اقوام کی ترقی کا انحصار ان کی
ترجیحات کا مرہون منت ہوتا ہے ۔ یہی اس قوم کے مقدر کا فیصلہ کرتی ہیں اور
تعلیم ان سب میں بنیادی نوعیت کی حامل ہے ۔جو قوم علم کو عملی طور پر ترجیح
دے گی وہ ترقی کی منازل تیزی سے طے کرے گی ورنہ آہستہ آہستہ زمانے کی دھول
بن جائے گی اور ذلت ورسوائی اس کا مقدر ٹھہرے گی کہ یہ قانونِ فطرت ہے اور
فطرت اپنے قوانین تبدیل نہیں کرتی۔ اگر ہم وطنِ عزیز کی حالت غور کریں تو
معلوم ہو گا کہ پاکستان میں تعلیم کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں کبھی بھی
شامل نہیں رہا۔ یہاں کو ئی تعلیمی نظام ہے نہ انتظام ۔اک تعلیمی تماشہ ہے
جو جاری ۔بڑے بڑے دعوے ہیں اور عمل کچھ بھی نہیں ۔عالمی بینک ، یو این ڈی
پی،یونیسکو،پاکستانی وزارتِ تعلیم اور ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان ہر
سال تعلیم پر خام قومی پیداوار کا بھارت، بنگلہ دیش،ایران اور نیپال سے بھی
کم خرچ کرتا ہے ۔ وزارتِ تعلیم کے مطابق 2009-10 میں تعلیم پر حکومتی
اخراجات (بلحاظ جی ڈی پی) گذشتہ پانچ سال(2005-06سے) سب سے کم رہے۔ شرح
خواندگی میں پاکستان 173ممالک کی فہرست میں 157ویں نمبر پر ہے۔ملک میں شرح
خواندگی بھار ت اور نیپال سے بھی کم ہے۔ 1951 کی مردم شماری کے مطابق ملک
میں شرح خواندگی 16.4 فیصد تھی اور 2009 میں یہ شرح 57 فیصد ہے جو کہ
انتہائی شرمناک ہے۔ 1972 میں پنجاب میں شرح خواندگی 20.7فیصد اور 2009 میں
59فیصد سندھ میں 30.2اور 59فیصد ، خیبر پختونخواہ میں 15.5اور 50 جبکہ
بلوچستان میں 10.1 سے 45 فیصد ہو چکی ہے ۔ ملک میں مختلف اضلاع میں ہونے
والے سروے کے مطابق اسلام آباد میں شرح خواندگی سب سے بلند 87 راولپنڈی
80،جہلم 79،کراچی 77،لاہور اور چکوال74،گجرات71،گجرانوالہ69،ہری پور
63،کوئٹہ، فیصل آباد، منڈی بہاوءالدین، ٹوبہ ٹیک سنگھ62،اٹک اور زیارت
61،میانوالی 60،جبکہ سیا لکوٹ، شیخوپورہ اور سکھر میں 59 فیصد ہے اور ان
میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو صرف اپنے دستخط کرنا جانتے ہیں ۔ اگر ہم ان
افراد کی بات کریں جو گریجوایٹ ہیں تو ان کی تعداد مشکل سے دس فیصد ہو گی۔
جب ہم تعلیم پر اپنے جی ڈی پی کا دو فیصد بھی خرچ نہیں کریں گے تو ایسا تو
ہو گا ۔ تعلیم پر خرچ کرنے کے لئے حکومت کے پاس وسائل نہیں اور اپنے اللوں
تللوں کے لئے بہت اور بے دریغ۔اور اگر کچھ خرچ بھی کرتے ہیں تو بغیر کسی
پلاننگ کے! غیر دانش مندانہ اقدامات اور دانش سکولز۔ سستی شہرت کے لئے ملکی
وسائل کا بن سوچے سمجھے استعمال جس کو دیکھ کر رونا بھی آتا ہے اور پھر
ہاسہ بھی نکل جاتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کی ملک میں تعلیم کے فروغ کے لئے اک جامع اور ہمہ گیر تعلیم
پالیسی کے نفاذ کی فوری ضرورت ہے جس کی بنیاد مناسب پلاننگ پر مبنی
ہو۔بنیادی تعلیم کے لازمی حصول کے لئے قانون سازی کی جائے ہر چار سال کے
بچے کا سکول میں داخلہ یقینی بنایا جائے۔ اور اس سے پہلے آبادی کے تناسب سے
ملک میں معیاری تعلمیی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے ۔کیونکہ اگر
سکولوں میں طلباءکے لئے گنجائش ہی نہیں تو اس مہم کا کوئی فائدہ نہیں سوائے
جعلی داخلوں کے جو صرف سکول رجسٹروں تک محدود ہوتے ہیں ۔اسا تذہ کو معاشی
فکروں سے آزاد کرکے اک تعلیم یافتہ قوم کی تشکیل پر لگایا جائے۔نادرا کے
ذریعے تعلیم یافتہ اور ان پڑھ افراد کا ڈیٹا بینک تیار کروایا جائے اور پھر
اس ڈیٹا کو مقامی یونیورسٹیوں کے حوالے کیا جائے۔ اور ایچ ای سی سے سالانہ
گریجوایٹ ہونے والے افراد کے اعداد شمار اکٹھے کئے جا ئیں اور اس کی روشنی
میں تعلیم با لغاں کے لیئے اک جامع پروگرام تشکیل دیا جائے۔ اس وقت تک کسی
طالب علم کو گریجوایشن کی ڈگری نہ دی جائے جب تک وہ پانچ مقامی ان پڑھ
افراد کو لکھنے پڑھنے کے قابل نہیں بناتا ۔ اس کو طالب علم کی گریڈ بک کا
حصہ بنایا جائے اور این ٹی ایس اس کو evaluate کرے ۔مثال کے طور پر ورچوئل
یونیورسٹی نے گذشتہ دو کانو وکیشنز میں تقریبا چھ ہزار افراد کو گریجو ایشن
اور پوسٹ گریجوایشن کی ڈگری دی ہے اور اگر ان میں سے ہر سٹوڈنٹ پانچ ان پڑھ
افراد کو بنیادی تعلیم دیتا تو تیس ہزار افراد کو پڑھنے لکھنے کے قابل
بناےا جا سکتا تھا اور اگر ملک کی تمام یو نیورسٹیوں کے گریجوایٹ ہونے والے
طلباءپر اس کو لازم کر دیا جائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج نکل سکتے ہیں۔
تعلیم بالغاں کے لئے اک خصوصی کورس تیار کروایا جائے جو افراد اور معاشرے
کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے ۔ قابل اساتذہ سے اس کورس کے ویڈیو لیکچر
ریکارڈ کروا کر انہیں قومی ٹی وی چینلز پر نشر کیا جائے ۔ اس کے علاوہ تمام
ٹی وی چینلز کے لائسنس کو اس بات سے مشروط کیا جائے کہ وہ روزانہ کم از کم
ایک گھنٹہ تعلیمی پروگرام نشر کریں گے تاکہ ایسے افراد کو تعلیم ان کے
دوازے پر مفت فراہم کی جائے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں اساتذہ کو تعلیم بالغاں
کے پروجیکٹ پر لگا کر شرح خواندگی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد تعلیم پر خرچ کرے
اور ہر سال اس میں بتدریج اضافہ کرے کی مفت بنیادی تعلیم آئین کی رو سے
ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ ریاست کے حکمران اپنی بنیادی ذمہ داری پوری
کریں اور ملک میں جہالت کے خاتمے کے لئے چراغِ علم جلائیں ۔
نظام کو درست کریں ورنہ ایسے نظام پر سو مرتبہ لعنت جو عوام کو بنیادی
سہولتیں تک نہ دے سکے اور حکمرانوں کو عیاشیوں کے لئے وسیع تر وسائل اور
مواقع ۔ چراغِ علم جلاﺅ بڑا اندھیرا ہے۔ |