محترم قارئین آج ہمارے ملک میں ن لیگ کی حکومت آتی ہے
تواپوزیشن میدان میں حکومت گرانے میں لگ جاتی ہے اگرپیپلز پارٹی
اقتدارسنبھالتی ہے تواپوزیشن حکومت کو ناکام بنانے کیلئے تگ ودوکرنے لگتی
ہے اور تحریک انصاف کی حکومت آئے اپوزیشن توپی ڈی ایم کے روپ میں حکومت کو
ناکوں چنے چبوانے کیلئے ایک جٹ ہوجاتی ہیں کیاکبھی کسی سیاستدان نے یہ
یادکرنے کی کوشش کی ہے کہ قائداعظم محمدعلی جناح نے انگریزوں اورہندؤں سے
اس لیے الگ ملک بنایاتھاکہ اپنے مفاد کی خاطرملک کو داؤ پرلگادیں ایک جگہ
پڑھاتھاکہ پاکستان کی آزادی کے وقت شہر میں اعلان ہواتھاکہ ایک سپیشل ٹرین
مسلمانوں کو لیکر پاکستان جائے گی اور ملٹری اس ٹرین کی حفاظت کرے گی۔ شہر
کے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کیلئے یہ ایک گھناؤنی سازش تھی جس کی
شہر کے مسلمانوں کو بروقت خبر ہوگئی مگر اس کے باوجود بہت سے گھرانے اپنا
مال و اسباب لیکر اس ٹرین پر سوار ہوگئے۔ مگرایک رحم دل افسرنے کچھ لوگوں
کوبتایاکہ یہ ٹرین منزل مقصود پر نہ پہنچ سکے گی،توکچھ لوگوں نے ان کی بات
پرتوجہ کی کچھ نے کان ہی نہ دھرے کیونکہ آزادی کی نعمت سے لطف اٹھاناچاہتے
تھے اگلے روز علی الصبح یہ ٹرین جو بغیر چھت کے 82چھکڑوں پر مشتمل تھی،
جالندھر کی طرف روانہ ہوئی تو اس کی رفتار گدھے کی سی تھی۔ بظاہر کچھ
باوردی فوج بھی اس کی حفاظت کیلئے اس کے ہمراہ تھی، ابھی یہ ٹرین ریاست کی
حدود سے باہر نکلنے بھی نہ پائی تھی کہ اس کا انجن ایک جھٹکے کے ساتھ پٹڑی
سے اتر گیا۔ اس مقررہ مقام پر چاروں طرف مسلح سکھ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے
مطابق کھیتوں میں چھپے بیٹھے تھے انہوں نے بے دردی سے ٹرین پر حملہ کر دیا۔
جالندھر چھاؤنی سے رجمنٹ کے چند جوان اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر
موٹرسائیکلوں پر فوری طور پر اس جگہ پہنچے ، جنہوں نے اپنی مشین گن کی بھاڑ
مار کر سینکڑوں سکھوں کو جہنم واصل کر دیا، باقی میدان سے بھاگ نکلے۔جس کے
بعد انہوں نے ٹرین کا کنٹرول خود سنبھالا اور بچے ہوئے مسلمانوں کو حفاظت
کے ساتھ جالندھر سٹیشن تک پہنچا دیا۔کیمپوں میں پہنچنے پرجیسے جیسے اردگرد
کے دیہات سے مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں شہر میں پہنچ رہی تھیں، شہر وں
کے مسلمانوں کے دلوں میں دکھ ڈر تشویش اور اضطراب میں اضافہ ہو رہا تھا۔
قتل غارت روز کا معمول بن چکی تھی۔نو آزاد مملکت میں لوگ ایک دوسرے سے
بغلگیر ہو کر مبارکبادیں دے رہے ہوتے تھے۔پاکستان پہنچ کر بچے، بوڑھے،
جوان، عورتیں اور مرد سب کے چہرے خوشی و مسرت سے دمک اٹھتے۔ اپنے گھربار
چھوڑنے ، عزیزواقارب سے بچھڑنے ، آزادی کی راہ میں دی گئی اَن گنت قربانیوں
اور مسلمانوں کی 150سالہ جدوجہد کا یہ ثمر ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے
دیکھا اور جس کو قائداعظم محمد علی جناح کی مدبرانہ اور ولولہ انگیز قیادت
نے حقیقت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ اور آج الحمدﷲ ہم ایک آزاد
مملکت پاکستان میں سانس لے رہے ہیں۔برصغیر پاک و ہند کی تاریخ
میں23مارچ1940کا دن اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اس دن برصغیر کی واحد
نمائندہ جماعت مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اپنے27ویں
سالانہ اجلاس میں ایک واضح لائحہ عمل کا اعلان کیا۔ہندوستان کے ہر خطے میں
الگ الگ زبان بولی جاتی ہے الگ الگ لہجہ اختیار کیا جاتا ہے لہذا برطانوی
نظم ہندوستان کے حالات سے موافق نہیں بلکہ دو الگ الگ مملکتوں کا قیام اس
مسئلہ کا حل ہے‘‘۔یہاں پراگرمیں سرائیکی صوبہ کی بات نہ کروں توزیادتی ہوگی
کیونکہ پنجاب میں 8کروڑ سرائیکی بولنے والے ہیں اورسرائیکی خطے کی سب سے
بڑی اوررجسٹرڈجماعت سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی طویل عرصہ سے اسی بات
پرتوجہ دلوارہی ہے کہ سرائیکیوں کی زبان اورثقافت الگ ہے اس لیے یہ الگ
صوبہ ہوناچاہیے مگراندھے گونگے بہرے سیاستدانوں کے کانوں پرجوں تک نہیں
رینگتی۔بات ہورہی تھی قراردادکی تومارچ1940ء کو منٹو پارک میں قائد اعظم
محمد علی جناح کی زیر صدارت مسلم لگ کا سالانہ اجلاس شروع ہو اس چار روزہ
اجلاس کی گہما گہمی میں پورے ہندوستان سے مسلمان راہنما اور ان کے وفود
شریک ہو رہے تھے۔ اس اجلاس میں ہندوستان بھر سے۰۵ ہزار سے زائد مندوبین نے
شرکت کی تھی۔ اس موقع پر قائد اعطم نے فی البدیہہ صدارتی خطبہ ارشاد فرمایا
جس میں انہوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ ان تاریخی امور کا ذکر کیا جس کی بنیاد
پر دو الگ الگ ممالک کا قیام از حد ضروری قرار پایا۔ قائد اعظم نے اپنی
خطبہ میں اس اجلاس میں ایک تاریخی پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’ہندو اور
مسلم دو فرقے نہیں بلکہ دو قومیں ہیں۔اس لئے ہندوستان میں پیدا ہونے والے
مسائل فرقہ وارانہ نہیں بلکہ بین الاقوامی نوعیت کے ہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا
ہندوستان کے مسلمان آزادی چاہتے ہیں لیکن ایسی آزادی نہیں جس میں وہ ہندووں
کے غلام بن کر رہ جائیں۔ ’یہاں مغربی جمہوریت کامیاب نہیں ہو سکتی۔چونکہ
یہاں ہندو اکثریت میں ہیں اس لئے کسی بھی نوعیت کے آئینی تحفظ سے مسلمانوں
کے مفادات کا تحفظ ممکن نہیں۔ مسلمانوں کے ان مفادات کا تحفظ صرف اسی صورت
میں ممکن ہے کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلم انڈیا میں تقسیم کر دیا
جائے۔ہندو مسلم مسئلہ کا صرف یہی واحد حل ہے اگر مسلمانوں پر کوئی اور حل
تھوپا گیا تو وہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہو گا‘‘۔قائد اعطم کے اس کلیدی
خطبہ نے اس اجلاس کا ایک واضح مقصد متعین کر دیا ۔23مارچ کو شیر بنگال
مولوی فضل الحق نے قائد اعظم کی مذکورہ تقریر کی روشنی میں وہ تاریخی قرار
داد پیش کی جس کو قرار داد لاہور کا نام دیا گیا ہے۔23 مارچ کا سورج برصغیر
کے مسلمانوں کے لئے ایسی نوید لے کر چڑھا کہ جس کی روشنی میں کفار مات کھا
گئے۔23 مارچ 1940 کے روز پاکستان کے تصور نے ایک ایسی حقیقت کا روپ دھارا
کہ کفرحیران وپریشان رہ گیا۔قارئین قائداعظم محمدعلی جناح نے اس دن 22 مارچ
1940 کو ڈھائی گھنٹے فی البدیہہ خطاب کیافرمایا کہ… ’’مسلمان کسی بھی تعریف
کی رو سے ایک قوم ہیں۔ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں سماجی عادات
اور علوم سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ لوگ نہ تو آپس میں شادی کر سکتے ہیں نہ
اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں اور یقیناً ہندو اور مسلمان دومختلف تہذیبوں جو
بنیادی طور پر اختلافی خیالات اور تصورات پر محیط سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ
اقرارداد لاہور جو بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ جس کی
تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کی،اسی قرار داد میں پاکستان کا مطالبہ
کیاگیا ہے۔قائداعظم نے قرار داد کی منظوری کے بعد اپنے سیکرٹری سے
فرمایا!’’اے کاش ااج اقبال زندہ ہوتے تو وہ یہ دیکھ کر بے حد خوش ہوتے کہ
بالااخر ہم نے آج وہی کچھ کیا جو وہ چاہتے تھے‘‘ اگر سوچا جائے تو کیا
پاکستان اسلیئے حاصل کیا تھا کہاآج اس پاکستان کے لوگ نئے پاکستان کے نام
پرلبرل پاکستان کا نعرہ لگائیں؟کیااس لیے بناتھاکہ میراجسم میری مرضی؟کیا
پاکستان دو ٹکڑے کرنے کے لیے بنایا گیا تھا؟کیاپاکستان اس لیے بناتھا کہ
دہشت گردبنانے والے ہم ہیں؟کیاپاکستان اس لیے بناتھا کہ کرپٹ ترین حکمران
ہم ہیں؟کیاپاکستان اس لیے بناتھا کہ انگریز وہندؤں سے آزادی تولے لیں
مگراپنے ملک کے مافیاکے ہاتھوں غربت سے مرجائیں خدارا پاکستان کو اس دیمک
سے بچائیں جو اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے درپے ہیں۔اﷲ میرے ملک کاحامی
وناصرہو |