وفا کے آنچل کو تم نہ سر سے سرکنے دینا اے میری بہنا، حیا
کا آنچل سنبھالے رکھنا اے میری بہنا۔۔
عورت نام ہے عزت و وقار کا، عورت نام ہے محبت کا۔۔عورت معاشرہ بناتی ہے،
خاندان کی زندگی بناتی ہے،خالی گھر کو گھر بناتی ہے، اس کا کام ایک مثالی
خاندان اور مثالی معاشرہ بنانا ہے۔وہ عورتیں ہی تو تھیں کہ جنہوں نے ٹیپو
سلطان، محمد بن قاسم، صدام حسین، ممتاز قادری اور علامہ خادم حسین رضوی
جیسی بہادر اولاد کو جنم دیا۔ مسلمان خواتین اپنی اولاد کو سلانے کے لیے
کلمہ طیبہ یا نعت رسولﷺ سناتی ہیں اور ایسے بچے کہ جن کی تربیت ہی ایک
مثالی ماں کرے پھر انھیں تاریخ یاد رکھتی ہے۔۔ وہ عورتیں ماں کے روپ میں ،
بیٹی بیوی اور بہن کے روپ میں ہمارے لیے اک نمونہ ہیں لیکن اب کے دور میں
خواتین تو ہاتھوں میں بینرز لیے اپنی بے جا خواہشات اور فضولیات کی خاطر
سڑکوں پر بے حجابانہ گھومتی دیکھائی دیتی ہیں ۔ برکھا تو دور کی بات ان کے
پاس ڈوپٹہ تک نہیں موجود ہوتا۔ ان کی باتیں سن کر ایک با حیا عورت فقط
حیران ہو سکتی ہے اور افسوس ہی کر سکتی ہے ۔۔ جی ہاں میں بات کر رہی ہوں
آٹھ مارچ کی۔۔ اس دن ہونے والی بے حیائی کی، بیہودگی کی اور فضولیات کی۔ جب
مغربی دنیا کی رنگینیوں میں جکڑی ہوئی لبرل خواتین دوسری خواتین کو شیطان
کے پیروکاروں میں شامل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ یہ
با وفا اور با حیا خواتین بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ ان کے ہاتھوں میں
اٹھائے پلے کارڈز پر لکھے ان کے مطالبات ایسے ہیں کہ مجھے بتاتے ہوئے بھی
شرم آتی ہے جن میں سے چند یہ ہیں۔ میرا جسم میری مرضی، مذہب کے نام پر
پابندی نا منظور اور پردہ اتنا پسند ہے تو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لو۔ یہ
نا معقول جملے اور اس سے کئیں زیادہ فضول اور بے ہودہ جملے ان عورتوں نے
اپنے پلے کارڈز پر لکھے ہوتے ہیں ۔ وہ عورتیں بڑے فخریہ انداز میں سوشل
ورکروں کو انٹرویوز دے رہی ہوتی ہیں۔ یہاں ایک بات بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ
اس تحریک میں کوئی بھی ان پڑھ یا کم پڑھی لکھی خواتین نہیں ہیں بلکہ اس میں
تو جدید تعلیم یافتہ خواتین شامل ہیں۔ یہ خواتین اسلام سے آذادی چاہتی ہیں
اس مذہب سے کہ جس نے انھیں جینے کا حق دیا ہے۔ وہ اسلام جو مکمل ضابطہ حیات
ہے ۔ اس نے عورتوں کو جو حقوق دیئے ہیں وہ کسی مذہب نے نہیں دیئے جو مقام و
مرتبہ دینِ اسلام کی بدولت عورت کو ملا ہے اس سے سب ادیان خالی ہیں۔ تو
کیوں نہ میری بہنوں، ہم اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کی ہر ممکن کوشش
کریں ۔ دینِ محمدیہﷺ پر عمل پیرا ہو جائیں۔ عورت مارچ کرنے میں کوئی حرج
نہیں ہے لیکن یہ مارچ حدود ﷲ میں رہ کر کیا جائے اور اپنے مطالبات دینِ
اسلام کے مطابق کیے جائیں تو پھر اس سے رب تعالیٰ بھی راضی ہو جائے گا اور
آپ کی زندگیوں میں سکون کا باب بھی شروع ہو جائے گا۔
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ ،اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ
درُوں۔۔
|