دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ
نے لاکھوں نے گناہ اور معصوم انسانوں کو قتل کیا ۔ نائیں الیون کے بعد اب
ساری دنیا کے سامنے یہ حقیقت آچکی ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی ڈرامہ تھا۔ جس
کا واحد مقصد امریکہ کی جانب سے افغانستان،عراق، ایران،پاکستان جیسے ممالک
پر قبضہ کرنا اور مصر، لیبیا، مراکش، سوڈان،سعودی عرب، اردن، جیسے اسلامی
ممالک میں اپنے پٹھو حکمران کو برسراقتدار لانا تھا۔ امریکہ اپنی اس جارحیت
میں اپنا کردار اب بھی ادا کر رہا ہے۔ اور بڑی حد تک کامیاب رہا ہے۔ امریکی
فوجیوں نے درندگی اور وحشیانہ پن کی انتہاء کرتے ہوئے۔ دہشت گردی کے خلاف
جنگ کے نام پر لاکھوں عورتوں، بچوں، بوڑھے اور نوجوانوں کا قتل عام کیا ہے۔
جس پر امریکہ کو انسانیت کبھی معاف نہیں کرے گی۔ایک دن یوم حساب ہوگا۔ اور
اس میں شامل ہر کردار کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔ معصوم انسانوں کی ہلاکت کے
بہت سے واقعات میں امریکیوں کے ملوث ہونے کے ثبوت مل چکے ہیں۔ جس کے بعد وہ
ان واقعات کو انسانی غلطی، فرینڈلی فائر، غلط فہمی، جیسے الفاظ کا سہارا
لےکر بنی نوع انسانوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اس جنگ میں افغانستان اور عراق
اور پاکستان میں بہت سے صحافی بھی ہلاک کیے گئے۔ جن کی تشدد زدہ لاشیں
پھینک دی گئی۔ جن کے بارے میں آج تک نہ پتہ چل سکا کہ وہ کن حالات میں مارے
گئے۔ حال ہی میں افغانستان میں ہلاک ہونےوالے پچیس سالہ بی بی سی کے
نمائندے بھی امریکی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ جس کے بارے میں افغانستان میں
نیٹو کی کمان میں تعینات کثیرالمکی فوج ایساف نے اعتراف کیا ہے کہ اس سال
جولائی میں بی بی سی کا نامہ نگار احمد امید خپل واک اس کی غلطی سے ہلاک ہو
گئے تھے۔ایساف کے مطابق ایک امریکی فوجی نے پشتو بولنے والے اس صحافی کو
صوبہ ارزگان کے قصبے ترین کوٹ میں خود کش حملہ آوور سمجھ کر ہلاک کر دیا
تھا۔امریکی فوج کی اس کاروائی میں انیس افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں احمد
امید خپل واک بھی شامل تھے۔نیٹو نے ان کی ہلاکت کے بعد بی بی سی کے مطالبے
پر ایک انکوائری شروع کی تھی۔ جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خپل واک ایساف
فوج کے حملے کے وقت غسل خانے میں چھپ گئے تھے۔انکوائری رپورٹ کے مطابق خپل
واک کو جس وقت ہلاک کیا گیا اس وقت ان کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جسے امریکی
فوجی خود کش دھماکے کرنے کا بٹن یا ٹریگر سمجھا۔بی بی سی گلوبل نیوز کے
ڈائریکٹر پیٹر ہورکس نے ایک بیان میں احمد امید واک کو خراج عقیدت پیش کرتے
ہوئے کہا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ صحافیوں کا ہر ممکن طریقے سے تحفظ ہونا
چاہیے تاکہ دنیا ان کی خبریں سن سکیں۔ احمد امید خپل واک اس سال جولائی کے
مہینے میں طالبان کے ایک حملے کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔ اس وقت یہ
پروپیگنڈہ کیا گیا تھا کہ وہ شدت پسندوں کی گولی سے ہلاک ہوئے۔خپل واک کی
ہلاکت کے بعد متضاد اطلاعات سامنے آئی تھیں جس وجہ سے بی بی سی نے مطالبہ
کیا تھا کہ اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ احمد امید کن حالات میں مارے
گئے۔بی بی سی نے ایک بیان میں افغانستان میں نیٹو کی کمان کے تحت تعینات
بین الاقوامی افواج سے کہا تھا کہ وہ احمد کی ہلاکت کی تحقیقات کرے اور اس
کے نتائج بی بی سی اور احمد کے لواحقین کو بتائے۔پچیس سالہ احمد امید اس
وقت ہلاک ہوئے جب ارزگان صوبے کے قصبے ترین کوٹ میں ایک ٹی وی اور ریڈیو
سٹیشن پر شدت پسندوں نے حملہ کیا۔ اس حملہ میں کئی دیگر افراد بھی ہلاک
ہوئے۔طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی تاہم ان کا کہنا تھا کہ
انہوں نے احمد امید کو ہلاک نہیں کیا۔ انہوں نے احمد کی ہلاکت کا الزام
حکومتی افواج پر عائد کیا تھا جبکہ ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کا کہنا تھا
کہ احمد امید کو امریکی فوجیوں نے ہلاک کر دیا۔احمد کے بھائی کا کہنا ہے کہ
احمد نے انہیں دو ٹیکسٹ مسیج بھیجے تھے۔ ایک میں لکھا تھا کہ ’میں چھپا ہوا
ہوں، موت آچکی ہے‘ اور دوسرے میں لکھا تھا کہ ’اگر میں مر جاؤں تو میرے لیے
دعا کرنا‘۔احمد سنہ دو ہزار آٹھ سے بی بی سی کے ساتھ وابستہ تھے۔ |