داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
دارالعلوم دیوبند علومِ قرآن وحدیث کی تعلیم کے لئے پوری دنیا میں ایک
امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ روئے زمین کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں اس ادارہ
سے تعلیم یافتہ شخص (براہِ راست یا بالواسطہ) قرآن وحدیث کی روشنی میں امت
مسلمہ کی رہنمائی نہ فرما رہا ہو۔ 31 مئی 1866 بمطابق 15 محرم الحرام 1283
کو قائم شدہ اس ادارہ نے جہاں ملک کی آزادی کے لئے نمایاں کردار ادا کیا
وہیں ہندوستانی مسلمانوں کے دینی تشخص کو محفوظ رکھنے میں بڑی عظیم خدمات
پیش کی ہیں۔ اِس وقت یہ ادارہ ”دارالعلوم دیوبند“ حنفی مکتب فکر کا دنیا
میں سب سے بڑا اور جامعہ ازہر کے بعد دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے
جہاں قرآن وحدیث کی تعلیم دی جاتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی قرآن وحدیث کی
۷۵۱ سالہ خدمات کا اِس وقت دنیا میں کوئی ثانی موجود نہیں ہے۔ مجھے بھی فخر
حاصل ہے کہ میں نے اسی مادرِ علمی سے تعلیم حاصل کرکے زندگی گزارنے کا
سلیقہ سیکھا اور اسی علمی درسگاہ کے اکابرین کی برکت ہے کہ بندہ ناچیز نے
50 سے زیادہ کتابیں تحریر کرنے کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کی
سرپرستی میں شہر سنبھل میں دو اسکول (النور پبلک اسکول اور القلم پبلک
اسکول) قائم کئے جن میں بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
ہر اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے ذمہ دار اپنے ادارہ کو چلانے کے لئے کچھ
اصول وضوابط مرتب کرتے ہیں جن کو یونیورسٹی یا کالج یا اسکول میں وجوب کے
درجہ میں نافذ کیا جاتا ہے۔ مثلاً اسکولوں کا یونیفارم (ڈریس) جس کے بغیر
اسکول میں داخلہ پر بھی پابندی ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بچہ یا اس کے
والدین اسکول کا یونیفارم پہننے یا پہنانے سے انکار کردیں تو اس بچہ کا اُس
ادارہ میں تعلیمی سلسلہ منقطع کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایئر ہوسٹس ایئر
لائنس کی جانب سے متعین ڈریس کے علاوہ کوئی دوسری ڈریس پہن کر ملازمت نہیں
کرسکتی ہے۔ فوج اور پولیس کو اپنی وردی پہن کر ہی اپنے فرائض انجام دینے
ہوتے ہیں، اس نوعیت کی سیکڑوں مثالیں زندگی کے مختلف شعبوں میں موجود ہیں۔
دارالعلوم دیوبند میں داخلہ سے قبل ہی واضح کردیا جاتا ہے کہ شریعت اسلامیہ
کے مطابق زندگی گزارنا ضروری ہے، ان شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ
داڑھی رکھنا ہر طالب علم کے لئے ضروری ہے، جس کی خلاف ورزی پر ایشیا کی
عظیم یونیورسٹی سے نام خارج کردیا جاتا ہے۔ امسال چند طلبہ نے دارالعلوم
دیوبند کے اصول وضابطہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے داڑھی کٹائی جس کی وجہ سے ان
کا اخراج کردیا گیا۔ جس پر میڈیا کے کچھ عناصر دارالعلوم دیوبندکو نشانہ
بنارہے ہیں، حالانکہ انہیں بھی ہمیشہ اپنے اسکول کا یونیفارم پہننا پڑا اور
اسکول کے دیگر اصول وضوابط پر عمل کرنا پڑا۔ میڈیا کے غلط پروپیگنڈوں سے
ہمارے بعض مسلم بھائی بھی متاثر ہوکر معاملہ کی صحیح تحقیق کئے بغیر تبصرے
کرنے لگتے ہیں۔ میڈیا کے کچھ عناصر کے لئے صرف یہی قوم وملت کی خدمت ہے کہ
اس نوعیت کے واقعات سے نفرت کا بازار گرم کیا جائے اور اپنے ناپاک عزائم کو
پورا کرنے کی کوشش کی جائے، مگر افسوس ہوتا ہے اُن افراد پر جو اسلام مذہب
کے ماننے کے باوجود اس طرح کے واقعات کے بعد قرآن وحدیث کے واضح احکام کے
خلاف اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے میڈیا کے ان عناصر کی ہاں میں ہاں
ملانا شروع کردیتے ہیں، حالانکہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے آپسی اختلافات
کو پس پشت ڈال کر قرآن وحدیث کے حکم کے ساتھ کھڑے ہوں خواہ وہ حکم ہماری
خواہش کے مطابق ہو یا مخالف۔
داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ہے، واجب ہے یا سنت؟ اور داڑھی منڈوانا جائز ہے یا
مکروہ یا حرام؟ جمہور محدثین وفقہاء اور علماء کرام، نیز چاروں ائمہ داڑھی
کے واجب ہونے پر متفق ہیں۔ عصر حاضر میں بھی امت مسلمہ کے تقریباً تمام
مکاتب فکر وجوب کے ہی قائل ہیں۔ میں نے اس موضوع پر عربی واردو زبان کی
متعدد کتابوں میں محدثین وفقہاء وعلماء کرام کے اقوال کا مطالعہ کیا،سب نے
یہی اعتراف کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے ارشادات سے داڑھی کا واجب ہونا ہی ثابت
ہوتا ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺنے امت مسلمہ کو داڑھی رکھنے کا امر(حکم) دیا ہے
اور حکم وجوب کے لئے ہی ہوتا ہے اِلّایہ کہ نبی اکرم ﷺکے کسی دوسرے ارشاد
یا عمل یا صحابہ کرام کے عمل سے معلوم ہو کہ آپ ﷺ کا حکم (امر) وجوب کے لئے
نہیں بلکہ صرف تاکید کے لئے ہے۔ لیکن زیر بحث مسئلہ میں نبی اکرم ﷺاور
صحابہ کرام کی زندگی کے احوال سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺکا امت مسلمہ کو
داڑھی رکھنے کا حکم وجوب کے لئے ہی ہے، چنانچہ خیر القرون میں صحابہ یا
تابعین یا تبع تابعین میں سے کسی ایک محدث یا فقیہ یا عالم نے داڑھی کے عدم
وجوب کا فتویٰ جاری نہیں فرمایا، بلکہ سب نے اس کے وجوب کا ہی فیصلہ فرمایا
ہے۔
اگر داڑھی کے صرف سنت ہونے کو تسلیم کربھی لیا جائے تو یہ عام سنت نہیں
ہوگی بلکہ داڑھی رکھنا سنت مؤکدہ اشد التاکید ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی
شعار بھی ہے اور تمام انبیاء کی سنت بھی ہے، نیز فطرت انسانی بھی ہے اور
فطرت انسانی کو بدلنے کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہئ الروم
آیت 30 میں ارشاد فرمایا ہے۔ بر صغیر میں علم حدیث کی اہم وعظیم شخصیت حضرت
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ 152/1 میں تحریر
کیا ہے کہ داڑھی کاٹنا اللہ کی تخلیق اور بناوٹ کو بدلنا ہے۔ بات یہیں ختم
نہیں ہوجاتی بلکہ نبی اکرم ﷺنے داڑھی کاٹنے کو مشرکین اور مجوسیوں کا طریقہ
قرار دیا ہے اور آپ ﷺنے داڑھی کاٹنے والوں کی طرف نظر اٹھاکر دیکھنا بھی
پسند نہیں فرمایا۔
آئیے اولاً داڑھی کے متعلق نبی اکرم ﷺکے بعض ارشادات کا مطالعہ کریں:
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد
فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو یعنی داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔
ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو اور داڑھیوں
کو بڑھاؤ۔ (بخاری/ باب تقلیم الاظفار، مسلم/ باب خصال الفطرۃ)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کو مونچھوں کے
کاٹنے اور داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ داڑھیوں کے
بڑھانے کا حکم احکم الحاکمین اللہ جل شانہ کی طرف سے ہے۔ اَمَرَ کا لفظ بھی
کتابوں میں آیا ہے، یعنی نبی اکرم ﷺنے مونچھوں کے کاٹنے اور داڑھیوں کے
بڑھانے کا حکم دیا ہے۔ (مسلم/ باب خصال الفطرۃ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: مونچھوں کو کاٹو اور
داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ (مسلم/ باب خصال الفطرۃ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے دس خصلتیں فطرت میں
سے قرار دی ہیں، جن میں سے پہلی خصلت مونچھو ں کو کاٹنا اور دوسری خصلت
داڑھی کو بڑھانا ہے۔ (مسلم/ باب خصال الفطرۃ)
حضور اکرم ﷺ کی داڑھی کا تذکرہ:سید الانبیاء والمرسلین وخاتم الانبیاء وخیر
البریہ حضرت محمد مصطفی ﷺہمیشہ داڑھی رکھتے تھے، جیساکہ احادیث میں آپ ﷺکی
داڑھی مبارک کا کثرت سے ذکر ملتا ہے۔رسول اللہ کی داڑھی مبارک میں بہت
زیادہ بال تھے۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب شبیہ صلی اللہ علیہ وسلم) نبی
اکرم ﷺکی داڑھی مبارک گھنی تھی۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ سے انہیں الفاظ کے
ساتھ (نسائی 5232)میں روایت مذکور ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے انہیں
الفاظ کے ساتھ (مسند احمد 2/102) میں روایت مذکور ہے۔ (رواہ الترمذی فی
الشمائل والبیہقی فی شعب الایمان) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نبی اکرم ﷺکی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی۔ (مسند احمد 1/127) حضرت عائشہؓ،
حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ، حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور دیگر
صحابہ کرام سے نبی اکرم ﷺکا وضو کے وقت داڑھی میں خلال کرنے کا تذکرہ
احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ غرضیکہ صحابہ کرام نے نبی اکرم ﷺکی داڑھی
مبارک کو مختلف الفاظ میں ذکر کیا ہے، اُن الفاظ کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی
داڑھی مبارک گھنی اور زیادہ بالوں والی تھی۔ آپ ﷺوضو کے وقت داڑھی میں خلال
بھی کیا کرتے تھے، اور کبھی کبھی اسمیں مہندی بھی لگاتے تھے۔ خلفاء راشدین
اور دیگر صحابہ کرام کی داڑھی مبارک کا تذکرہ احادیث کی کتابوں میں موجود
ہے، لیکن مضمون کی طوالت سے بچنے کے لئے ان کا تذکرہ نہیں کررہا ہوں۔ کسی
بھی صحابی سے داڑھی کا مونڈنا یا ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا ثابت نہیں ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ:بعض حضرات کہہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں داڑھی کا حکم
کہا ں ہے؟ میں ان حضرات سے سوال کرتا ہوں کہ قرآن کریم میں یہ کہاں ہے کہ
جو قرآن میں ہو بس اسی پر عمل کرنا لازم ہے اور قرآن میں یہ کہاں ہے کہ
رسول اللہ ﷺکے فرمان کو مت مانو، بلکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بے
شمار جگہوں پر رسول اکرم کی ﷺاطاعت کاحکم دیا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت
کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔ (سورہ النساء 80) نیز اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم
میں جگہ جگہ اپنی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو ضروری قرار دیا
ہے، اگر قرآن کریم ہی ہمارے لئے کافی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم
میں جگہ جگہ رسول اللہ ﷺکی اطاعت کا حکم کیوں دیا ہے؟ پھر بھی ان حضرات کے
اطمینان کے لئے ذکر ہے کہ داڑھی کاتذکرہ قرآن کریم (سورہ طہ 94) میں آیا
ہے: ياابْنَ أُمَّ لا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت
ہارون علیہ السلام کی داڑھی مبارک پکڑی تو حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا:
اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی کو نہ پکڑو۔
خلاصہ کلام: ہندوستانی دستور کے مطابق ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے
مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے زندگی بسر کرے۔ مسلمانوں کے تمام مکاتب
فکر اس بات پر متفق ہیں کہ داڑھی رکھنا اسلامی شعار ہے، داڑھی رکھنے میں
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت، آپ ﷺکی اتباع اور آپ سے محبت کا اظہار ہے۔ رسول اللہ
ﷺنے جو حکم دیا ہے اس سے داڑھی کا واجب ہونا ہی ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن دور
حاضر میں بعض مسلم حضرات رسول اللہ ﷺکے فرمان کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے
اور داڑھی پر مختلف تبصرے کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ داڑھی نہ
رکھنا گناہ ہے لیکن داڑھی پر غلط تبصرے کرنا یا داڑھی کا مزاق اڑانا انسان
کو کفر کے قریب لے جاتا ہے۔ رہا دارالعلوم دیوبند میں داڑھی کٹانے کے جرم
میں 4 طلبہ کے اخراج پر میڈیا کا منفی رویہ تو چند سالوں سے میڈیا کے کچھ
عناصر ایجنڈہ کے تحت مسلمانوں، مسلم اداروں اور علماء کرام ودانشورانِ قوم
کے خلاف چھوٹی چھوٹی بات پر زہر اگلتے رہتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے
اچھے عمل اور بہترین کردار سے سارے نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ کی
پاک سنتوں کو محفوظ کریں۔ حضور اکرم ﷺ کا اسوہئ مبارکہ اسی لئے ہے کہ ہم اس
پر عمل کریں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرم ﷺسے سچی محبت کرنے والا بنائے۔ آمین، ثم
آمین۔
|