ماں اولاد کی پہلی درسگاہ

ماں جب مرتی ہے تو زندگی کا مفہوم ہی ختم ہو جاتا ہے، خدارا اپنی ماؤں کی قدر کیجیے۔

ہر شہر میں ہر بستی آباد نہیں ملتی، دیوار تو ملتی ہے بنیاد نہیں ملتی، ماں تو ہر ایک اولاد کو ملتی ہے بہت اچھی ، ہر ماں کو مگر اچھی اولاد نہیں ملتی۔۔۔۔

ماں نام ہے عزت و وقار کا، ماں نام ہے محبت کا۔ماکا۔یہ ایک ایسا لفظ ہے کہ جسکو سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک احترام کا درجہ حاصل کرنے والی ہستی نمودار ہوتی ہے۔ رب تعالیٰ کی طرف سے عطا کر دہ اک بہترین تحفہ ماں ہے۔۔ ماں دکھوں کے لمحات میں ہمارا سہارا ہے، ماں خوشی کے عالم میں ہمارا ٹھکانہ ہے، ماں کے بغیر گھر، گھر نہیں ہوتا اور ماں اولاد کی پہلی درسگاہ ہے۔ اولاد جب پیدا ہوتی ہے تو والدین کے لیے یہ سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے، مٹھائیاں تقسیم کی جاتیں ہیں، مبارکبادیں وصول کی جاتی ہیں، اچھے نام رکھے جاتے ہیں اور اچھی تعلیم دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہی بچے کی تربیت ماں کی گود سے شروع ہو جاتی ہے۔ اچھے، برے میں تمیز ماں ہی تو سکھاتی ہے اور جو ماں سے رہ جائے وہ حالات بھی سکھا دیتے ہیں۔۔۔ والدین کی عظمت کے بارے میں قرآن الحکیم فرقان الحمید میں ارشاد ربانی ہے۔ "ان دونوں کو اف نہ کہو اور نہ ہی انھیں جھڑکو"۔ درج بالا آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ والدین کو اف کہنے کے بارے میں اس لیے ممانعت فرمائی گئی ہے کیونکہ اس سے انھیں تکلیف پہنچتی ہے اور مارنا بھی حرام ہے کیونکہ وہ بھی اذیت کا باعث بنتا ہے۔ آج کے دور میں ہم لوگ زیادہ پڑھ لکھ کر ، اسلام سے دور ہو کر والدین کے ساتھ اونچی آواز میں بات کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ بوڑھے والدین کو جھڑک کر ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے کوئی معرکہ سرانجام دیا ہے۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنی اس جوانی پر ناز کرتے ہیں جو ایک دن مٹی کا ڈھیر ہو جانی ہے۔ کبھی غور کیا ہے آپ نے کہ آپ کے ارد گرد کتنی اولادیں ایسی ہیں جو اپنی ماں کو جھڑکتی نہیں ہیں۔ یقیناً آپ بہت کم بچے ایسے پائیں گے۔ ماں اگر کوئی کام کہے تو ہماری زبانوں سے انکار یکدم نکلتا ہے۔ جیسے ہم نے یہ انکار زبان کی نوک پر رکھا ہو اور اس تاک میں ہوں کہ والدہ کوئی کام کہیں اور ہم جھٹ سے نفی کریں۔" آپ کو کیا پتا" یہ ایک ایسا جملہ ہے جو تقریباً ہر ماں اپنی اولاد سے سنتی ہے۔ وہ ماں جس نے اک عمر گزاری ہے اس فریب کی دنیا میں لیکن بچے بعض اوقات ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو ماؤں کے دلوں کو تیز دھار آلے کی صورت میں چیرنے کو کافی ہوتی ہیں۔ ماں کی اہمیت صرف انھیں معلوم ہو سکتی ہے جن کی ماں اس دنیا سے کوچ کر گئیں ہیں اور انھیں اپنی ماؤں سے ملنے کے لیے قبرستان جانا پڑتا ہے۔بیٹیوں کے لیے ماں کے بغیر میکہ، میکہ نہیں رہتا۔اکثر دیکھا گیا ہے بیٹے شادی کے بعد اپنی بیوی کی باتوں میں آ کر ماؤں کو مارتے ہیں حتیٰ کہ انھیں گھروں سے بھی نکال دیتے ہیں۔ اولڈ ایج ہوم وطنِ عزیز میں اسی غرض سے بنائے گئے ہیں کہ جو اپنی ماں سے تنگ ہو، انھیں یہاں چھوڑ جائے۔ ایک ماں آٹھ سے نو بچوں کو اکیلے پال لیتی ہے لیکن جب بڑھاپے میں اسے ضرورت ہو تو وہ آٹھ بچے مل کر اک ماں کو نہیں پال سکتے۔اے وارثو! ماں کی بد دعا اور اس کے دل سے نکلنے والی آہ سے ڈرو ۔ کہیں وہ تمہارے ساتھ ساتھ تمہاری سات پشتوں کو عبرت کی مثال نہ بنا دے۔ رب تعالیٰ ہر ماں کو اچھی اولاد اور ہر اولاد کو اچھی ماں عطا فرمائے آمین ۔ اقبال فرماتے ہیں۔ عمر بھر تیری محبت میری عمر گر رہی، میں تیری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی ۔۔۔


 

Zainab Nisar Bhatti
About the Author: Zainab Nisar Bhatti Read More Articles by Zainab Nisar Bhatti: 25 Articles with 13493 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.