،یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی
اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے گریجویٹس ،ماسٹرڈگری ہولڈرز اور پی ایچ
ڈی کرنے والے سکالرز کی ایک بہت بڑی تعداد شیخ سعدی ؒ کی حکایت کی چیونٹی
کی طرح ہیں کہ جو ملکی حالات ،بدامنی ،معاشی عدم استحکام اور دیگرمسائل کا
شکار ہوکر اس ملک کو خیر باد کہتے ہوئے کینیڈا ،امریکہ ،برطانیہ ،یورپ
،مشرق وسطیٰ ،سعودی عرب اور دیگر ممالک میں جاکر خدمات انجام دے رہے ہیں یہ
علیحدہ بات ہے کہ ان کا دل اس وطن میں واپس آنے کے لیے اسی چیونٹی کی طرح
تڑپتا رہتا ہے خوفناک ترین صورتحال تو یہ ہے کہ اس وقت بھی 15ہزار سے زائد
ڈاکٹرز پاکستان اور آزادکشمیر سے ہجرت کرکے سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ جانے
کے لیے ایمبیسیز میں درخواستیں جمع کروا چکے ہیں ایک ڈاکٹر قوم کے لاکھوں
روپے کے ٹیکس کی انوسٹمنٹ کے بعد بنتا ہے اور قوم کا لائق ترین دماغ میڈیکل
پروفیشنل کے طور پر سا ل ہاسال کی محنت کے بعد وجود میں آتا ہے پاکستان میں
اسلام آباد ،پنجاب ،سندھ ،خیبر پختون خواہ ،بلوچستان کے ڈاکٹرز نے گزشتہ
سال ایک طویل جدوجہد کے بعد حکومت سے یہ تسلیم کروایا کہ قوم کے لائق ترین
دماغوں کو عزت کے ساتھ ساتھ کھانے کیلئے مناسب رزق حلال کی بھی ضرورت ہے
اور ڈاکٹرز کی تنخواہیں یورپ اور امریکہ کی طرح نہ سہی کم از کم ہمارے
ہمسایہ ملک بھارت میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کے برابر تو ہونی چاہئیں ۔اس
جدوجہد کے دوران ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پر
تشدد بھی کیا گیا جونیئر اور سینئر ڈاکٹرز کو گریبان سے بھی پکڑا گیا
اورحتیٰ کہ انہیں نوکریوں سے بھی برخواست کیا گیا لیکن اپنے جائز ترین
مطالبات کے حق میں نوجوان ڈاکٹرز اور سپشلسٹ ڈاکٹرز ڈٹے رہے اور عقلی
بنیادوں پر میڈیا نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا اور آخر کار ان کے مطالبات
تسلیم کرلیے گئے اب صورتحال یہ ہے کہ پنجاب اور فیڈرل میں ایک سپشلسٹ ڈاکٹر
کی تنخواہ 80ہزارروپے ہے اور اس کا نان پریکٹسنگ الاﺅنس 10ہزارروپے سے لے
کر 40ہزار روپے تک ہے اسی طرح ہاﺅس آفیسر ز ،میڈیکل آفیسرز ،رجسٹرار ز
،اسسٹنٹ پروفیسرز ،ایسوسی ایٹ پروفیسرز اور پروفیسرز کی تنخواہیں بڑھادی
گئی ہیں لیکن آزادکشمیر کا محکمہ صحت جو پنجاب محکمہ صحت کے اصولوں کی
تقلید کرتاہے وہاں یہ خوشخبری ابھی تک نہیں پہنچی جس کی وجہ سے آزادکشمیر
کے ہزاروں نوجوان اور سپشلسٹ ڈاکٹرز اس وقت شدید ترین بے چینی کا
شکاردکھائی دے رہے ہیں اس معاملے میں محکمہ صحت کے ارباب اختیار کے ہاتھ
بندھے ہوئے ہیں اور فیصلوں کا مکمل اختیار سیاسی رہنماﺅں یعنی حکمرانوں
،چیف سیکرٹری ،سیکرٹری فنانس ،سیکرٹری سروسز اور شائد سربراہ کشمیر کونسل
وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے پاس ہے ہم آج کے کالم کی وساطت
سے ان تمام سنجیدہ لوگوں سے یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ آزادکشمیر کے لوگ
غریب ،معصوم اور بنیادی ضروریات کیلئے ترسنے والی کمیونٹی ہے اگر ڈاکٹرز
میں پائی جانے والی بے چینی اور عدم تحفظ کو دور نہ کیا گیا تو آزادکشمیر
کے ڈاکٹرز کی ایک بہت بڑی تعداد یہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گی اور عوام
کو صحت کی سہولیات کے حصول میں پائے جانے والی دشواریاں بڑھ جائیں گی
آزادکشمیر کے ڈاکٹرز اورمحکمہ صحت کے ارباب اختیار سیکرٹری ہیلتھ ،ڈی جی
ہیلتھ ،ڈی ایچ اوز اور مختلف ہسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹڈنٹس مشکل حالات میں
عوام کو سروسز مہیاکررہے ہیں ان سب کی دل جوئی ضروری ہے ۔
قارئین اسی طرح انجینئرز ،ماہرین زراعت ،جیالوجسٹس اور دیگر پروفیشنلز کو
عزت اور نسبتاً بہتر تنخواہیں دے کر ہم اپنے جوہر ِقابل کو اسی ملک میں
خدمات انجام دینے پر رضا مند کرسکتے ہیں یہ جتنے بھی لوگ ہیں اس مٹی سے
پیار کرنے والے ہیں یہ ناراض ہوسکتے ہیں لیکن اس ملک کے دشمن ہرگز نہیں
ہوسکتے ہمیں انکی ناراضگی کو دور کرنا ہے بقول غالب
دیاہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیے
ہُوارقیب توہو،نامہ برہے کیا کہیے
یہ ضد کہ آج نہ آئے اور آئے بنِ نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے کیا کہیے
زہے کرشمہ کہ یُوں دے رکھا ہے ہم کو فریب
کہ بن کہیے ہی انھیں سب خبرہے کیا کہیے
انھیں سوال پ زعم ِ جنوں ہے کیوں لڑئیے؟
ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے کیا کہیے ؟
قارئین ہمیں یقین ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستان اور
آزادکشمیر کے حکمران اور پالیسی ساز مستقبل کی پیش بندی کریں گے زندہ قومیں
اپنے جوہر قابل کی ناقدری نہیں کرتیں ہمسایہ ملک چین کی مثال ہمارے سامنے
ہے کہ جب نیک نیت سیاسی قیادت نے حکومت سنبھالی اور پوری دنیا میں آباد
اپنے ہنر مندوں کو وطن کا نظام سنبھالنے کیلئے واپس آنے کی دعوت دی تو
امریکہ ،یورپ ،سعودی ریاستوں سے بڑی بڑی تنخواہیں ٹھکرا کروہ لوگ اپنے وطن
واپس آگئے بات صرف نیک نیتی اور اعتماد کی ہے ۔ہمیں امیدہے کہ پاکستان اور
آزادکشمیر کے پروفیشنلز کو مزید ہجرتوں پر مجبور نہیں کیا جائے گا ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ڈاکٹر نے مریض کو نسخہ دیتے ہوئے کہا ”یہ دوا پابندی سے استعمال کرنا اور
بڑی سے بڑی مصیبت کو بھولنے کی کوشش کرنا “
مریض نے گھبرا کرکہا
”آہستہ بولیں ڈاکٹر صاحب ! وہ بڑی مصیبت میری بیوی باہرہی بیٹھی ہوئی ہے “۔
خداجانے پروفیشنلز کی مصیبتیں کب دور ہوں گی اور ہنر مند لوگوں کو اس ملک
کی تعمیر وترقی کے لیے کب مناسب ماحول مہیاکیا جائے گا ہم بھی اچھی امید
رکھتے ہیں آ پ بھی حسن ِ گمان رکھیں۔۔ |