وطن عزیز کے چیلنجز میں کمی کے بجائے روز برو اضافہ ہوتا
جا رہا ہے پاکستانی عوام کے لئے ایک جانب جان لیوا مہنگائی ، بجلی ، سوئی
گیس اور پانی کے بلوں کی بڑھتی قیمتوں نے جسم و جاں کا ررشتہ برقرار رکھنا
مشکل بنا دیا ہے تو دوسری جانب ملک کے بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں سٹریٹ
کرائمز (سر راہ ہونے والے جرائم) کی تعداد میں ’غیر معمولی اضافے نے جینا
دشوار بنا دیا ہے ۔اعدادوشمار کے مطابق لاہور میں گزشتہ چار مہینے کے دوران
چوری‘ ڈکیتی‘ موٹر سائیکلوں و گاڑیوں کی چوری‘ موبائل فونز اور ہینڈ بیگ
چھیننے سمیت سٹریٹ کرائم میں دوسو فیصد اضافہ دیکھا گیا۔عالمی آرگنائزڈ
کرائم انڈیکس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جرائم کا اسکور 6 اعشاریہ 28 دیگر
ممالک سے کہیں زیادہ ہے جبکہ پاکستان 193 ممالک میں سے 29ویں نمبر پر،
ایشیا کے 46 ممالک میں 10ویں جبکہ جنوبی ایشیا کے 8ممالک میں دوسرے نمبر پر
ہے۔کراچی پولیس نے اسٹریٹ کرائم کے 60,580 واقعات رپورٹ کیے جن میں 2022 ء
میں موبائل چھیننے کی 20,406 وارداتیں شامل ہیں۔ مزید برآں، پنجاب پولیس کے
اعداد و شمار کے مطابق ڈکیتیوں میں 282 فیصد اضافہ ہوا ۔ جبکہ 42.51 کی شرح
جرائم کے ساتھ ، پاکستان میں سٹریٹ کرائمز سے نہ صرف اندرونی سلامتی کو
خطرے میں ہے بلکہ عام آدمی کے ساتھ ساتھ کاروباری برادریوں کے لیے بھی
نقصان دہ ہے۔سوال یہ ہے کہ اِن حالات میں کیا کیا جائے اور کیسے کیا جائے۔
وقت آگیا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بڑھتی ہوئی غربت کے مسئلے اور
اِس غربت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کریں۔اگرچہ
وقت کے ساتھ جرائم کے اعداد و شمار میں اتار چڑھاؤ آ سکتا ہے، لہذا مناسب
یہ ہے کہ بڑھتے جرائم کے تناظر میں اسٹریٹ کرائم میں اضافے کی بنیادی
وجوہات کا تجزیہ کیا جائے اور ساتھ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے
مسائل کا بھی جائزہ لیا جائے تاکہ پاکستان کے تباہ شدہ فوجداری انصاف کے
نظام کی بحالی کے لیے قابل عمل حل اور پالیسی آپشنز وضع کیے جاسکیں۔سٹریٹ
کرائم کی تعریف ایسے مجرمانہ رویے کے طور پر کی جاتی ہے جو عوامی مقامات پر
رونما ہوتے ہیں ۔ انصاف کے اعداد و شمار کے بیورو (BJS) کے مطابق ، اسٹریٹ
کرائم میں مجرمانہ سرگرمیوں کی ایک وسیع رینج شامل ہے جس میں پرتشدد جرائم
جیسے کہ قتل، حملہ، ڈکیتی، ہراساں کرنا، اور آتش زنی شامل ہیں۔ اس میں
جائیداد کے جرائم جیسے لوٹ مار، آتش زنی، توڑ پھوڑ ، چوری اور موٹر گاڑی کی
چوری بھی شامل ہے۔پاکستان میں، اسٹریٹ کرائم شہری اور دیہی علاقوں کو یکساں
طور پر متاثر کرتے ہیں۔ تاہم، حال ہی میں، اسٹریٹ کرائمز خاص طور پر بڑے
شہری شہروں جیسے کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں پھیل چکے ہیں۔ اسٹریٹ
کرائم ہمارے معاشرے میں امن و امان کی بدحالی کی علامت ہے، جو عدم مساوات،
غربت اور بے روزگاری کے مسائل سے جنم لیتی ہے۔گلوبل ملٹی ڈائمینشنل پاورٹی
انڈیکس (MPI) (2022ء ) اور ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) کی رپورٹ کے مطابق
پاکستان کی 21.9 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اگرچہ
اسٹریٹ کرائم میں حالیہ اضافے کے لیے اندرونی اور بیرونی عوامل کی ایک وسیع
رینج ذمہ دار ہے، تاہم، اس معاملے میں ملکی سیاسی و معاشی عوامل اہم کردار
ادا کرتے ہیں۔معاشی بحران اور مہنگائی کی وجہ سے پاکستان میں غربت میں
اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً لوگ روزی کمانے کے لیے اسٹریٹ کرائم کا راستہ اختیار
کرتے ہیں۔ بلاشبہ غربت اور مہنگائی نے پاکستان میں اسٹریٹ کرائمز کو بڑھا
دیا ہے۔ اس کی تصدیق UNODC کی رپورٹ 'جرائم پر معاشی بحران کے اثرات ــ'سے
کی جا سکتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "معاشی تناؤ کے دوران، ڈکیتی کے واقعات
دوگنا ہو سکتے ہیں، اور قتل اور موٹر گاڑیوں کی چوری میں بھی اضافہ ہو سکتا
ہے "۔پاکستان میں، اسٹریٹ کرائم کا ارتکاب عام طور پر افراد کرتے ہیں
کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ممکنہ انعامات خطرات سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت کی وجہ سے مجرموں کا احتساب نہیں کیا
جائے گا۔ مجرموں کے خلاف درج ایف آئی آر کی کمی نے بھی مجرموں کی مدد کی
ہے۔ مزید یہ کہ سزا کی کم شرح کی وجہ سے پاکستان میں اسٹریٹ کرائم ایک
منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ دوسری جانب حالیہ برسوں میں دیہی ،شہری نقل
مکانی میں اضافے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ مثال کے طور پر،
غربت، بے روزگاری، اور سماجی عدم استحکام کی بلند سطح میں رہنے والے تارکین
وطن کو اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو انہیں سڑک پر جرائم کرنے پر مجبور
کر سکتا ہے۔ اس کی مثال نوعمروں کے اسٹریٹ کرائمز اور مجرم نوعمروں کی
بڑھتی ہوئی وارداتوں سے کی جا سکتی ہے۔ ایک پولیس کے ریٹائرڈ افسر کا کہنا
ہے کہ نوجوان سوچتے ہیں کہ اسٹریٹ کرائم غربت سے نکلنے کا آسان راستہ
ہے۔مزید برآں پاکستان کے شہری علاقوں میں مہاجرین اور تارکین وطن کی حالیہ
آمد نے بھی گلی محلوں میں گروہوں اور ڈاکوؤں کو جنم دیا ہے۔پاکستان میں
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر بدعنوانی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس میں
رشوت خوری، بھتہ خوری اور اختیارات کا غلط استعمال شامل ہو سکتا ہے جس سے
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے اسٹریٹ کرائم پر مؤثر طریقے سے قابو
پانا مشکل ہو سکتا ہے۔پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس
اسٹریٹ کرائم سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے اکثر ضروری وسائل جیسے فنڈنگ،
آلات اور اہلکاروں کی کمی سمیت مناسب تربیت سے محرومی سے بھی زیادہ جرائم
والے علاقوں میں مؤثر طریقے سے گشت کرنا اور مجرمانہ واقعات کی روک تھام
میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اکثر مختلف
ایجنسیوں اور محکموں کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کا فقدان رکھتے ہیں۔ یہ
ان کے لیے معلومات اور وسائل کا اشتراک مشکل بنا سکتا ہے، جس سے اسٹریٹ
کرائم پر قابو پانے کی ان کی صلاحیت میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ اور سب سے
بڑی وجہ بے جا سیاسی مداخلت ہے جس کے باعث قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے
فرائض کو آزادانہ طور پر انجام نہیں دے سکتے ۔ اس میں بعض جرائم کو نظر
انداز کرنے یا کم کرنے کا دباؤ، یا بعض مقدمات کو دوسروں پر ترجیح دینے کا
دباؤ شامل ہو سکتا ہے۔ ناکافی قوانین بھی ایک وجہ ہے ،جو مجرموں کو روکنے
کے لیے اتنے سخت نہیں اور نہ ہی سزائیں اتنی سخت ہیں کہ وہ روک سکیں۔ قانون
نافذ کرنے والے اداروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کریں تاکہ
اسٹریٹ کرائم پر قابو پایاجا سکے۔
|