آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا
ہے۔اس دن کو منانے کا اہم مقصد خواتین کے حقوق کو اجاگر کرنا اور انہیں
درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے شعور بیدار کرنا ہے۔چین میں یہ دن ایک ایسے
موقع پر منایا جا رہا ہے جب ملک کی اہم ترین سیاسی سرگرمی"دو اجلاس" جاری
ہیں۔اسی مناسبت سے چینی صدر شی جن پھنگ نے دونوں اجلاسوں میں شریک خواتین
نمائندوں، سیاسی مندوبین اور عملے سمیت اندرون و بیرون ملک تمام قومیتوں سے
تعلق رکھنے والی خواتین کو مبارکباد اور نیک خواہشات ظاہر کیں۔ چین کے
سیاسی امور میں خواتین کی نمایاں شمولیت یہاں سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ 14
ویں قومی عوامی کانگریس کے لئے کل 2977 نمائندے منتخب کیے گئے ہیں ، جو
وسیع پیمانے پر پورے چینی سماج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان میں خواتین
نمائندوں کی شرکت کو بھی زبردست انداز سے یقینی بنایا گیا ہے اور رواں برس
شریک خواتین کی تعداد 790 ہےجومجموعی تعداد کا 26.54 فیصد ہے،یہ فیصلہ سازی
اور قانون سازی سے وابستہ امور میں خواتین کی بھرپور شراکت کا عمدہ مظہر ہے۔
وسیع تناظر میں چین نے حالیہ برسوں میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کے
کردار کو نمایاں انداز سے بڑھایا ہے اور اُن کے حقوق کے تحفظ کی قانونی
ضمانت فراہم کی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج چین میں سائنس و ٹیکنالوجی ،طب ،
تعلیم ، دفاع ،میڈیا غرضیکہ کوئی بھی شعبہ اٹھایا جائے تو خواتین کی
نمائندگی واضح دیکھی جا سکتی ہے۔چین نے تعلیم، روزگار، جائیداد کی تقسیم
اور ذاتی حقوق جیسے شعبوں میں خواتین کے حقوق اور مفادات کے بہتر تحفظ کے
لیے قانون سازی بھی کی ہے ۔ملک میں صنفی مساوات کو فروغ دینے، خواتین کے
خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کو ختم کرنے اور خواتین کے جائز حقوق اور
مفادات کو یقینی بنانے کے لئے تمام ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔اس حوالے
سے تمام سطحوں پر مقامی حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تحفظ نسواں سے
وابستہ امور میں اپنے کام کو مضبوط بنائیں۔ایک واضح مثال یہ بھی ہے صنفی
مساوات ، جو چین کی بنیادی ریاستی پالیسیوں میں سے ایک ہے،کو ملک کے تعلیمی
نظام میں شامل کیا گیا ہے۔
ملک بھر میں صنفی مساوات کے تصور کے بارے میں شعور کو بڑھانے اور صنفی
امتیاز کو حقیقی معنوں میں ختم کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔چین کا قانون اس
بات کی ضمانت دیتا ہے کہ کام کی جگہ پر صنفی امتیاز کی ہرگز کوئی گنجائش
نہیں ہے اور ملازمت کی بھرتی ، داخلہ ، ترقی اور دیگر پیشہ ورانہ امور میں
خواتین کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ۔اس بات کی ضمانت دینے
کے لئے کہ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق حاصل ہیں ، قانون یہ طے کرتا ہے
کہ دیہی اجتماعی معاشی تنظیموں میں خواتین کے حقوق اور مفادات کی اس بنیاد
پر خلاف ورزی نہیں کی جائے گی کہ وہ غیر شادی شدہ ، شادی شدہ ، طلاق یافتہ
، بیوہ ہیں ، یا ان کے گھروں میں کوئی مرد نہیں ہے۔اسی طرح ملک میں خواتین
کے حقوق اراضی اور متعلقہ حقوق اور مفادات کو بھی یقینی بنایا گیا ہے ، جو
اس شعبے میں دیرینہ مسائل کو حل کرتے ہیں اور دیہی خواتین کی بقا اور ترقی
کے بنیادی حقوق کو مؤثر طریقے سے یقینی بناتے ہیں۔اسی طرح ملک میں خواتین
کی ذاتی سلامتی کے تحفظ کو مضبوط بنایا گیا ہے۔ اس میں خواتین کے اغوا،
اسمگلنگ اور دیگر سنگین نوعیت کے جرائم کے خلاف ہر سطح پر حکومتوں اور
عوامی سلامتی، شہری امور، انسانی وسائل وسماجی تحفظ، اور صحت کے محکموں کی
ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے۔
چین میں حقوق نسواں سے متعلق اہم اقدامات میں پسماندہ حالات میں رہنے والی
خواتین کی دیکھ بھال کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ، جس میں نادار ، بزرگ ، یا
جسمانی محرومی کی شکار خواتین کو امداد ، روزگار اور کاروباری مدد اور دیگر
خدمات فراہم کرنا شامل ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ مستحق خواتین کو ذہنی
صحت کی بہتری کے حوالے سے بھی مدد فراہم کی جائے گی۔ملک میں خواتین کے تحفظ
کے لیے مزید اقدامات میں خواتین کے لئے ایک جامع صحت کی دیکھ بھال کے نظام
کا بتدریج قیام ، نوزائیدہ بچوں اور چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کی خدمات میں
بہتری ، اور زچگی کی چھٹیوں کے نظام کو بہتر بنانا بھی شامل ہیں۔چینی حکام
کی کوشش ہے کہ خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے ساتھ ساتھ خاندانوں
کے لئے اعلیٰ معیار اور بچوں کی دیکھ بھال کی سستی خدمات تک رسائی کو
بڑھایا جائے۔آجروں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ شادی شدہ اور بچوں والی خواتین
کو اپنی خاندانی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے فعال طور پر سہولت فراہم
کریں ، اور حکومت آجروں کو ان کے اخراجات کو کم کرنے کے لئے ٹیکس میں کمی
یا چھوٹ دے سکتی ہے۔یہ وہ تمام اقدامات ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ چینی سماج
میں خواتین کے حقوق اور تحفظ نسواں کو کس قدر اہمیت حاصل ہے۔ ایک ترقی پزیر
ملک کے طور پر قومی تعمیر و ترقی کے سفر میں خواتین کو فعال طور پر شریک
کرنے کی چین کی یہ کاوشیں جہاں لائق تحسین ہیں وہاں قابل تقلید بھی ہیں۔ |