پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے جہاں
بے شمار نعمتوں سے نوازا ہوا ہے وہاں اس کی بہت بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ اس
کی سرحد پر ایک ایسا ملک موجود ہے جس نے کبھی اس کے وجود کو تسلیم نہیں کیا
اور ہر موقع پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہے ۔اس کے اسی
رویے نے برصغیر کی فضا میں تنائو کی کیفیت طاری رکھی ہوئی ہے ، کئی جنگیں
ہو گئیں اور مزید جنگوں کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا بلکہ دو ایٹمی
ممالک کے درمیان کوئی لڑائی کسی عظیم الشان تباہی کا باعث ہو سکتی ہے۔
بھارت کی بدنیتی اور پاکستان میں مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بنگلہ دیش
بنانے کے بعد اوراپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے کر بھی مطمئن نہ ہوا اور
پاکستان کے وجود کے درپے رہا اور ہے۔ یو ں تو وکی لیکس کے انکشافات بالعموم
اور پاکستان کے بارے میں بالخصوص اب کسی حیرت کا باعث نہیں بنتے لیکن پاک
بھارت تعلقات کی نوعیت چو نکہ اتنی نازک ہے کہ اس بارے میں کسی بات کو نظر
انداز کرنا شاید ممکن نہیں رہتا۔ وکی لیکس کے حالیہ انکشافات میں یہ انکشاف
بھی کیا گیا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردکاروائیوں میں ملوث ہے اور یہ
خبر دبئی سٹیٹ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے دی گئی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی انکشاف نہیں کہ بھارت پاکستان مخالف سرگرمیوں
میں ملوث ہے لیکن شاید ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے جو یک طرفہ امن اور
محبت کی فاختائیں اور پتنگیں اڑاتے ہیں یہ اہم ہو۔ کیونکہ یہ لوگ محب وطن
پاکستانیوں کے بارے میں علی الا علان تعصب کا الزام لگاتے نظر آتے ہیں اور
دوستی کی خواہش میں سرحدیں تک مٹانے کے آزومند ہو جاتے ہیں۔ میں ہمیشہ یہی
کہتی اور لکھتی ہوں کہ دوستی میں کوئی حرج نہیں بلکہ پڑوسیوں کے ساتھ دوستی
آپ کو بہت سارے مسائل سے بچا لیتی ہے آپ کی فوج سرحد پر عمومی انداز اور
تعداد میں موجود ہوتی ہے ہر وقت حالتِ جنگ میں نہیں ہوتی، دور کا دشمن جب
تک آپ تک پہنچتا ہے تو آپ خبردار اور تیار ہو سکتے ہیں یہاں تو آ پ فوراً
وار کی زد میں آجاتے ہیں نہ خبرداری نہ تیاری۔ لہٰذا دوستی آپ ہی کے فائدے
میں ہے وہ سارا پیسہ جو جنگ اور جنگ کیلئے تیار رہنے پر صرف ہوتا ہے ملکی
ترقی اور خوشحالی کا حصہ بن جاتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بھارت اس بات کو
سمجھنے پر بالکل تیار نہیں۔ اس کی بدنیتی ہمیشہ ننگی تلوار کی طرح بے نیام
رہتی ہے۔ بلوچستان، پنجاب، کراچی بالخصوص اور سندھ بالعموم اس کی زد میں
رہتے ہیں جہاں کسی شخص میں بغاوت کا ایک جراثیم بھی نظر آیااس کو اپنا پیرو
بنا دیا اور حیاتیاتی اصولوں کے مطابق اس جراثیم کی انتہائی تیز رفتاری سے
تقسیم در تقسیم کر کے آ س پاس پھیلا دیا۔ یہی کام اس نے بلوچستان میں کیا
ہوا ہے اور وہاں کے ماحولیاتی حالات اور غربت نے اس کیلئے اس کام کو قدرے
آسان کر دیا ۔ خود بھارت میں کروڑوں لوگ بھوکے ننگے بے سائباں اور بے
سروسامان ہیں لیکن وہ را کے ذریعے وہ پیسہ جو ان کا حق ہے بے دریغ پاکستان
کے خلاف لٹا رہا ہے۔ اس کی موجودگی اور مداخلت اب کوئی ڈھکی چھپی بات بھی
نہیں ۔ سوات میںپاکستانی طالبان اور دہشت گرد جو اسلحہ استعمال کرتے رہے اس
میں بہت سا بھارتی ساختہ تھا اور صرف اسلحہ ہی نہیں بلکہ آئی ایس پی آر کے
مطابق دوائیں، طبی آلات اور مصنوعات بھی ملیں اور مقامی لوگوں کے مطابق
بھارتی روپیہ بھی دیکھا گیا۔ غیر مختون لاشوں کا ملنا بھی سب کے علم میں ہے
۔پاکستان کے ساتھ ملسل دشمنی میں ہندو کی وہی ذہنیت کار فرما ہے جو تحریک
پاکستان کے وقت بھی تھی۔ وقت کی تبدیلی نے اس پر کوئی اثر نہیں ڈالا اور وہ
لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہمیں ہی اپنے رویے میں لچک پیدا کر دینی چاہیئے انہیں
بھارت کا بنگلہ دیش میں کردار اپنے ذہن میں رکھنا چاہیئے بلکہ بھارت تو
اپنے ملک میں مسلمانوں کا وجود بھی برداشت نہیں کر سکتا ابھی حال ہی میں
گنیش و سر جن کے تہوار کے موقع پر مہاراشٹر میں نندوربار کی مسجد کے سامنے
سے گزرتے ہوئے جلوس نے مسجد پر گلال پھینکا اور فرقہ وارانہ فساد کے نتیجے
میں دو افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے اور ایسا ہی فساد اسی ریاست میں
عید کے موقع پر نیواسہ میں بھی ہوا۔ مسلمانوں کی طرف سے بلائی گئی پولیس
خود فریق بن کر مسلمانوں سے بر سر پیکار ہو گئی ۔یہ تو ایک چھوٹا سا واقعہ
ہے اور خدانخواستہ پاکستان میں عید کے موقع پر بھی کبھی ایسا واقعہ نہیں
ہوا جسے پاکستان دشمن و مخالف اور خود اپنی ہی نام نہاد انسانی حقوق کی
تنظیمیں ’’نا معلوم وجوہات‘‘ کی بنا پر اقلیتوں کیلئے خطر ناک ترین ملک
قرار دیتے ہیں ۔ اب جو ملک اپنے مسلمان شہریوں کی حفاظت نہیں کر سکتا وہ
کسی مسلمان ملک کا خیر خواہ کیسے ہو سکتا ہے جہاں نندوربار تو ایک مثال ہے
ورنہ فرقہ وارانہ فسادات اور مسلم و اسلام دشمنی ان کی گھٹی میں پلا دی
جاتی ہے اور یہی حال پاکستان دشمنی کے بارے میں ہے اور یوں را کو پاکستان
کے خلاف ایجنٹ ڈھونڈنے میں زیادہ تگ و دو بھی نہیں کرنی پڑتی۔ان حالات میں
ہمیں دنیا کو زیادہ طاقتور آواز میں یہ حقیقت بتانی اور سمجھانی ہو گی کہ
مداخلت کا ر پاکستان نہیں بھارت ہے ۔ اس نے پاکستان کی شہ رگ یعنی کشمیر کو
دبایا ہوا ہے وہ پاکستان کی رگوں میں دوڑتے دریائوں کا پانی روک کر اس کے
کھیتوں سے زندگی چھیننا چاہتا ہے اور جب سیلاب آئے تو بپھرے دریا ہماری
آبادیوں کونگلنے کیلئے چھوڑ دیتا ہے۔ افغانستان میں بالکل ہی بے مقصد اور
لا یعنی قونصلیٹوں کی فوج بنا کر اور اس کی تعمیر نو کا بہانہ بنا کر اپنے
جاسوس وہاں بھیج کر پاکستان کے خلاف مصروف کار ہے۔ جو ملک مسلسل حالت جنگ
میں ہے پہلے وہاں جنگ ختم کرو انسان بچیں گے تو تعمیر بھی ہو جائے گی لیکن
مقصد دوسری طرف سے بھی پاکستان پر یلغار اور بلوچستان اور فاٹا میں داخلہ
ہے۔
قارئین اگر ہم یہ سمجھیں کہ دنیا کو یہ سب کچھ خود نظر آجائے گا تو ایسا
ممکن نہیں کیونکہ شاید دنیا کا اتنا خلوص نہیں جتنا کہ اس کی ضرورت بھارت
سے وابستہ ہے ایک ارب سے زیادہ آبادی والا یہ ملک ان کی مصنوعات، ان کے
اسلحے اور ان کی تکنیکی صلاحیتوں کی ایک بہت بڑی منڈی ہے تبھی تو شائننگ
انڈیا کی تنگ و تاریک اور بد بو دار گلیاں انہیں نظر نہیں آتیں اور اسی چیز
کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں دنیا کو ان تلخ حقائق سے آگاہ کرتے رہنا ہوگا جن
کا سامنا ہم بھارت کی وجہ سے کرتے ہیں اور یا بھارت کو اپنا رویہ اور اپنے
ارادے بدلنے ہونگے۔ پاکستان میں مداخلت بند کر دینی ہوگی۔ برصغیر پاک و ہند
کی ترقی کی کنجی بھارت کے ہاتھ میں ہے ۔کیونکہ جب وہ اپنے جارحانہ عزائم سے
باز آجائے گا ،جب وہ اکھنڈ بھارت کے نظریے سے دستبردار ہو جائے اور پاکستان
کو اپنی گم شدہ جاگیر اور چھنی ہوئی میراث سمجھنا چھوڑ دے گا تو پاکستان
اور خود بھارت کے عوام بھی سکھ کا سانس لے لیں گے۔ |