تعلیم انسان کا وہ زیور ہے جو انسان میں شعور کی روشنی کو اجاگر کرکے اس
روشنی کے ذریعے معاشرے میں بسنے والے لوگوں ازہان میں پھیلی تاریکیوں کو
عیاں کرتی ہے جس سیایک تعلیم یافتہ انسان صحٰیح معنوں میں باشعور ہوتا ہے
اور تعلیم کی بدولت ہی انسان اچھے اور برے میں تمیز کر سکتا ہے ہمارا
معاشرہ جہاں پر صرف 40 فیصد خواندہ لوگ ہیں جبکہ ہماری حکومت اپنے دستخط
کرنے والوں کو تعلیم کے دائرے میں لا کر یہ جھوٹ بولتی ہے کہ ہمارے یہاں
خواندگی 60% ہے جو عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے اور انتہائی افسوسناک
چیز ہے۔ (Finland جو کہ تعلیم میں پہلے نمبر پر ہے اور پاکستان شائد 900
نمبر پر ہے،صرف اتنا موازنہ ضرور کریں کہ ہمارے ملک اور وہاں تعلیم میں کیا
فرق ہے؟
پاکستان ان بدقسمت ممالک میں شامل ہے جہاں ماضی میں ہمارے حکمرانوں نے
تعلیم پر کوئی خاص توجہ اور اہمیت نہیں دی کہ اگر غریب اور کمزور نے تعلیم
حاصل کر لی تو یہ ہمارے مد مقابل آجائیں گے اور ہمارا راج ختم ہو جائیگا۔
اور ہماری غلامی کرنے والے ہمارے مد مقابل آجائینگے جس کے باعث پاکستان کی
شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔ ہمارا آئین جس پر اپنی مرضی اور طاقت کے زور پر
اپنے فائدے کیلئے مروڑ لیا جاتا ہے وہ بھی ایسے لوگوں کیخلاف کچھ کرتا ہوا
نظر نہیں آتا کہ یہ دھرتی انکے باپ کی جاگیر ہے۔ اور کمزور لوگو کے بچے اس
دھرتی پر تعلیم حاصل نہی کر سکتے جو امراء، شرفاء، جاگیرداروں اور سرمایا
داروں کی آپس کی ملی بھگت ہے۔
ہمارا آئین کی شق 25-A کے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت
اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کی پابند ہے۔ اور حکومت پر یہ ذمہ داری عائد
کرتا ہے کہ وہ 5 سال سے 16 سال تک کے بچوں کو مفت تعلیم دے گی مگر شومئی
قسمت کہ ہمارے حکمرانوں نے اس پر عملدرامد نہ کیا اور آج ہم تعلیم کے
معاملے میں پوری دنیا میں 9 سویں نمبر پر ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان
میں اب بھی تقریباً 2 کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے، جس کا اظہار گزشتہ دنوں
سابقہ وزیر اعظم عمران خان نے خود کیا، جو کہ مستقبل کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
کامیابی کسی بھی مملکت کی قیادت کی طرف سے پیش کردہ حمایت کا نتیجہ ہے جو
اپنے شہریوں کو ملک کی ترقی اور نشاۃ ثانیہ میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے
سازگار ماحول بناے اور تعلیمی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا
کرتی ہے۔
پاکستان میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی وقت کی اہم ضرورت ہے، اگر ہم نے
ترقی یافتہ ملکوں کی صفوں میں کھڑا ہونا ہے تو پاکستان کو اپنے تعلیمی
اداروں میں بچوں کو جدید تعلیم دینی ہوگی اور ٹیکنالوجی کو تمام تعلیمی
اداروں میں متعارف کرانا ہوگی، جدید تعلیم کے بغیر پاکستان ترقی یافتہ
ممالک کی صف میں کھڑا نہیں ہوسکتا۔
پاکستان مین مزہب کی تعلیم دینے والیاسلامی مدارس بھی موجود ہیں۔ زیادہ تر
مدرسے اسلامی مضامین جیسے تفسیر (قرآن کی تشریح)، احادیث، فقہ (اسلامی
قانون)، اپنے اپنے فرقوں کے مطابق عربی زبان میں تعلیم دیتے ہیں اور طلباء
کو اہل بنانے کے لئے کچھ مضامین جن میں منطق، فلسفہ، ریاضی بھی پڑھائے جاتے
ہے۔ پاکستان کے غریب ترین خاندانوں میں مدارس کی تعداد ایک حصہ کے لحاظ سے
مشہور ہے کیونکہ یہ مدارس اپنی فقہ اور فرقے کے مطابق اپنے طلباء کو چندہ
جمع کرکے یا مخیر حضرات سے امداد لیکر ان مدارس میں زیر تعلیم طلباء کے
طعام و قیام کا بھی انتظام کیا جاتا ہے مدرسوں کی تعداد کا اندازہ 14،000
اور 45،000 کے درمیان ہے۔ پاکستان کے کچھ علاقوں میں وہ سرکاری اسکولوں سے
کہیں زیادہ ہیں۔ مگر حکومت کی مکمل نگرانی اور نگہداشت کے نہ ہونیہر آنے
والی حکومت ان ملاوں سے خوفزدہ ہوتی ہے جس وجہ سے ایسے مدرسوں میں ایک
دوسرے فرقے کے درمیان اخلاافات پیدا کر کے آپس میں نفرتیں پھیلائی جاتی ہیں
اور یہ نفرتیں اتنی ذیادہ بڑھ چکی ہیں کہ انکا انجام ایک دوسرے پر دہشت
گردی کرنے پر منتج ہوتا ہے۔
پاکستان کی معیشت اس وقت لڑ کھڑا چکی ہے،سیاسی اور معاشی بحران ہر گزرتے دن
کے ساتھ ساتھ شدید ہو تا جارہا ہے لیکن حیرت ہے موجودہ حکمران پھر بھی سب
اچھا کی رٹ لگائے ہوئے ہیں، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری سے ہماری
معیشت کی بنیادیں ہل گئی ہیں، مہنگائی کی شرح روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی
ہے، اگر حکمران اتحاد اپنی انائاور ضد پر ڈٹا رہا تو خدانخواستہ حالات اس
نہج پر پہنچ جائیں گے جنہیں کنٹرول کرنا مشکل ہو گا۔
حکومت کے ایک نوٹیفیکیشن جاری کر کیصوبے کے تمام سرکاری تعلیمی اداروں
بشمول کالجز اور یونیورسٹیز کی فیسوں میں 150 گنا تک اضافہ کر دیا اور یہاں
سے ریوینیو پیدا کرنے کے لئے اہداف بھی مقرر کئے ہیں اب آپ لوگ خود سوچیں
کہ آپ ایک دم 150 گنا فیس بڑھا دیں گے تو بے چارے طالب علم کا کیا بنے گا
جو اتنی محنت اور لگن سے پڑھ رہا ہے اور تعلیم حاصل کر رہا ہے۔اگر اس کے
مالی حالات ایک دم تعلیم کی فیس میں اضافہ کا بوجھ برداشت نہ کر سکے تو پھر
وہ علم کیسے حاصل کریگااور اگر وہ مالی حالت کی وجہ سے حصول تعلیم منقطع کر
دیتا ہے تو اس کا زمہ دار کون ہوگا؟ جو لوگ پرائیوٹ اداروں کی فیس افورڈ
نہیں کر سکتے وہ سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ ہماری حکومت تعلیم کو
جان بوجھ کر مہنگی کر کے شرح خواندگی گرانا چاہتی ہے؟غریب طبقہ جو بڑی مشکل
سے کما کر اور اپنا پیٹ کاٹ کر کے اپنے بچے پڑھا رہا ہے۔ حکومت کی تعلیم کش
پالیسیوں کی وجہ سے غریب کے بچے پر تعلیمی دروازے بند کر رہے ہیں؟
دوسری طرف پرائیویٹ سکول مافیا کی لوٹ مارجاری ہے جو بچوں سے بھاری فیسیں
لے کر والدین کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔شہروں میں پرائیویٹ سکولوں کی بڑھتی
ہوئی تعداد نہ صرف سرکاری سکولوں میں بچوں کی عدم توجہ کا باعث بن رہی ہے
بلکہ دوسری طرف ان پرائیویٹ سکولوں کی انتظامیہ غریب عوام کو دونوں ہاتھوں
سے لوٹنے میں مصروف عمل ہے۔نظام تعلیم تباہ ہو چکا ہے سرکاری سکولوں کی گری
ہوئی ساکھ بہتر نہیں ہو پا رہی۔سرکاری سکولوں میں مانیٹرنگ ٹیموں کے چھاپے
دکھاوے کیلئے ہوتے ہیں۔ بس چائے بسکٹ لی اور سب اچھا کی رپورٹ دے دی جاتی
ہے۔ اساتذہ کی حاضری بھی سو فیصد سے کم ہوتی ہے انہوں نے اپنے پرائیویٹ
اسکول کھولے ہوئے ہیں اور بچوں کو ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب
دیتے ہیں جس سے بچے دلبرداشتہ ہو کر ماں باپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں
سرکاری اسکولول میں نہی پڑھنا۔حکومت نے تقریباً ہر اسکول میں سٹاف کی کمی
پورا کرنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن اس کے باوجود پرائیویٹ سکول مافیا بچوں
میں احساس کمتری پیدا کر کے ان کا رخ پرائیویٹ سکولوں کی طرف موڑ رہے ہیں
اور طرح طرح کے جملے بچوں و والدین کے اذہان میں ڈال دئیے ہیں کہ سرکاری
سکولوں میں پڑھائی ہی نہیں ہوتی ٹیچر سارا سارا دن خوش گپیوں میں مصروف
رہتے ہیں۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے پرائیویٹ سکولوں میں بھاری فیسیں دے کر
بھی بچوں کو ٹیوشن لگوائی جاتی ہے جس سے غریب والدین کیلئے بچوں کو تعلیم
کے زیور سے آراستہ کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ نا ممکن بنا دیا گیا ہے۔ ان
پرائیویٹ سکولوں میں کچھ ایسے اسکول بھی ہیں جو غیر رجسٹر ر ہیں مگر ان نام
نہاد سکولوں کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جاتی کہ یہ اسکول محکمہ
تعلیم کو بھتہ دیتے ہیں۔
گزشتہ ایک سال میں کاغذ کی قیمت میں 100روپے کلو سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے،
کاغذ مہنگا ہونے سے کتابوں اور کاپیوں کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئیں۔ اب
سٹیشنری کے نرخ بھی پہنچ سے باہر ہونے لگے ہیں،کسی چیز کی قیمت 100 فیصد تو
کسی کی -80-50فیصد بڑھا دی گئی ہے، جس سے قیمتیں گزشتہ سال سے تین گنا ہو
گئی ہیں،جس پر عوام نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تعلیمی مقاصد کیلئے ا
سٹیشنری،کتابوں اورکاپیوں کی قیمتوں پر قابو پانے کے لئے فوری اور موثر
اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ بچوں کو سکول بھیجنے میں مشکلات کا سامنا نہ
کرنا پڑے۔
|