انسانی سمگلنگ

گزشتہ ہفتے اٹلی اور لیبیا میں تارکین وطن کی2کشتیاں حادثے کا شکار ہوئیں۔اس کے بعد اطالوی حکام نے غیرقانونی طریقوں سے مختلف ممالک کے تارکین وطن کو بیرون ملک لے جانے والے 3 افراد کو گرفتار کرلیا۔ کشتی پر سوار زیادہ تر تارکین وطن افغانستان سے آئے تھے۔ دیگر کا تعلق پاکستان، ایران، صومالیہ اور شام سے تھا۔ ایک ترک اور 2 پاکستانی شہریوں کو خوفناک موسم کے باوجود کشتی کو ترکی سے اٹلی کے لئے روانہ کرنے کا اصل مجرم قرار دیتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا ۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق ان تینوں نے مبینہ طور پر تارکین وطن سے اس سفر کے لئے تقریباً 8 ہزار یورو (8 ہزار 485 ڈالرز) وصول کئے۔ ان دونوں پاکستانیوں میں سے ایک نابالغ شخص ہے، پولیس چوتھے مشتبہ شخص کی تلاش کر رہی ہے جوکہ ترک ہے۔ حادثے میں 81 افراد زندہ بچ گئے۔ جن میں سے 22 کو ہسپتال منتقل کردیا گیا ۔ یہ کشتی مشرقی ترکیہ میں ازمیر سے روانہ ہوئی۔ زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ جہاز میں 140 سے 150 افراد سوار تھے۔

پاکستان میں ترجمان دفترخارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ اٹلی کے ساحل میں ٹکرا کر حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں سوار 20 میں سے 16 پاکستانیوں کی حالت بالکل ٹھیک ہے۔دفترخارجہ نے کہا کہ لیبیا کے ساحلی شہر بن غازی میں کشتی کے حادثے میں 7 پاکستانی جاں بحق ہوگئے۔ لیبیا میں پاکستان کا سفارت خانہ جاں بحق افراد کی شناخت کے عمل میں سہولت فراہم کر رہا ہے۔ مقامی حکام اور ہلال احمر کی انٹرنیشنل کمیٹی کے تعاون سے لاشیں پاکستان لائی جائیں گی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ ماہ کے آخر میں جنوبی اٹلی کے ساحل میں پیش آیا تھا، حادثے کی شکار کشتی میں پاکستان، افغانستان، ایران اور دیگر کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد سوار تھے۔ پاکستانی سفارت خانے کے سینئر عہدیدار نے کشتی کے حادثے میں بچ جانے والے 16 پاکستانیوں سے ملاقات کی اورکہا کہ بظاہر ان کی جسمانی حالت اچھی ہے۔ سفارت کار کے مطابق کشتی میں 20 پاکستانی سوار تھے۔ اٹلی میں پاکستانی سفارت خانہ حکام کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے تاکہ 4 لاپتہ پاکستانیوں کے بارے میں تفصیلات سامنے لائی جاسکیں۔ اس سے قبل لیبیا کے شہر بن غازی کے قریب کشتی کے ایک اور حادثے میں تین پاکستانی جاں بحق ہوئے تھے۔ لیبیا میں پاکستان کے سفارت خانے کی جانب سے میتیں پاکستان لانے کے لیے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔اس حادثہ کے بعد بھی ایف آئی اے نے پاکستانیوں کو غیرقانونی طریقوں سے باہر بھیجنے والے افراد کے خلاف تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔ تحقیقات اور متاثرین کو غیرقانونی راستوں سے باہر بھیجنے والوں کو گرفتار کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ جاں بحق افراد کے لواحقین سے رابطے ہو رہے ہیں۔جن میں سے اکثر کا تعلق پنجاب کے ضلع گجرات سے ہے۔

جنوبی اطالوی ساحل کے قریب ایک تارکین وطن جہاز کے تباہی میں ڈوبنے کے بعد کم از کم 40 پاکستان شہریوں کے بعد پاکستان نے پیر کو عالمی ہیومن ٹریفکنگ نیٹ ورک پر کریک ڈاؤن کا مطالبہ کیا۔
لکڑی کی کشتی کلابریا کے ساحل کے قریب پتھریلی چٹانوں میں ٹکرا گئی اور اتوار کے روز طلوع فجر سے پہلے ہی ٹوٹ گئی۔ پاکستانی حکومت اس سلسلے میں ایک جامع حکمت عملی وضع نہیں کر سکی ہے کہ جس سے انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس پر کریک ڈاؤن تیز کیا جاسکے۔اقوام متحدہ کے مہاجرین کے اداروں نیخدشہ ظاہر کیا ہے کہ جہاز کے تباہی سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے، کیونکہ مبینہ طور پر کم از کم 170 افراد چھوٹے جہاز پر سوار تھے۔اطالوی وزارت داخلہ کے اعدادوشمار کے مطابق، 2022 میں105000 تارکین وطن اطالوی ساحلوں پر اترے، جوگزشتہ سال کے مقابلے میں38000زیادہ ہیں۔یو این ایچ سی آر نے کہا کہ ترکی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اٹلی میں سمندر کے راستے آنے والوں کا تقریبا 15 فیصد حصہ لیا۔ایف آئی اے نے لیبیا کے راستے غیر قانونی طور پر پاکستانیوں کو یورپ بھیجنے میں ملوث مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔ گجرات میں چھاپے مارے گئے اور مرکزی ملزم کو گرفتار کیا گیاجسے ایف آئی اے پولیس اسٹیشن میں منتقل کردیا گیا ۔ مزید تفتیشجاری ہے۔

تارکین وطن کو یورپ لے جانے والی کشتی کے ڈوبنے کے بعد ملک میں اس سنگین معاشی صورتحال کے بارے میں ایک بحث چھیڑ دی ہے کہ کس طرح نوجوان بیرون ملک بہتر حالات کی تلاش میں خطرناک سفر پر مجبور ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے حقائق جاننے کا حکم دیا ہے اورایف آئی اے نے انسانی سمگلنگ کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ۔تا ہم ہر مرتبہ ایسا ہی کہا جاتا ہے۔ مگر زیادہ تر مجرم بچ جاتے ہیں۔ ملک کا معاشی بحران اس سانحہ کی ایک بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے کہ لوگ خطرناک اور غیر قانونی طریقوں سے بھی بیرون ملک ہجرت کرنا چاہتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خوشخبری سنائی ہے کہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 50 کروڑ ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوگیا۔ جس کے بعد ملک کے مجموعی ذخائر کا حجم بڑھ کر 9.27 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔تباہ کن سیلاب نے 30 ارب ڈالر سے زیادہ کے معاشی نقصانات اور لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر کے بحرانپیدا کر دیا تھا۔حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد دوگنی ہو کر 14.6 ملین ہو گئی ہے۔ورلڈ بینک نے اندازہ لگایا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے مزید 90 لاکھ افراد غربت کی طرف گھسیٹ سکتے ہیں۔ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کے 22 کروڑ افراد میں سے پانچواں حصہ پہلے ہی قومی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔اس وقت افراط زر تقریباً 30% پر چل رہا ہے، دولت کا فرق بہت زیادہ ہے، اور امیر ٹیکس سے بچ جاتے ہیں۔ صرف ٹیکسٹائل کی صنعت میں تقریباً 70 لاکھ کارکن اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کیونکہ پیداواری لاگت بڑھنے اور برآمدات میں کمی سے یہ شعبہ بری طرح متاثر ہواہے۔ ناقص پالیسیوں کا ذمہ دار ہرحکمران دوسرے کو ٹھہراتا ہے جس نے پاکستان کو اس معاشی دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ تجارتی خسارہ ،کرنسی کی قدر میں کمی کا باعث بن رہا ہے، جس کے نتیجے میں درآمدی لاگت میں اضافہ، قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہے ، کاروبار کرنے کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٹیکس سے بچنے اور کرپشن نے حکومت کے قرضوں کے بوجھ کو بھی بڑھا دیا ہے۔ پاکستان میں، دیہی گھرانوں میں سے 5 فیصد امیر ترین کل زرعی زمین کے تقریباً دو تہائی حصے پر قابض ہیں۔یہ امیر جاگیردار ٹیکس بالکل نہیں دیتے اور صرف غریب ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ چین نے 700 ملین ڈالر کی کریڈٹ سہولت کی منظوری دی ہے۔اسلام آباد آئی ایم ایف کے ساتھ بھی بات چیت کر رہا ہے تاکہ 2019 میں 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ سے 1 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔پاکستان نے مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ کو اپنایا، ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا۔ سبسڈی کی واپسی، اور مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے محصولات پیدا کرنے کے لیے مزید ٹیکس لگائے۔ پاور سیکٹر کے قرضوں ، پالیسی ریٹ میں اضافے پر بات چیت کر رہا ہے، جو اس وقت 17 فیصد ہے۔سخت اقدامات سے معیشت کو مزید ٹھنڈا کرنے اور مہنگائی کو روکنے کا امکان ظاہر کیا جا رہاہے۔بین الاقوامی اداروں کی پالیسیاں پاکستان کے بحران کو مزید بڑھا سکتی ہیں۔ہمارے درآمدی بل میں پہلے ہی سالوں میں اضافہ ہوا ہے اور اب آئی ایم ایف غیر محدود درآمدات کا مطالبہ کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ آنے والے سالوں میں پاکستان کے درآمدی بل میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کو معیشت کو متحرک کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ گھروں اور سڑکوں کی تعمیر سے، پاکستان مزید لاکھوں افراد کو غربت میں ڈوبنے سے روک سکتا ہے۔

ملک میں معاشی مواقع کی کمی کے باعث پاکستانی شدت سے بیرون ملک ہجرت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مزدور یہاں دن میں 12 گھنٹے سے زیادہ محنت کرنے کے بعد کچھ نہیں کماتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ یہی کام اٹلی یا کسی دوسرے مغربی ملک میں کریں تو وہ بہت سارے پیسے کما سکتے ہیں، جس سے ان کے خاندانوں کی مدد ہو سکتی ہے۔لہذا لوگ بیرون ملک کام کی تلاش میں اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔آج پاکستان لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کا گھر ہے۔خوراک کی بڑھتی ہوئی عدم تحفظ، ملازمتوں کی کمی اور بنیادی ضروریات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے انہیں غیر قانونی طور پر یورپی ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ایجنٹ انہیں کنٹینرز میں باندھ دیتے ہیں یا انہیں بھری ہوئی کشتیوں میں دھکیل دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی،ترقی انسانی وسائل ساجد حسین طوری کا اعتراف چونکا دینے والا ہے کہ اپریل 2022 سے اب تک 6لاکھ پاکستانی ملازمتوں کے لیے بیرون ملک جا چکے ہیں۔ پولیسنگ کی ناکامی ، اسمگلرز کا ملک کی بے روزگاری اور معاشی صورتحال کا کامیابی سے فائدہ اٹھا نا، چند سال میں انسانی سمگلنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق، مرد، خواتین، بچے اور خواجہ سراء بھی انسانی سمگلنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے، پنجاب میں، اسمگلنگ کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 6 تھی، جب کہ 2022 میں یہ تعداد بڑھ کر 217 تک پہنچ گئی ہے جو کہ حیرت انگیز طور پر 3,517 فیصد اضافہ ہے۔سندھ میں 2020 میں 6 کیسز رپورٹ ہوئے اور اس سال انسانی اسمگلنگ کے 434 کیسز کی تعداد 7000 فیصد سے زیادہ ہے۔کے پی میں رپورٹ ہونے والے کیسز 2021 میں 71 سے کم ہو کر 2022 میں 61 رہ گئے ہیں، بلوچستان میں 2020 میں 4 کیسز رپورٹ ہوئے، 2021 میں یہ تعداد بڑھ کر 87 ہوگئی، اور اس سال 38 تک گر گئی ہے۔اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) میں، 2020 میں اسمگلنگ کے کل رپورٹ ہونے والے 5 کیسز تھے اور 2022 میں بڑھ کر 26 ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر، ایف آئی اے نے 2020 سے 2022 تک انسانی سمگلنگ کے 1,300 کیسز ریکارڈ کئے - مجموعی تعداد ریکارڈ کے مطابق اکتوبر 2022 تک 7,000 افراد اسمگلنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔

ایف آئی اے انسانی اسمگلنگ میں اضافے کے اہم عوامل مہنگائی، بے روزگاری اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم قرار دیتا ہے۔ پولیسنگ کو بہتر بنانے اور انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے بنائی گئی قانون سازی کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کی ضرورت پر زوردیا جا رہاہے۔ ایف آئی اے کی ریڈ بک میں نامزد اشتہاری مجرم پکڑنے میں کم دلچسپی دی جاتی ہے۔ اس طرح ملک میں انسانی سمگلنگ میں کمی نہیں آسکتی۔پھر بھی ایف آئی اے سمگلنگ میں اضافے کے باوجود اس عمل کو روکنے میں کامیاب ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سالوں کے مقابلے میں، اس نے 170 سے زیادہ انسانی سمگلروں کو گرفتار کیا ، بہت سے لوگوں کو سزا ہو چکی ہے اور کچھ ابھی تک عدالتی حراست میں ہیں۔انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں گزشتہ برسوں سے پاکستان میں انسانی سمگلنگ کے بڑھتے ہوئے بحران کے بارے میں خبردار کرتی رہی ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔مجرم اگر حکام اور اہلکاروں کے ساتھ ملی بھگت نہ کریں تو کوئی جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ ہوائی اڈے پر سخت چیکنگ، دفتر خارجہ اور سفارت خانوں ،ایف آئی اے کے متحرک ہونے کے مطالبہ پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور تباہ حال معیشت کا مطلب یہ ہے کہ اسمگلر آسانی سے لوگوں سے جوڑ توڑ کرتے رہیں گے۔ وہ نوجوانوں کو بیرون ملک بہتر مواقع کے بارے میں جھوٹ بیچ کر نوجوانوں کو غیر قانونی طور پر سرحد پار منتقل کر سکتے ہیں۔
 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 556272 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More