گوشت کے ”بار بی کیو“ سے تو بار ہا آپ نے لطف اٹھایا
ہوگا‘ آئیں، آج سوات میں تیار ہونے والے ایک ایسے بار بی کیو کا مزہ لیں جس
میں گوشت وغیرہ کی بجائے مکئی کے بھٹے سٹے یا چھلیاں استعمال ہوتی ہیں،
وادی سوات میں ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں مکئی کے یہ بھٹے تیار ہوتے
ہیں تو گاﺅں کے لوگ اپنے شہری دوستوں کو دعوت دے کر مکئی کے کھیتوں میں لے
جاتے ہیں، چھلیوں کو توڑ کر آس پاس سے لکڑیوں کو جمع کرکے چھلیوں کو ہرے
بھرے غلاف یعنی قاشہ سمیت لکڑیوں میں لٹکاکر اس کو آگ لگا لیتے ہیں، اس عمل
کو پشتو زبان میں” تراڑ “کہتے ہیں۔جب یہ چھلیاں اپنے سبز غلاف سمیت آگ میں
جل جاتی ہیں تو بیچ میں سے بھنے ہوئے بھٹے نکالے جاتے ہیں جس کو دیکھیں تو
نظریں خیرہ ہو جائیں اور کھائیں تو زبان کو قرارآ جائے، اس کے ساتھ ساتھ
کھانے کو اخروٹ کی گری مل جائے تو کھانے والوں کو مزہ آجائے اور دیکھنے
والے بس انگور کٹھے ہیں کا ورد شروع کرتے جائیں اور ہاں اس دوران اگر رباب
کی مست دھنوں سے مزین کانوں میں رس گھولتی موسیقی کا بھی بندوبست ہو اور
موسم بھی شہری آلودگی اور شور شرابے سے دور ہو تو دل ودماغ کو کچھ دیر کے
لئے ہی سہی‘ واقعی قرار آ جائے۔ویسے تو مکئی کے بھنے ہوئے ،پکے ہوئے یا
فرائی کئے گئے بھٹے پوری دنیا میں ہر عمر، ہر صنف اور ہر مذہب کے پیروکاروں
کا من بھاتا کاجا ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن میں مکئی موسم خریف کی اہم فصل ہے، اس
کا آٹا بھی صحت کے لئے فائدہ مند ہے اور تیل بھی لیکن آج ہم آپ کو اس
انوکھی بار بی کیو تیار کرنے اور اس سے مزہ لینے کے بارے میں پورا احوال
سنائیں گے کہ کیسے خیبر پختونخوا کے سیاحتی علاقے سوات اور ملحقہ علاقوں کے
رہائشی اس انوکھی ثقافتی سرگرمی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
تراڑ کے حوالے سے کئی ثقافتی رنگ سے مزین قصے بھی مشہور ہیں جسے آگے چل کر
بیان کریں گے، کھیتوں میں مکئی کی فصل تیار ہوتے ہی کسان اس کو بھٹوں کی
شکل میں فروخت کرنے کے لئے بھی منڈیوں میں بھیجتے ہیں کیونکہ تازہ پک کر
منڈی میں آنے والے بھٹے چاہے جیسے بھی یعنی روسٹ کرکے، اُبلے ہوئے پانی میں
اور یا بھٹے توڑ کر اوردانہ دانہ کرکے جسے مقامی زبانی میں ”نی نے“ کہا
جاتا ہے تیار کئے جائیں ہر طرح سے لوگ کھانا پسند کرتے ہیں بھٹے توڑ کراور
دانہ دانہ کرکے ”نی نے“ بھی تین طریقوں سے تیار کئے جاتے ہیں روٹی پکانے
والے توے پر روسٹ کرکے جس میں اکثر ہلکا سا گھی کا تڑکہ بھی شامل کیا جاتا
ہے جبکہ تازہ بھٹے سے تیار کردہ ”نی نے“ کافی خستہ ہوتے ہیں اور اسے دانتوں
سے محروم بزرگ بڑے شوق سے کھاتے ہیں، ذرا سخت بھٹے سے بھنے گئے کرارا ”نی
نے“ نوجوانوں کی مرغوب ہوتے ہیں۔تراڑکا خوبصورت رنگ دوسروں کے کھیت سے
بلااجازت ڈھیر سارے بھٹے توڑ کر کھانے میں ہے ۔
کسی پرائے کھیت سے بھٹے توڑ کر کھانے کے حوالے سے ایک کہانی بھی مشہور ہے
کہ ایک نابینا شخص رو ز ایک کھیت سے مالک کی اجازت کے بغیر بھٹے توڑتے وقت
اپنے آپ سے کہتا ہے کہ ”حافظ صاحب “ بھٹے توڑ لے! پھر خود ہی اپنے آپ کو
اجازت دیتے ہوئے کہتا کہ حافظ صاحب جتنے چاہے بھٹے توڑ لے اس طرح وہ بھٹے
اپنے آپ پر حلا ل تصور کرکے توڑتا یہ سلسلہ کافی عرصہ چلتا رہا جس سے کھیت
کا مالک کافی پریشان ہو اکہ کون اس کے کھیت کو اُجاڑ رہا ، ایک دن چھپ کر
اس نے سارا ماجرا دیکھا تو اگلے دن جب ”حافظ صاحب “بھٹے توڑنے آئے اور حسب
معمول اپنا جملہ دُہرایا تو جواب میں کھیت کے مالک نے کہا کہ بلا اجازت
بھٹے توڑنے پر کھیت کا مالک حافظ صاحب کو دو چار ڈنڈے مار لے اور پھر حافظ
صاحب کی تقلید کرتے ہوئے خودکو اجازت دی کہ بے شک مار لے اور پھر حافظ صاحب
کی جو دُرگت بنائی تو اس کو بھاگتے ہی جان بچانا پڑا اور یوں کھیت کے مالک
کو اس عذاب سے نجات ملی۔
”تراڑ “کا اصل مزہ یہ ہے کہ یار لوگ جمع ہوکر باﺅجود اس کے کہ ان کے اپنی
کھیت بھی ہوتے ہیں لیکن وہ از راہ تفنن دوسروں کے کھیت سے بہت سارے بھٹے
توڑ کر انہیں ایک میدان میں جمع کرتے ہیں اور پھر ڈھیر سارا آگ جلاکر اس
میں بھٹوںکو خوشوں سمیت ڈال کر جلانے کی حدتک روسٹ کرکے نکالتے ہیں اور پھر
خوب مزے مزے لے لے کر کھاتے ہیں ، دہکتی آگ کے شعلوں میں جلے اَدھ جلے ،کچے
پکے بھٹے پکانے کے بعد کھاتے ہوئے صاحب استطاعت لوگ اعلیٰ قسم کے اخروٹ
کھانے کا بھی اہتمام کرتے ہیں اور اگر حالات اجازت دیں تو پھر موسیقی کا
تڑکہ لگانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے جس سے اس شغل میلہ کا مزہ اور بھی
دوبالا ہوجاتا ہے ۔
آج کل کی مصروف زندگی میں دیہات ختم ہوکر شہری علاقوں میں تبدیل ہونے کی
وجہ سے یہ شوق کا فی حدتک محدود ہوگیا ہے تاہم دیہاتی علاقوں میں کہیں کہیں
پر اس کا اہتمام اب بھی کیا جاتا ہے خاص طورپر جب کسی کا اپنا پیارا رشتہ
دار یا دوست وغیرہ دیار غیر میں طویل عرصہ رہنے کے بعد اس موسم مہمان بن
کرآجائے پھر تو سونے پر سہاگہ والی بات بن جاتی ہے ۔ایسے میں دوست اور رشتہ
دار مہان کی دیگر مہمانداری کے ساتھ ساتھ اس کے لئے کسی پرفضا مقام پر
”تراڑ“کے بہانے ہلہ گلہ کا پروگرام بنایا جاتاہے۔
ایسے ہی ایک خوبصورت پروگرام جس کا اہتمام علاقے کی معزز شخصیات افضل شاہ
باچا اور حسین شاہ باچا نے اپنے بھائی رحیم شاہ جو طویل عرصہ بعد انگلینڈ
سے آئے تھے ان کی اعزاز میں کیاتھا اور اس میں اپنے بھائی کے غیر ملکی
دوستوں، محکمہ زراعت سے ریٹائرڈ افیسر اورمشہور ادیب ومعروف کالمسٹ فضل
مولا زاہد سمیت ”فیملی“ کی ٹیم کو بھی مدعوکیا تھا، راقم اپنے میڈیا کے
دوستوں سید شہاب الدین، شفیع اللہ ، نیاز اورفضل کے ساتھ سوات کے تاریخی
گاﺅں نجی گرام پہنچے جس میں زمانہ قدیم کے بے شمار آثار اب بھی موجود ہیں
اور جسے آرکیالوجیکل سائٹ کا درجہ دیا گیا ہے اس کی ایک بلند وبالاپہاڑی
میں شام کے وقت اس خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔تقریب کے مقام پر
پہنچنے کے لئے جیسے ہی ہم اس دشوار گزار جگہ پر پہنچے تو شام کے سائے
پھیلنا شروع ہوگئے تھے ایک بڑے میدان میں رباب،ڈھول اور ہارمونیم پر فنکار
موسیقی کے خوبصورت دھنیں بکھیر رہے تھے جس سے خاموش پہاڑی ماحول میں عجب
سماں بند ھا ہوا تھا ۔مہمانوںکے اکھٹا ہونے پر ایک کھلے مقام پر بہت ساری
لکڑیوںکو کھڑا کرکے اس میں بے شمار بھٹے لگا کر آگ جلائی گئی جس نے دیکھتے
ہی دیکھتے ان ذائقہ دار بھٹوںکو ایک دومنٹ میں روسٹ کرلیا جسے تمام مہمان
اعلیٰ قسم کی اخروٹ کے ساتھ مزے مزے لے کر کھا کر ان لمحات کو موسیقی کی
دھنوں میں یادگار بناتے رہے تمام دوستوں نے خوبصورت لمحات کو کیمرے کی آنکھ
سے بھی محفوظ کیا اور یوں پوری طرح تاریکی چھانے تک یہ خوبصورت محفل جاری
رہی ۔
سوات آنے والے سیاح مہمان جب بھی اس موسم میں سوات آئیں توان کے لئے اس قسم
کی تقریب میں شرکت کے لئے سوات کے کسی یار دوست کی رستگاری ضروری ہے تاکہ
وہ ان کےلئے کسی کھیت کھلیان میں اس طرح کی تقریب کا اہتمام کرسکیں ورنہ
اپنے طورپر ایسی تقریب کا اہتمام ممکن نہیں تاہم مختلف طریقوں سے پکائے گئے
بھٹے کھانے کے لئے آپ کو کہیں سے بھی مل سکتے ہیں۔
|