سوات میں آرٹ کے نادر نمونہ بدھا کے تاریخی مجسمہ کی دوبارہ تعمیر وبحالی

بدھا کا تاریخی مجسمہ بحالی کے بعد

سوات میں کشیدہ حالات کے دوران عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تباہ شدہ ساتویں صدی میں بنایا گیابدھ مت کے پیشوا بدھا کے جنوبی ایشیا ءمیں کسی چٹان پر بناسب سے بڑا مجسمہ دوبارہ مرمت کرکے بحال کردیا گیا ۔ تاریخی مجسمے کو دیکھنے کے لئے بدھ مت کے پیروکاروں سمیت دُنیا بھر سے سیاحوں نے سوات کا رُخ کرلیا،یہ تاریخی مجسمہ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے شمال کی جانب تقریباً آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پرواقع منگلور گاﺅں کے علاقے جہان آباد میں چٹان پر بنایا گیا ہے،ماضی کے تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ ساتویں صدی میں اہم تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا اور اسی اہمیت کی بناءپر جہان آبا دکے مقام پر آنے والے زائرین کو عبادت میںآسانی کے لئے اس مقام کی اہمیت کی بناءپر بدھا کا یہ عظیم الجثہ مجسمہ بنایا گیا تھا۔سوات میں بدترین حالات کے دوران جہاں دیگر انفراسٹرکچر کو تباہ کیا گیا وہاںستمبر 2007 میں عسکریت پسندوں نے بارودی مواد سے اس تاریخی مجسمے کو بھی تباہ کیا، بتایا جاتا ہے کہ یہ تاریخی مجسمہ زمین سے 21 فٹ اونچا ئی پر بنایاگیا ہے جبکہ اس کی چوڑائی 12 فٹ ہے ، مزے کی بات یہ ہے کہ اس مجسمے کو عمودی چٹان پر اس اندازسے بنایا گیا ہے کہ اسے کسی صورت چھونا ممکن نہیں۔ اسے چھونے کے لئے پہاڑ کی اونچائی سے رسہ کے ذریعے اور یا باقاعدہ سیڑھی لگا کر ہی چھوا جاسکتا ہے اور اسی خصوصیت ہی کی وجہ سے عسکریت پسندبھر پور کوشش کے باﺅجود اس تاریخی مجسمے کو مکمل طورپر تباہ نہیں کرسکے ۔ سوات میں کشیدگی کے دوران 30 ستمبر 2007 کو عسکریت پسندوں نے رسے کے ذریعے جھول کر مجسمے کے چہرے، سراور دیگر حصوں میں ڈرل مشین کے ذریعے سوراخ کرکے اس میں بارودی مواد ڈال کر تباہ کرنے کی کوشش کی اس کوشش میں مجسمے کے چہرے کو شدید نقصان پہنچایا گیا ۔

اس واقعے کے بعد پاکستان کو بیرونی دُنیا کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن حالات موافق نہ ہونے کی وجہ سے اس مجسمے کی بحالی کا کام بروقت نہ ہوسکا ،تاہم اب اطالوی مشن کی خصوصی اقدامات کی بدولت اس مجسمے کو جدید ترین 3D لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کی اصل شکل میں بحال کردیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے اس مجسمے کے دیگر حصوںکو بھی نشانہ بنایا تھا جس سے اس کے خدوخال کو جزوی نقصان پہنچایا گیا تاہم چہرہ بری طرح مسخ کیا گیا تھا جس سے ماہرین آثار قدیمہ اور بدھ مت کے پیروکاروں میں شدید غم غصہ پایا جاتا رہا،سوات میں فوجی اپریشن کے نتیجے میں بحالی امن کے بعد جہاں دیگر انفراسٹرکچر کی بحالی کے اقدامات شروع ہوئے وہاں اس مجسمے کی بحالی کے لئے بھی ماہرین آثار قدیمہ نے اپنی کوششیں تیز کردیں۔

اٹلی کے ماہرین آثار قدیمہ پر مشتمل ٹیم کی سربراہی میں اس مجسمے کی بحالی کے لئے چھ سائنسی مشن تعینا ت کئے گئے جو طویل تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ جدید سائنسی عمل کے ذریعے اس تاریخی مجسمے کو بحال کیا جاسکتا ہے،ان ماہرین کی زیر نگرانی میں بحالی کا عمل سال 2012 میں شروع ہوا ۔ انہوں نے چار سال تک سخت محنت کرتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر آخر کا ر2016 میں چار سال کی طویل جدوجہد کے بعد اس مجسمے کو اس کی اصل حالت میں دوبارہ بحا ل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔بحالی کے اس عمل میں اطالوی مشن کے ڈاکٹر لوکاماریا کی سربراہی میں بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم جدید آلات سے لیس 3D لیزر اسکین کے ماہرین سمیت پانچ مقامی افراد کے علاوہ 20 فیلڈ ورکرز‘2ماہر ترکھان اور تین واچ کیپردن رات اس مجسمے کی بحالی کے عمل میں مصروف رہے۔ اس مجسمے کی اصل حالت میں بحالی کے لئے3D لیزر کا مکمل جدید سامان اٹلی یونیورسٹی کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا۔ آثار قدیمہ کے کمیونٹی برائے سیاحتACT) (فیلڈ اسکول اطالوی حکومت کی تعاﺅن سے اس تاریخی مجسمے کی بحالی کا عمل مکمل کیا گیا ۔ یہ منصوبہ آثار قدیمہ خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ برائے عجائب گھروں اور اطالوی مشن کامشترکہ منصوبہ تھا جسے مشترکہ کوششوں کی نتیجے میں مکمل کرلیا گیا۔ اس میں کولمبو کی حکومت نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔

اس مشن کے ارکان جنہوں نے افغانستان کے علاقے بامیان کے پرانے آثار جسے بھی عسکریت پسندوں نے افغانستان میں عسکریت طالبانائزیشن کے دوران تباہ کیا تھا اور انہوں نے ان آثار کی بحالی میں بھی اپنا کردار ادا کیا تھا کا کہنا ہے کہ جہان آباد منگلور میں موجود بدھا کا یہ مجسمہ بہت ہی تاریخی ہے جس کی بحالی کا کام کرتے ہوئے ہمیں بہت مزہ آیا ۔آثار قدیمہ کے پاکستانی ماہر سید نیاز علی شاہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک تاریخی مجسمہ ہے جو جنوبی ایشیا ءمیں اپنی منفرد حیثیت رکھتا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ تاریخی آثار کے مطابق اس مجسمے کی اپنی ایک الگ پہچان ہے، ساتویں صدی کے اس زمانے میں یہاں پر بدھ مت مذہب کے حوالے سے ایک بڑی عبادت گاہ(بدھ مندر) کے بھی آثار ملتے ہیں جو اب معدوم ہوچکے ہیں اور بدھ مذہب کے لوگ یہاں آکر اس عبادت گاہ کے گرد گھومتے ہوئے عبادت کرتے رہتے تھے جس طرح مسلمان خانہ کعبہ کے گرد گھومتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اطالوی حکومت کے مشکور ہیں جنہوں نے جدید 3D لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے اس تاریخی مجسمے کو دوبارہ اصل حالت میں بحال کردیا ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ علاقہ اور یہ مجسمہ ایک بار پھر سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے اور اس سے سوات کی سیاحت اور معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔

اس مجسمے کے دوبارہ بحالی سے سوات میں بدھ مت کے پیروکاروں کی آمد ایک بار پھر سے شروع ہوچکی ہے اور یہ علاقہ ان بیرون ممالک کے لوگوں کے لئے پھر سے سیاحتی مرکز بن چکا ہے ۔نوسال کے طویل وقفے کے بعدبدھا کے اس تاریخی مجسمے کی دوبارہ بحالی کی خبر نے دنیا کو ایک بار پھر سوات کی جانب متوجہ کرلیا، اب تک کئی ملکی و غیر ملکی وفود یہاں کا دورہ کرچکے ہیں۔ روس کے ایک وفد نے دورہ کرتے ہوئے اس مجسمے کے قدرتی محل وقوع اور آرٹ کے حوالے سے بتایا کہ یہ آرٹ کا نہایت ہی نادر نمونہ ہے ۔بدھا کا یہ مجسمہ اپنی عمر اور نقش ونگار کے حوالے سے منفرد حیثیت رکھنے کے علاوہ حیرت انگیز بھی ہے کیونکہ اسے اس انداز سے بنایا گیا ہے کہ اسے کسی صورت آسانی سے نہیں چھوا جاسکتا ہے اور یہی وجہ اس کی مکمل تباہی میں رکاوٹ رہا۔

غیر ملکی ماہرین اور سیاحوں کا کہنا ہے کہ چونکہ اب سوات میں مثالی امن قائم ہوچکا ہے اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ سیاحت اور پرانے آثار میںدل چسپی رکھنے والوںکو سوات آ کر سوات میں موجود ان تاریخی مقامات کی سیر کرکے لطف اندوز ہونا چاہئے ۔سوات میں سکیورٹی کا اب کوئی مسئلہ نہیں ہے ، سکیورٹی اداروں کے اہلکار ہر جگہ موجود ہیں جو تحفظ کے حوالے سے تمام تر اقدامات بروقت اور اچھے طریقے سے اُٹھارہی ہیں۔

اس مجسمے کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ سوات ساتویں صدی میں اہمیت کا حامل علاقہ رہا ہے اور یہاں بڑے بڑے تجارتی مراکز ہوا کرتے تھے جس کی وجہ سے جنوبی ایشیاءکے اکثر ممالک کے وفود تجارت اور سیاحت کی غرض سے یہاں آیا کرتے تھے اور اسی بناءپر سوات کو خاص مقام حاصل تھا ، تاریخی حوالوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سوات کے لوگ ماضی میں بھی نہایت ہی مہمان نوازاور نہایت خوشحال تھے،سوات میں مہمان نوازی کی صدیوں پرانی روایات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ تاریخی بدھا مجسمہ کی دوبارہ بحالی کے حوالے سے اب یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے تاریخی مقامات میں لوگوں کی دل چسپی برقراررکھنے کےلئے مزید اقدامات اُٹھاتے ہوئے ان مقامات تک سیاحوں کی رسائی کو ممکن بنائے تاکہ ملکی وغیر ملکی سیاحوںکو یہاں آنے میں درپیش مشکلات کا خاتمہ ہوسکے اور سیاح بلا کسی رکاوٹ کے یہاں پہنچنے کے لئے راغب ہوسکیں جس سے یقینی طورپر یہاں کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 43 Articles with 26308 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.