ملک وملت کا خسارہ ہے یہ لعنت چھوڑیے
(Raja Muhammad Attique Afsar, Peshawar)
(امتحانات میں نقل اور اس کے تدارک کے حوالے سے چند سطور) |
|
راجہ محمد عتیق افسر اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات قرطبہ یونیورسٹی پشاور 03005930098، [email protected]
دوران ِ امتحان نقل یا ناجائز ذرائع کا استعمال ہمارے نظام تعلیم کا ایک ناسور بن چکا ہے اور اند ہی اند ہمارے نظام تعلیم کو کھوکھلا کرتا چلا جا رہا ہے ۔ وطن ِعزیز کا تقریباًہر شخص اس ناسور کا شکار ہے اگرکوئی طالب علم دوران تعلیم خود نقل یا ناجائز ذرائع کا استعمال نہیں بھی کرتا تب بھی وہ دوسروں کو ایسا کرتے دیکھتا ضرور ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک چھوٹا سا جرم ہے جس کا تعلق تعلیم کی دنیا سے ہے تاہم یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی جڑیں معاشرے میں بہت گہری ہیں ۔ یہ ایک علمی بد دیانتی ہے ، دھوکا دہی ہے جس کا معاشرے میں پھیلی بدعنوانی چور بازاری اور دھوکا دہی سے عمیق تعلق ہے ۔ جب معاشرے کے معیارات اس قدر گراوٹ کا شکار ہو جائیں کہ لا قانونیت، اور مجرمانہ طرز سے حاصل کردہ ثروت کو کامیابی تصور کیا جانے لگے تو ایسی صورتحال میں ایک طالب علم سے یہ توقع کیونکر ہو سکتی ہے کہ وہ محض اپنی محنت اور لیاقت کی بنیاد پہ آگے بڑھے گا ۔یقینی طور پہ ہر طالب علم اسی طرح علمی میدان میں کامیاب ہو کر دکھانا چاہے گا جیسا کہ معاشرے کا ہر فرد غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کے ذریعےمعاشرے میں اعلٰی مقام کے حصول کا ساماں کر رہا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ ہمارا دیندار کہلانے والا طبقہ جو کہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہوتا ہے وہ بھی اس بیماری میں نہ صرف بری طرح مبتلاء ہے بلکہ اسے برائی کہنے سے بھی گریزاں ہے ۔ دینی مدارس اور یونیورسٹی میں دینی اسباق پڑھنے والے طلبہ بھی اس جرم میں بری طرح ملوث ہیں ۔ بہر حال نقل اور ناجائز ذرائع کا استعمال جہاں کہیں بھی ہے نہایت ہی مذموم ہے اور اس میں ملوث افرادبجا طور پر قابل مذمت ہیں ۔ اصول بیچ کے مسند خریدنے والو نگاہِ اہلِ وفا میں بہت حقیر ہو تم نقل کے رجحان کے بنیادی محرکات: 1. نقل یا ناجائز حربوں کے استعمال کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ معاشرے کی بدعنوانی (کرپشن) اور لاقانونیت تعلیم کے شعبے میں بھی نفوذ کر گئی ہے اس لیے ضروری ہے کہ معاشرے کو اس گندگی سے پاک کیا جائے ۔ 2. ہمارا نظام تعلیم چونکہ استعماری نظام تعلیم کا تسلسل ہے اس لیے یہ تعمیر و تشکیل ِمعاشرہ کے بجائے تیاری ٔ ملازمین کا کام کر رہا ہے ۔ ملازمت کے حصول اور تعلیم کے اگلے مراحل میں داخلے کے لیے سند(ڈگری) کی ضرورت ہوتی ہے وہ صحیح ذرائع سے لی گئی ہے یا ناجائز اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔طلبہ کا تعلیمی ادارے میں آنے کا مقصد صرف حصول سند تک محدود ہوتا ہے لہذا اس کے حصول کے لیے وہ ناجائز ذرائع استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ 3. امتحانی نظام صرف یاداشت کی پرکھ تک محدود رہ گیا ہے ۔ وہ طلبہ بہترین درجات پاتے ہیں جو اپنے قوت حافظہ کے ذریعے کتاب کی عبارت کو اچھے انداز میں امتحان کے دوران جوابی صفحات پہ درج کر سکیں ۔ جو طلبہ حافظے میں خود کفیل نہیں ہوتے یا پھر یاد کرنے کے لیے مطلوبہ محنت نہیں کر پاتے وہ نقل اور ناجائز ذرائع کا سہارا لیتے ہیں ۔ 4. والدین اپنے بچوں کا دوسروں سے تقابل کرتے ہیں ۔نمبرات کی دوڑ میں فاتح وہی ہوتا ہے جس کے نمبر زیادہ ہیں لہذا زیادہ نمبرات کے حصول کے لیے ناجائز ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے اور والدین اس عمل میں پشت پناہی کرتے ہیں ۔ نقل اور ناجائز ذرائع کا استعمال ایک انفرادی عمل سے بڑھ کر مافیا کی صورت اختیار کر چکا ہے اور کئی افراد کے روزگار اسی کے گرد گھومتے ہیں ۔اس ناجائز دھندے میں میں طالب علم سے لے کر اساتذہ ، امتحانی عملہ ، پرچے تیار کرنے والے اساتذہ ،چھاپہ خانہ کے منتظمین ، پرچوں کی پڑتال کرنے والے اساتذہ ، معاون ملازمین جیسے چوکیدار ، چپراسی وغیرہ ، اوررشتہ دار ، دوست احباب اور مافیا کے اہلکار ملوث ہوتے ہیں۔ان ناجائز حربوں کی مندرجہ ذیل اشکال سامنے آتی ہیں : 1. امتحانی پرچے تیار ہوتے ہی افشاں ہو جاتے ہیں ، سوالنامے ، طلبہ کے ہاتھ لگ جاتے ہیں یا ممتحن کی بابت راز افشاں دیا جاتا ہے اور امتحانی پرچوں تک رسائی دے دی جاتی ہے ۔ 2. اساتذہ پسندیدہ امتحانی مراکز طے کرواتے ہیں اور انتظامیہ پسندیدہ عملے کی ڈیوٹی لگواتی ہے ، اسی طرح طلبہ کے نامزد کردہ افراد کی امتحان میں ڈیوٹی لگائی جاتی ہے تاکہ طلبہ کو نقل کی کھلی چھوٹ دی جا سکے ۔ 3. امتحانی مراکز کی خرید و فروخت عام ہے ۔امتحانی عملے کی جانب سے مافیا کے ہاتھوں کمرہ امتحان فروخت کر کے نقل کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے ۔ 4. امتحان کے دوران کتابی مواد سے یا دوسروں کی جوابی شیٹ سے نقل کر کے لکھنا ایک عام سی بات ہے ۔ طلبہ جیبی کتب کے صفحات کمرہ امتحان میں لے جاتے ہیں اور ان سے دیکھ کر لکھتے ہیں ۔ مختصر نویسی ، یا اشارات میں لکھی تحریر کے ذریعے نقل کی جاتی ہے ،موبائل فون یا دیگر برقی آلات کا استعمال کر کے عبارت لکھ دی جاتی ہے ۔ 5. اشاعتی اداروں کی جانب سے جیبی کلیدیں (Keys ) تیار کی جاتی ہیں اور ان کی بازار میں مانگ کھپت ہے۔ اتنے چھوٹے ناپ کی کتاب تیار کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ طلبہ اسے بآسانی جیب میں ڈال کر لے جا سکیں ۔ 6. دوران امتحان ایک دوسرے سے جوابی اوراق (Answer Sheet) کا تبادلہ کیا جاتا ہے یا جوابی اوراق کو کمرہ امتحان سے باہر لے جا کر پر کر دیا جاتا ہے ۔ 7. امتحان دینے والے طلبہ کے احباب یا رشتہ دار کمرہ امتحان کے قرب و جوار سے نقل میں معاونت کرتے ہیں ۔ فون پہ سوالات کے جوابات بتاتے ہیں ۔ کبھی کبھار تو میگا فون کے ذریعے بلند آواز میں جوابات بتائے جاتے ہیں ۔ 8. تلبیس شخصی (Impersonation ) یعنی کسی اور کی جگہ بیٹھ کر امتحان دیا جاتا ہے ۔ لوگ رقم لے کر طالب علم کی جگہ امتحان دے آتے ہیں۔ 9. کمرہ امتحان میں بداخلاقی و بد زبانی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور شور شرابا کیا جاتا ہے، اسلحہ کا استعمال کیا جاتا ہے ، امتحانی عملے یا ممتحنین کو ڈرا دھمکا کر نقل کی جاتی ہے ۔ امتحانی عملے کو مرغوب(کچھ دے دلا کر ) یا مرعوب(ہراساں ) کر کے نقل کی راہ ہموار کی جاتی ہے ۔ 10. جوابی اوراق کی پڑتال کے بعد غلط نمبرات کا اندراج کیا جاتا ہے ، نمبرات میں ردوبدل کر دیا جاتا ہے ۔ بعد میں ری چیکنگ کے نام پر رقم لے کر نمبرات بدل دیے جاتے ہیں ۔پریکٹیکل امتحان کے دوران رقوم کے عوض نمبر لگائے جاتے ہیں۔ 11. جعلی اسناد کا اجراء کیا جاتا ہے ۔ 12. امتحانات کے دوران غلط ذرائع کا استعمال کر کے آگے بڑھنے والے طلبہ محض یہیں تک محدود نہیں رہتے یہ اعلٰی تعلیم کے دوران بھی اپنے ہاتھ کی صفائی دکھاتے ہیں جعلی تحقیقی مقالے پیش کرتے ہیں اور سرقہ ادبی (Plagiarism ) کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ملازمت ملنے پر کام چوری اور بد عنوانی میں نام پیدا کرتے ہیں ، کاروبار میں چور بازاری کا سبب بنتے ہیں جبکہ صنعت و حرفت اگر ان کے ہاتھ آجائے تو جعل سازی کے ذریعے قوم کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔ نقل اور ناجائز ذرائع کے استعمال کی وجہ سے ہم نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان ہی مہیا کر رہے ہیں۔ نقل کے تدارک کی کوششیں : تعلیمی اداروں سے لے کر حکومت تک نقل کو روکنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں لیکن کوئی کوشش بار آور ثابت نہیں ہوتی ۔ کچھ جگہوں پہ تو پولیس اور رینجرز تعینات کر کے بھی روک تھام کی کوشش کی گئی لیکن نتیجہ وہی گھات کے تین پات۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب کاوشیں سطحی نوعیت کی ہیں ۔ حکومت اور انتظامیہ نقل کی روک تھام کے لیے درج ذیل اقدامات کرتی ہیں : 1. حکومت نے اپنی پوری توجہ ایک مشترکہ قومی نصاب کی جانب مبذول کی ہے لیکن نقل کے مسئلے کو بنیادی اہمیت نہیں دی ۔ حکومت نے ذریعہ تعلیم انگریزی کو قرار دیا ہے جو کہ وطن عزیز میں کسی بھی شہری کی زبان نہیں ہے ۔ انگریزی میں جوابات رٹ کر لکھنا مشکل عمل ہے لہذا قوم کے نوجوان ناجائز حربوں سے اس بلا کو ٹالنے کی کو شش کرتے ہیں ۔ 2. درسی کتب قابل فہم نہ ہونے کے باعث الجھنیں پیدا کرتی ہیں تو ٹیوشن سینٹر اور کلید (گائیڈ۔۔۔Key) کا کاروبار چمک اٹھتا ہے ۔ اساتذہ تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے بجائے اپنی توجہ ٹیوشن سینٹر اور کلید سازی پہ مرکوز کر لیتے ہیں ۔ حکومت اس دھندے کو بند کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ اس دھندے سے منسلک افراد مافیا کا روپ دھارتے جاتے ہیں ۔ 3. حکومت ریاستی مشینری کی مدد سے اس عمل کو روکنے کی کوشش کرتی ہے حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ریاستی مشینری سب بدعنوان عناصر پہ مشتمل ہے۔ اسی بدعنوانی سے ان کی گھریلو خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے ۔چند ٹکوں کے عوض یہ لوگ اپنا ایمان فروخت کر دیتے ہیں اور یہ ناسور پھلتا پھولتا رہتا ہے ۔ 4. بورڈ ، تعلیمی ادارے اوریونیورسٹیاں نقل کے تدارک کے لیے سزائیں اور جرمانے عائد کرتے ہیں ۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی سزا ایسی نہیں ہوتی جو طالب علم کو اسکی غلطی کا احساس دلائے ۔ مثلا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے تو اسے بھر دینے کے بعد طالب علم بری ہو جاتا ہے ۔اس کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے رقم بھر کر جائز کو ناجائز قرار دیا جائے ۔ پرچہ منسوخ بھی کر دیا جائے تو دوبارہ دیا جا سکتا ہے لہذا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 5. اساتذہ پڑھاتے وقت تو نقل کو اخلاقی برائی کی طرح ہیش کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ خود نقل مافیا کا آلہ کار بن جاتے ہیں ۔ 6. تعلیمی اداروں اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نقل کے راستے پہ گامزن ہونے سے روکیں ۔ والدین اپنے بچوں کو فرمانبردار اور نیک دیکھنا چاہتے ہیں لیکن امتحان کے وقت وہ خود اس قبیح فعل میں ان کے پشت پنا ہ بن جاتے ہیں اور نقل کے خلاف کیے جانے والے کسی بھی سخت اقدام کے خلاف نکل پڑتے ہیں ۔ نقل کے تدارک کے لیے تجاویز : نقل اور ناجائز حربوں کا استعمال ہمارے نظام تعلیم کو زنگ آلود کر رہا ہے ۔ اس جرم کا مکمل تدارک ممکن نہیں کیونکہ یہ جرم بھی اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ابلیس کی مہلت عمل ختم نہیں ہو جاتی ۔ البتہ کچھ سنجیدہ اقدامات سے اس فعل قبیح کو کم سے کم تر سطح پہ لایا جا سکتا ہے تاکہ نقل معاشرتی و تعلیمی برائی کی حیثیت سے تو جاری رہے لیکن اس کا درجہ ایک برائی اور ایک جرم کا ہو نہ کہ یہ ہمارہ طرۂ امتیاز بن کر ہماری جگ ہنسائی کا سبب بنے ۔ اس جرم ِقبیح کے سدِ باب کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے : 1. حکومت کی باگ ڈور معاشرے کے بدعنوان عناصر سے لے کر نیک اور صالح افراد کے ہاتھ میں دینا ہو گی تب ہی نظام بدلے گا اور اصلاح احوال ہو گی ۔ اساتذہ سے لے کر امتحانی عملے کی تطہیر افکار اور تربیت کی جائے ۔ یہ بیک جنبش قلم ممکن نہیں بلکہ اس میں دہایئاں لگ سکتی ہیں۔ 2. ایسا نظام تعلیم نافذ کیا جائے جو مقصدیت سے بھرپور ہو ۔ایسا نظام تعلیم جو تعمیر انسانیت کے مقصد کے تحت ملک و معاشرے میں نافذ العمل ہو ۔ 3. طلبہ و اساتذہ کی ذہن سازی کی جائے اور نقل اور ناجائز حربوں کو جرم کی حیثیت سے ان کے قلب و ذہن میں راسخ کیا جائے ۔ حلال اور حرام کی تمیز کرائی جائے اور انہیں باور کرایا جائے کہ ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ سند شہادت ِزور کے زمرے میں آتی ہے اور اس سے حاصل کردہ کمائی حرام ہوتی ہے ۔ حرام کی کمائی سے پروردہ جسم کی نہ تو عبادت قبول ہوتی ہے نہ ہی کوئی اور عمل ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا بھی ہے کہ کمرہ ٔامتحان میں کوئی بھی ممتحن موجود نہیں ہوتا پھر بھی نقل نہیں ہوتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں ناجائز ذرائع غیر قانونی اور غیر اخلاقی حیثیت سے مذموم بنا کر راسخ کر دیا جاتا ہے ۔ 4. ایک نیا امتحانی نظام متعارف کیا جائے جس میں طالب علم کو محض اس کی قوت حافظہ کی بنیاد پہ نہ پرکھا جائے بلکہ اسکے علم ، اسکے فہم اور اسکی انطباق کی قوت کی جانچ کی جائے ۔ اس طرح نقل کے امکانات کم سے کم تر ہو جائیں گے ۔ معروضی سوالات کے ذریعے طالب علم کی معلومات اور اس کے فہم کا تجزیہ کیا جائے ۔ امتحانی سوالات ایسے ترتیب دیے جائیں جن کا حل درسی کتب میں موجود عبارت سے نہ دیا جا سکے۔ پڑتال کرنے والے ممتحنین بھی جوابات کو درسی کتب میں تلاش نہ کریں بلکہ طالب علم کی تخلیقی ، تنقیدی اور تجزیاتی صلاحیتوں کو پرکھ کر اسے درجات دیے جائیں ۔ ہر مضمون میں کچھ عملی مشقیں شامل کی جائیں جس سے طالب علم کی انطباق کی صلاحیت کی جانچ ہو سکے۔ 5. آئین پاکستان اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ذریعہ تعلیم اردو کو بنایا جائے تاکہ طلبہ کو اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے میں مسئلہ نہ ہو اور کسی سہارے کے بغیر وہ بیان کر سکیں ۔اسی طرح کسی بھی مضمون کے لیے ایک درسی کتاب نہ رکھی جائے بلکہ طلبہ کو مختلف کتب سے پڑھایا جائے اس طرح بھی نقل کے امکانات کم ہو سکتے ہیں ۔ 6. بعض ترقی یافتہ ممالک میں کھلی کتاب سے امتحان لینے کا طریق کار رائج ہے ۔ امتحان میں کتاب کھول کر سوالات حل کیے جاتے ہیں لیکن جوابات کتاب میں موجود نہیں ہوتے طالب علم کو مشقت کرنے کے بعد جوابات حاصل کرنا پڑتے ہیں ۔ اس طریقہ کار سے بھی نقل کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے ۔ 7. کمرہ ٔامتحان میں مختلف سوالنامے بنا کر ہر طالب علم کو الگ الگ سوالات دیے جائیں جیسا کہ ہمارے ٹیسٹنگ کے ادارے کرتے ہیں۔ اس صورت میں بھی نقل کے امکانات کم کیے جا سکتے ہیں ۔ 8. درسی کتب کے علاوہ کلیدیں چھاپنے پہ پابندی لگائی جائے اور ایسا کرنے والے اساتذہ کی سرزنش کی جائے تاکہ اس کلچر کا خاتمہ کیا جا سکے۔اسی طرح ٹیوشن سینٹر بنا کر قوم کے بچوں کو طفیلی بنانے والے اساتذہ کی بھی حوصلہ شکنی ہونا چاہیے ۔ 9. نقل کرنے والے طلبہ کو ایسی سزائیں دی جائیں کہ وہ آئندہ اس فعل قبیح سے باز رہیں ۔ جیسے ان کی سند میں ہی لکھ دیا جائے کہ یہ ناجائز ذرائع کے استعمال کا مرتکب ہوا ہےایسی سند کی بنیاد پر اسے مستقبل میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ لا محالہ طلبہ اس عمل سے خود کو بچائیں گے ۔اسی طرح کچھ عرصے کے لیے ان کی سند کی تصدیق نہ کی جائے وغیرہ وغیرہ 10. جو تعلیمی ادارے یا اساتذہ اپنے شاگردوں کو نقل سے باز رکھنے میں ناکام ہو جائیں انہیں بھی ناکام تصور کرتے ہوئے اس ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا جائے یا انہیں سزا دی جائے ۔ اس طرح بھی نقل کو روکنے میں مدد ملے گی ۔ 11. والدین اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ وہ اپنی اولاد کی تعمیر شخصیت کے لیے سکول کالج یا یونیورسٹی بھیج رہے ہیں لہذا وہ اپنے بچے کو کسی غیر اخلاقی سرگرمی کا حصہ نہ بننے دیں ۔ اپنے بچے کی کسی بھی ایسی حرکت کی حوصلہ افزائی نہ کریں جو غیر اخلاقی ہو اور دھوکہ دہی میں شامل ہو۔یاد رکھیں اگر آج وہ کسی کو دھوکا دے رہا ہے تو کل وہ آپ کا وفادار اور تابعدار بھی نہیں رہے گا ۔ 12. نقل اور ناجائز ذرائع کا تدارک کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کی سفارش بھی بعض حلقوں کی جانب سے کی جاتی ہے جیسے سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب ، سکینر کی تنصیب اور بائیو میٹرک حاضری وغیرہ وغیرہ ۔اسکے ساتھ ساتھ نئے اور اجنبی (دوسرے اضلاع یا صوبوں سے تعلق رکھنے والے ) اساتذہ کی ڈیوٹی لگانے کی تجاویز بھی حکومت کو دی جاتی ہیں ۔یہ سب نقل کی بیماری کے لیے وقتی نوعیت کے علاج ہیں ۔ جب مطمعٔ نظر دھوکا دہی ہو تو ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کے نت نئے طریقے بھی دریافت کر لیے جاتے ہیں ۔ جو لوگ اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے انسانوں کو دھوکا دیتے ہیں ان کے لیے ٹیکنالوجی یا مصنوعی عقل (Artificial Intelligence) کو دھوکا دینا کوئی بڑی بات نہیں ۔ طلبہ ، والدین ، اساتذہ ، انتظامیہ اور امتحانی عملے کو باور کر لینا چاہیے کہ امتحان محض طلبہ کے حافظے کا نہیں ہے بلکہ امتحانات سے جڑے ہر شخص کی روح اور اس کے کردار کا امتحان ہے ۔ اس امتحان میں ہر ایک نے خود کو کامیاب ثابت کرنا ہے ۔ دنیا میں قانون شکنی کر کے اور ناجائز حربوں کے ذریعے اگر آپ کسی مقام تک پہنچ بھی جائیں تو اللہ کی پکڑ سے پھر بھی بچ نہیں سکتے ۔ روز محشر کون سا حربہ استعمال کریں گے اور اگر وہاں سنائے گئے نتیجے میں فیل پائے گئے تو آپ کا کیا بنے گا ۔ اگر وطن عزیز میں تعلیم کے شعبے سے جڑے افراد سنجیدگی سے اس مسئلے کے حل کے لیے سوچیں اور اس کے تدارک کے لیے کمر بستہ ہو جائیں تو ہم اس لعنت سے خود کو پاک کر لیں گے جو ہماری روشنی کو ماند کر کے ہمیں اندھیروں کی پستیوں میں دفن کرنے کا موجب بن رہی ہے۔
|